قُرآن کا اُصول حصولِ عنایات و ہدایات !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالزُخرف ، اٰیت 33 تا 42 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
لولاان یکون
الناس امة واحدة
لجعلنالمن یکفر بالرحمٰن
لبیوتھم سقفا من فضة ومعارج
علیہا یظھرون 33 ولبیوتھم ابوابا و
سررا علیھا یتکئون 34 وزخرفا وان کل ذٰلک
لما متاع الحیٰوة الدنیا والاٰخرة عند ربک للمتقین 35
ومن یعش عن ذکر الرحمٰن نقیض لهٗ شیطٰنا فھولهٗ قرین 36
وانھم لیصدونھم عن السبیل ویحسبون انھم مھتدون 37 حتٰی
اذاجاءنا قال یٰلیت بینی و بینک بعدالمشرقین فبئس القرین 38 ولن
ینفعکم الیوم اذظلمتم انکم فی العذاب مشترکون 39 افاانت تسمع الصم
او تھدی العمی ومن کان فی ضلٰل مبین 40 فاما نذھبن بک فانا منھم منتقمون
41 او نرینک الذی وعدنٰھم فانا علیھم مقتدرون 42
اے ہمارے رسُول ! اگر ہم نظامِ عالَم میں انسان کی عملی صلاحیت کو حصولِ عنایات کا معیار نہ بناتے تو اہلِ زمین اپنی مُختلف عملی صلاحیتوں کے ساتھ مُختلف اشیاۓ ضرورت کبھی نہ بنا پاتے اور اپنی اُن بنائی ہوئی اشیاۓ ضرورت کا اہلِ زمین کے ساتھ تبادلہِ مال بھی نہ کر پاتے اور اسی طرح اگر ہم نبوت و رسالت کی علمی صلاحیت کو حصولِ ہدایات کا معیار نہ بناتے تو اہلِ زمین نبوت کی علمی صلاحیت کے مطابق ایک دُوسرے کے ساتھ تبادلہِ خیال بھی نہ کرپاتے اور اگر ہم اہلِ زمین میں علم و عمل کی یہ صلاحیت پیدا نہ کرتے تو زمین میں انسانی اخوت کا وہ عالَمگیر نظام بھی مُتعارف نہ ہو پاتا جس عالَمگیر نظام کے مُتعارف نہ ہونے کے باعث زمین کے طاقت ور طبقات زمین کے جُملہ وسائلِ پر اپنا قبضہ جما کر اپنے گھروں کے دروازے ، اپنے گھروں کے تخت اور اپنے گھروں کی چھتوں پر جانے والے زینے بھی چاندی دھات سے بنانے کے خبط میں مُبتلا ہوجاتےجس سے نظامِ عالَم غیر متوازن ہو کر رہ جاتا اِس لیۓ ہم ہمیشہ ہی اپنے اِس عالَم میں اپنے اہلِ صلاحیت بندوں کے لیۓ اپنے اہلِ علم بندوں کے ذریعے اپنی وحی کی وہ تعلم بھی بہیجتے رہے ہیں جو انسان کو حقیقت آشنا بناتی ہے اور انسان جان جاتا ہے کہ زندگی آرائش و آزمائش کے ایک امتزاج سے متوازن ہوتی ہے اور افراط و تفریط سے غیر متوازن ہو جاتی ہے لیکن عالَم کے زیادہ تر انسان چونکہ خالقِ عالَم کے اِس ضابطہِ عالَم سے انحراف کرتے رہتے ہیں اِس لیۓ عالَم کے سرکش لوگ عالَم کے سرکش لوگوں کے ساتھ مل کر عالَم کے کم زور انسانوں پر اپنا وہ معاشی و معاشرتی تسلط قائم کر لیتے ہیں جس سے اِس عالَم کا اجتماعی ضمیر اِس فریب کا شکار ہو جاتا ہے کہ عالَم میں اُن کا جو بھی عمل ہو رہا ہے وہ خالقِ عالَم کے ضابطے کے عین مطابق ہو رہا ہے حالانکہ وہ عالَم کے ضابطے کے بالکُل ہی خلاف ہو رہا ہوتا ہے لیکن یہ حقیقت اُس وقت انسان کے سامنے آتی ہے جب انسان کے اِس اندھے خیالی نظام کے اَندھا دُھند تنائج اپنی پُوری شدت کے ساتھ اُس کے سامنے آنے لگتے ہیں اور وہ کفِ افسوس ملتے ہوۓ کہتا ہے کہ کاش کہ ہمارے اور ہمارے گم راہ کرنے والے اِن طاقت طبقوں کے درمیان