قارئین٫آپ لوگ میرا آج کا عنوان دیکھ کر حیران تو ہوں گے
اسی لیے میں سب سے پہلے اسی کی وضاحت پیش کرنے والی ہوں۔
"روند"پنجابی زبان کا ایک لفظ ہے۔جس کے معنی ہیں بے ایمانی کرنا،اور آج اس
کا متبادل لفظ جوکہ مشہور ہے،وہ ہے دھاندلی۔مجھے یاد ہے بچپن میں ہم سکول
میں گیٹے کھیلا کرتے تھے،گیٹے بھی ایک کھیل ہوتا تھا۔جس میں پتھر کے پانچ
چھوٹے چھوٹے ٹکڑے استعمال ہوتے تھے جنھیں ہم گیٹے کہتے تھے۔شاید پنجاب کے
سکولوں میں ابھی تک یہ کھیل رائج ہو۔کھیل کے اصول یہ تھے کہ چند چھوٹے
چھوٹے مرحلوں سے گزر کر جب بازی مکمل ہوتی تھی تو مدمقابل پر بازہ چڑھتا
تھا۔اوراگربازی مکمل ہونے سے پہلے کھلاڑی سے اچھالا جانے والا پتھر گر جاتا
تو اسے دوسرے کو باری دینی پڑتی تھی۔مگرہم اکثر عین اسی وقت جب مخالف
کھلاڑی کا بازہ چڑھنے کوہوتا ہاتھ مار کر بازی ختم کر دیتے،اور پھر ہر طرف
سے ایک ہی شور بپا ہوتا؛
"روند مارا" "روند مارا" نہ کوئی کسی کی سنتا اور نہ ہی کوئی کسی کی
مانتا۔بالاآخر نتیجہ یہ نکلتا کہ بریک کا وقت ختم اور سب اپنے کمرہ جماعتوں
میں۔
اگر آج کل ہمارے ملک کی سیاست کا حال دیکھا جائے تو یہ بھی لے دے کر کچھ
ویسا ہی ہے۔
غریب پاکستان پر مزید غریبی مسلط کرنے کے لئے ہر پانچ سال بعد یا پھر کبھی
اس سے بھی پہلے الیکشن کروائے جاتے ہیں۔مگر ہارنے والے کا یہی رونا ہوتا
ہے۔"روند مارا"روند مارا"
پھر ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ اگلے ہی مہینے الیکشن دوبارا کروا دیے
جائیں۔
ویسے تو سب ہی جمہوریت کی تعریفوں میں ایسے پنڈورا باکس کھولتے ہیں کہ لگتا
ہے جمہوریت نہ ہوئی گویا ولایت ہی ہوگئی۔
لیکن مجھے تو لگتا ہے سارے فساد کی جڑ ہی جمہوریت ہے۔انتخابات سے پہلے سب
دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کو آگے لے جائیں گے،مگر پچھلے کئی سالوں سے آگے
صرف قرضہ اور مہنگائی ہی جارہے ہیں۔
ایک اور عجیب بات دیکھئے کچھ پرانے سیاست دانوں کی اولادیں بڑی ہو کر ان کا
ہی نقش قدم اپنا چکی ہیں۔
مگر ان کی سیاست ابھی بڑی نہیں ہوئی،وہ ہی بچوں والی ناسمجھ اور دھمکی آمیز
سیاست ہی چل رہی ہے۔آنےوالا کہتا ہے؛
" خبردار جے میرے کسے معاملے اچ لت اڑون دی کیتی تے میں تیرا سارا کچا چٹھا
کھول دینا ای"۔
اور جانے والا کہتا ہے؛
"بس اوئے جے توں میرے کسے معاملے دی بو وی سونگھی تاں میں تیرے نک اچ دم کر
دینا ای"۔
ویسے پاکستانی سیاستدانوں نے تو اسلامی فلسفہ حیات کے ساتھ ساتھ انگریز
مفکروں اور فلاسفروں کا بھی بیڑا غرق کر دیا ہے۔
مثلاً ایک مشہور و معروف انگریز فلاسفر جین پیاژے کے مطابق انسانی عقل کی
بڑھوتری کی چار سٹیجز ہوتی ہیں۔اس کے بعد انسان سمجھدار ہو جاتا ہے۔
ہمارے ہاں نہ ہی ایسا کوئی فارمولا پایا جاتا ہے۔اور نہ ہی ایسے کسی
فارمولے کو مانا جاتا ہے۔ہاں جین پیاژے نے اپنی دوسری
سٹیج"pre-oprational"میں بچوں کی جو خصوصیات بتائیں ہیں ناں وہ ہماری قوم
سے ضرور میچ کرتی ہیں۔
یعنی کے چھ سال کے بچے اپنے من کے بادشاہ ہوتے ہیں ۔کسی کی نہیں سنتے ،بس
اپنی مرضی کرتے ہیں ۔آپ آزما کر دیکھ لیں ،پاکستانی چاہے ستر سال کے ہی
کیوں نہ ہو جائیں رہتے اپنے من کے بادشاہ ہی ہیں ۔اسی لیے تو ہمارے
سیاستدانوں پر بھی بادشاہ بننے کا بھوت سوار رہتا ہے ،چاہے اس کے لیے کسی
کی بیڑی ترے یا ڈوبے۔
پاکستانی عوام مظلوم سیاستدانوں کو انصاف دلاتے دلاتے بیچاری عدالت سے ہی
محروم ہو گئی ہے۔لیکن پھر بھی ہر مہینے کچہریاں سجتی ہیں،ہرروز سڑکیں بند
ہوتی ہیں،ہر لمحے لوگ ذلیل ہوتے ہیں،لیکن فضاؤں کو ایک ہی نعرہ بے سکون
کرتاہے۔"روند مارا" "روند مارا"۔خدا کرے سیاستدانوں کو نہ سہی عوام کو ہی
تھوڑی سی سیاست آجاۓ اور وہ بے تکے لوگوں کی پیروی کرنا چھوڑ دیں تاکہ کچھ
تو کمی ہو سکے غریب پاکستان کے بڑھتے ہوئے مسائل میں۔
|