ساری د نیا پر گلا بی رنگ کر د و

کیا یہ ممکن ہے کہ میرا یہ مضمون شائع ہو اور اس کی زمین کا رنگ گلابی ہو یعنی یہ گلابی رنگ کے صفحے یا بیک گراونڈ پر شائع ہو

چلیں‌ اگر یہ نہیں ہو سکتا یہی کردیں کہ اس کے تمام حروف گلابی ہوں جائیں

اچھا یہ سب ناممکن ہے تو کم از کم یہ تو کریں کہ جو مضمون بھیج رہا ہوں اس کے گرد گلابی حاشیہ ہی ڈال دیں

اور میری یہ باتیں سن کر نیٹ میگزین کی ایڈیٹر جھلا سی گئیں لیکن چونکہ میں ان کے میگزین کا سب سے پرانا لکھاری تھا اس لئے اپنی جھلاہٹ پوشیدہ رکھنے کی سعی کرتے ہوئے پوچھا کہ آخر میں چاہتا کیا ہوں - کیوں گلابی رنگ کرنا چاہتا ہوں اور کیوں اس پر زور دے رہا ہوں -
میں ان کی اس بات پر چونک گیا - غلطی میری ہی تھی - میں نے یہ سب کر نے کا مقصد تو بتایا ہی نہیں تھا -

تب میں نے کہا کہ میں خواتین میں پھیلنے والے مرض 'چھاتی کا کینسر " کا دن منانے کی نسبت سےیہ بات کہہ رہا ہوں - اس دن کو گلابی ربن کا دن ( پنک ربن ڈے ) کہتے ہیں - میرا دل چاہتا ہے کہ ساری دنیا پر گلابی رنگ پھیر دوں اور دنیا کو اس خطرے سے آگاہ کروں جو بریسٹ کینسر کے عنوان سے ہم پر چھا رہا ہے -
ایڈیٹر صاحبہ کے چہرے پر جھلاہٹ جو پھیلی ہوئی تھی وہ آہستہ آہستہ معدوم ہوگئی اور چہرے پر پہلے کی طرح مسکراہٹ چھاگئی - جو ان کی پہچان تھی - "ہوں‌ں‌ں‌ ---------------- تو یہ معاملہ ہے " کرسی کو ٹیک لگاتے ہوئے وہ بولیں -اب وہ پوری طرح ریلیکس ہوگئیں تھیں - انہوں نے نہایت تحمل اور برد باری سے کہا کہ کیا آپ کو علم نہیں کہ پاکستان میں تمام اہم عمارات کو اس دن کی نسبت سے گلابی رنگ کی روشنی میں نہلا دیا گیا تھا - لیکن لوگوں نے ایک آنکھ سے دیکھا اور دوسری آنکھ سے نکال دیا -
مشہور محاورے کی یہ بگڑی صورت بنتے دیکھ کر میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی انہوں نے ہاتھ بلند کئے -ان کی مسکراہٹ میں مزید اضافہ ہوگیا -" آج کل کے حالات کے مطابق اصل جملے کو یہ روپ دیا ہے -" میگزین کی ایڈیٹر صاحبہ صحیح کہہ رہی تھیں - ہمارے پاس پند و نصائح سننے اور کسی اچھی بات کا سبق دیتے ہوئے اشتہار دیکھنے کے لئے وقت نہیں ہے یا ہم توجہ ہی نہیں دیتے - ہمارے اس روئیے کے باوجود حکومت پاکستان نے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے اس مرض سے آگاہی کے لئے ایک بھرپور مہم چلائی تھی - اے ٹی ایم مشینوں کے اندر ، مختلف بلوں کے اندر ،اخبارات ، ٹی وی کے ذریعے یہاں تک کہ ٹیلی فون کال کے وقت ایک ریکارڈ شدہ پیغام کے ذریعے اس مرض کے بارے میں درس دیا جاتا تھا لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات - بلکہ کچھ لوگوں نے تو اعتراض بھی کر دیا کہ ایسی فحش باتیں ٹیلی فون پر کیوں سنائی جارہی ہیں - اس قسم کی سوچ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں مشہور فیس بک نے بھی اسی قسم کے سویڈن کی کسی تنظیم کے خواتین کے بریسٹ کینسر کے بارے میں تیار کردہ ایک آگاہی اشتہار پر پابندی عائد کر دی تھی جس میں چھاتی میں پڑنے والی گٹھلی اور سوجن کے بارے میں بتایا گیا تھا - تاہم بعد میں فیس بک نے اس کی اہمیت کا احساس کر کے اسے دکھانے کی اجازت دے دی تھی - سوئیڈن کی تنظیم نے بھی کچھ اشتہار میں ترمیم کی کہ چھاتی کو گول دائرے کی شکل میں دکھانے کی بجائے مربع (اسکوئر ) شکل میں دکھانے لگے -


پاکستان کی مشہور افسانہ نگار اور روزنامہ ایکسپریس کی کالم نگار خاتون ابھی کچھ عرصہ پہلے کینسر کے عارضے سے صحت یاب ہوئی ہیں‌ - اپنے کالم میں لکھتی ہیں
جب تین چار مہینے پہلے ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ کینسر ان پر حملہ آور ہو چکا ہے تو ان کی عجب حالت ہوگئی -ان کا دماغ بالکل شل ہو گیا -چند لمحوں یا چند منٹوں کے لئے نہیں بلکہ گھنٹوں کے لئے - راتوں کی نیند غائب ہوگئی اور دن میں بھی ایک اضطرابی کیفیت طاری رہتی تھی - خود کو دلاسہ دینے کی کوشش کرتیں لیکن ناکام ہی رہتیں - پریشانی کے عالم میں ایک دم کھڑی ہو جاتی تھیں اب کیا ہوگا - کسی پل چین ہی نہیں آتا تھا - قران مجید کا سہارا لینے کی کوشش کی -سورۃ الرحمن کی تلاوت باقاعدگی سے بطور علاج سننے لگیں وہ کہتی ہیں کہ تلاوت سنتے سنتے ایک دن خیال آیا کہ موت تو بر حق ہے ، سب کو مرنا ہے، کسی نہ کسی وجہ سے، کسی نہ کسی بہانے سے -- کسی نہ کسی سبب سے - پھر یہ خوف کیوں ؟ ایک نیا شعورپیدا ہوا -ایک حقیقت نئے طریقے سے دل میں اتری تو زندگی کو جیسے قرار آگیا - پہلے جو الٹی سیدھی سوچوں میں محصور تھیں ، ان سے نجات ملی -ایسے محسوس ہونے لگا کہ اس نئے شعور اور احساس کے سہارے چلتی رہیں‌ تو علاج کے مرحلے آسان ہو جائیں گے اور ایسا ہی ہوا - خیر ابھی جنوری 2022 کے اوائل میں ان کا آپریشن ہوا اور کینسر کو نکال دیا گیا ہے - اب کیمو تھراپی کے مراحل سے گزر رہی ہیں - جسم کے باقی حصوں یا غدودوغیرہ میں اس کی موجودگی کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا - اس لئے آپریشن کے بعد یہ اعمال کئے جاتے ہیں کہ یہ عفریت پھر جاگ نہ جائے -
انہوں نے سب سے د رخواست کی ہے کہ ان کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے آ سا نیاں فرما ئے-