مشرق و مغرب کا وہ بُعد پیدا ہوجاۓ کہ نہ وہ ہم کو اپنی طاقت کے زور پر گم راہ کر سکیں اور نہ ہم اپنی کم زوری کے باعث اُن سے گُم راہ ہو سکیں لیکن اُس وقت اُن سے کہا جاتا ہے کہ تُم ہمیشہ ہی باہم مل کر یہ فساد فی الارض کیا کرتے رہے ہو اِس لیۓ اَب تُم اپنے اعمالِ بد کے نتائجِ بد کے اِس عذاب کو بھی باہم مل جُل کر ہی برداشت جو تُمہارے اجتماعی عمل ہی کا ایک رَدِ عمل بن کر تُم پر وارد ہوا ہے ، آپ اگرچہ اِن اندھے بہرے اور گم راہ لوگوں کو ہدایت کی طرف لانا چاہتے ہیں لیکن یہ اندھے ، بہرے اور گُم راہ لوگ اپنے اسی اندھے پن اور اپنے اسی بہرے پن کی اسی گم راہی پر قائم رہنا چاہتے ہیں اور اَب وہ اپنی اِس حسرت میں بھی مرے جا رہے ہیں کہ اگر آپ دُنیا سے رخصت سے ہو جائیں تو اِن کو بلا روک ٹوک ہی گم راہ ہونے اور گم رہنے کی آزادی مل جاۓ لیکن آپ اِن کو اِن کے جن اعمالِ بد کے نتائجِ بد سے ڈراتے رہتے ہیں اُن کے اُن عمالِ بد کے وہ قُدرتی نتائج آپ کی موجودگی میں بھی اِن پر ظاہر ہو سکتے ہیں اور آپ کے بعد بھی اِن پر عذاب بن کر ٹُوٹ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے نظامِ عالَم میں ہماری قُوتِ کاملہ اور ہماری قُدرتِ کاملہ کے تحت عمل اور رَدِ عمل کا یہی قانُون ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ جاری و ساری ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی اٰیاتِ بالا کا یہ مضمون بھی قُرآنِ کریم کی اُن سابقہ اٰیات کے اُس سابقہ مضمون کے ساتھ ایک گُندھا ہوا مضمون ہے جس مضمون میں پہلے یہ پہلی بات ارشاد فرمائی گئی ہے کہ انسان کے لیۓ اللہ تعالٰی کی عنایات اگرچہ عالَمِ عمل کے ہر گوشے میں پانی اور ہوا کی طرح عام ہیں لیکن اللہ تعالٰی کی اِن عنایات کا حصول ہر انسان کی عملی صلاحیت کے ساتھ کُچھ اِس طرح سے جُڑا ہوا ہے کہ اللہ تعالٰی کی کوئی عنایت کسی محنت کے بغیر ہی ہوا کی طرح چل کر انسان کے پاس نہیں آتی بلکہ انسان کی محنت و مشقت کے بعد آتی ہے اور اسی طرح اللہ تعالٰی کی ہر عنایت جو پانی کی طرح انسان کے اَطراف میں ہوتی ہے اُس کو بھی ہر تشنہ آب طلب اور نشنہ لَب انسان اپنی تشنہ لبی کے مطابق تلاش کرکے اپنی تشنگی مٹاتا ہے اِس لیۓ فطرت کے اِس اُصول کے مطابق جو انسان اللہ تعالٰی کی جس عنایت کے لیۓ اپنی عملی صلاحیت کا جس قدر زیادہ مظاہرہ کرتا ہے وہ انسان اسی قدر زیادہ اللہ تعالٰی کی اُس عنایت کا حق دارہو جا تا ہے اور جو انسان اللہ تعالٰی کی جس عنایت کےلیۓ اپنی عملی صلاحیت کا جس قدر کم استعمال کرتا ہے وہ انسان اسی قدر کم اُس عنایت کا حق دار ہو پاتا ہے اور اللہ تعالٰی نے اپنے اِس ارشاد کی وجہ بیان کرتے ہوۓ یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اگر ہم انسان کی اِس عملی صلاحیت کو انسان کی اِس کامیابی کے لیۓ کلید نہ بنادیتے تو عالَم کے مُختلف انسان اپنی مُختلف صلاحیتوں کے ساتھ اپنی مُختلف اہلیتوں کے مطابق وہ مُختلف عالمی مصنوعات بھی تیار نہ کرپاتے ، اُن مصنوعات کو ایک دُوسرے کے لیۓ مقبول بھی نہ بنا پاتے اور عالَم میں اپنی اُن مصنوعات کا مالی و صنعتی تبادلہ بھی نہ کر پاتے جو صنعتی و مالی تبادلہ اُن کی عالَم گیر معاشرت کی ایک عالَم گیر بُنیاد بن کر اُن کو ایک عالَم گیر معاشی و معاشرتی نظام کا حصہ بنا سکتی اِس لیۓ اللہ تعالٰی نے انسان کو حیات و معاشِ حیات اور معاشرتِ حیات سکھانے کے لیۓ اہلِ زمین کے لیۓ اپنی اُس نبوت و رسالت کا اہتمام کیا ہے جس کے جلَو میں آنے والے علمِ وحی نے انسان کو وہ عادلانہ علمی نظام دیا ہے جس علمی نظام کا مقصد انسان کو اُن فطری اصولوں سے آگاہ کرنا رہا ہے اور آگاہ کرنا ہے جن اصولوں کو اختیار کر کے انسان اُس حرص و ہوس سے بچ سکتا ہے جو حرص و ہوس اُس کو ہمہ وقت اُن محلات کے اِن خیالات میں مُبتلا کیۓ رکھتی ہے کہ اُس کے گھر کے دروازے چاندی کی دھات سے بنے ہوۓ ہوں ، اُس کے گھر کی چھت بھی چاندی کی دھات سے بنی ہوئی ہو اور اُس کی چھت تک جانے والے زینے بھی چاندی کی دھات سے بنے ہوۓ ہوں اور اللہ تعالٰی کے اِس ارشاد میں انسان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر اہلِ زمین میں اللہ تعالٰی کی اِس وحیِ ہدایت کی یہ روشنی موجُود نہ ہوتی تو انسان اُن اخلاقی قدروں سے بھی آشنا نہ ہو پاتا جو اخلاقی قدریں انسان کو وہ عادلانہ اصول سکھاتی اور وہ اخلاقی ضابطے یاد دلاتی ہیں جو اصول اور ضابطے اُس کو وہ حُسنِ تکلم سکھا دیتے ہیں جو حُسنِ تکلم انسان کو ایک دُوسرے کے ساتھ وہ بامقصد تکلم کرنا سکھا دیتا ہے جس بامقصد تکلم کے حُسنِ تکلم کی مدد سے وہ اپنی اُن مصنوعات کو دُنیا کے ایک سرے سے دُنیا کے دُوسرے سرے تک پُہنچا دیتا ہے ، اٰیاتِ بالا میں وارد ہونے والے اِن اَمور کو مزید واضح کرنے کے لیۓ اِن اَمور پر یہ مزید روشنی بھی ڈالی گئی ہے کہ زمین کے زیادہ تر انسان جو اللہ تعالٰی کی اِس وحی کے اِن اَحکامِ نازلہ سے رُو گردانی کرتے ہیں وہ اپنے اِس انکارِ حق کے نتائجِ برحق سے بے خبر ہوتے ہیں اور جب اُن کے اِن اعمال بد کے نتائجِ بد اُن کے سامنے آتے ہیں تو تب اُن کو اِس اَمر کا احساس ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کے جس دینِ حق سے مُنحرف ہو کر اپنے جن شیطان صفت یا شیطان صورت رہنماؤں کی اتباع کر کے اپنی دُنیا و عاقبت برباد کرتے رہے ہیں کاش کہ اُن جابروں اور اِن مجبوروں کے درمیان مشرق و مغرب کا وہ بُعد پیدا ہو جاۓ کہ وہ شیطان رہنما اِن کو دوبارہ کبھی گم راہ نہ کر سکیں اور وہ اِن گم راہ رہنماؤں سے دوبارہ کبھی گم راہ نہ ہو سکیں لیکن جب قُدرت کی طرف سے آنکھیں کھول دینے والا یہ انقلاب آتا ہے تو وہ اپنے اِس نقلابی اعلان کے ساتھ آتا ہے کہ تُم نے ایک دُوسرے کے ساتھ باہم مل کر جو بویا ہے وہ تُم نے باہم مل کر ہی کاٹنا ہے کیونکہ جزاۓ عمل اور سزاۓ عمل کا یہ قانون ہمارا وہی قانون ہے جو اِس سے پہلے بھی کبھی نہیں بدلا ہے اور اِس کے بعد بھی کبھی نہیں بدلے گا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 447308 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More