وہ کیا اسباب ہیں جو اس مرض کا باعث بنتے ہیں - ان کے بارے میں کوئی واضح تصویر سامنے نہیں آئی ہے البتہ طبی محققین کی ایک بڑی رائے یہ ہے کہ ذہنی دباؤ ، ڈ یپر یشن ،مایوسی اور تنہائی کی شکار ، خواتین میں اس مرض کے در آنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں - دوسری امکانی وجہ صحیح متوازی خوراک کا نہ ہونا ہے -یہ موروثی طور پر بھی آسکتی ہے - یعنی مان سے بیٹی کو اس لئے اگر کبھی ماضی میں ماں اس مرض میں لاحق ہوئی تھی اور اب صحیح ہے تب بھی خد شات ہیں کہ بیٹی میں بھی یہ مرض نہ آجائے - بچوں کو طویل عرصے تک دودھ پلا کر بریسٹ کینسر کے خطرہ میں کمی کر سکتی ہیں - بی بی سی میں رضا ہمدانی نے اس بارے میں ایک طویل مضمون تحریر کیا - انہوں نے پاکستان میں بریسٹ کینسر کے لیے کام کرنے والی تنظیم پِنک ربن کے چیف ایگزیکٹیو عمر آفتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کئی باتیں کیں - عمر آفتاب فیس بک پر بھی موجود ہیں - عمر آفتاب کے مطابق ایشیا میں پاکستان وہ ملک ہے جہاں بریسٹ کینسر سب سے زیادہ ہے - پاکستان میں ہر نو خواتین میں سے ایک کو بریسٹ کینسر ہونے کا احتمال ہے یعنی ملک میں تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ خواتین کو یہ کینسر ہونے کا خطرہ ہے۔ شروع میں جب پاکستان میں اس ہولناک مرض نے قدم جمائے تھے تو یہ صرف ادھڑ عمر کی خواتین ( یعنی 50 سے 60 سال برس کی خواتین ) میں پایا جاتا تھا لیکن اب کم عمر کی خواتین بھی اس کے نرغے میں آرہی ہیں - یہ سوچنا کہ صرف دوسرے تیسرے درجے کے ممالک کی خواتین ہی اس میں مبتلا ہوتی ہیں غلط ہے ترقی یافتہ ممالک کی خواتین بھی اس کا شکار ہورہی ہیں‌

پاکستان میں خواتین اس مرض کا شکار ہوتی ہیں اور فوت بھی ہو جاتی ہیں لیکن ہمیں پتہ نہیں چلتا -البتہ جب کوئی مشہور اسٹار ،مشہور شخصیت ، مشہور اداکارہ ‘ گلوکارہ' ڈرامہ آرٹسٹ اس مرض سے وفات پاتی ہے تو علم ہوتا ہے کہ یہ بھی کوئی مرض ہے جو پھیلا ہوا ہے - لیکن ہم سنی ان سنی کر دیتے ہیں - کیوں ؟ کیا کبھی اس اذیت کا اندازہ کیا ہے جس میں سے وہ خاتوں گزری ؟ کیا اس تکلیف کا احساس کیا جو اس خاتوں نے جھیلی ؟‌-- میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ہر گز نہیں - کسی کی انگلی میں ایک پھانس چبھ جائے تو کس قدر بے چینی محسوس ہوتی ہے - ذرا سوچیں - میں بھی زیادہ لکھنے سے پرہیز کروں گا بس اتنا کہوں گا کہ کبھی کبھار زخم میں کیڑے بھی پیدا ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد سب سے گزارش کروں گا کہ خدارا اس مرض کو چھوٹا مت سمجھئے اور شروع ہی سے گرفت میں لانے کی کوشش کیجئے -

احتیاط علاج سے بہتر ہے - یہ محاورہ یا فقرہ بچپن میں یاد کرایا جاتا تھا - اس کی انگریزی بھی سکھائی جاتی تھی - اس وقت یاد ہوا یا نہیں اس کو چھوڑئیے اب اسے یاد کرلیں بلکہ گرہ میں محفوظ کرلیں - کیونکہ یہی ایک چیز ہے جس سے ہم اس مرض کی تباہ کاریوں کو پنپنے سے پہلے ہی گلا گھونٹ کے ختم کر سکتے ہیں - جی ہاں اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس مرض کے پیدا ہونے کے (خدا نخواستہ ) آثار تو نہیں پیدا ہوگئےہیں - مثلاً کسی گلٹی کا پیدا ہوجانا - یہ گلٹی بریسٹ کے علاوہ بغل میں بھی ہو سکتی ہے - بریسٹ کا اندر دھنس جانایا سخت ہوجا نا یا اس پر کسی قسم کی سوجن محسوس کرنا - یا نپل سے کسی قسم کی رطوبت کا اخراج تو نہیں ہورہا - ایسا ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیئے - بالکل ابتدائی اسٹیج پر الٹرا ساونڈ سے بھی اس بارے میں تشخیص کی جاسکتی ہے -
مرد حضرات میں یہ مرض بہت کم ہے - اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ آغا خان ہسپتال میں گزشتہ تیس برس میں مردوں کی چھاتی کے سرطان کے صرف چالیس کیس آئے

اور ہاں یہ بھی جان لیجئے کہ اس کا علاج ارزاں نہیں - ایک مریض نے جو اس مرض کا مقابلہ کرکے صحت یابی کی منزل کی طرف گامزن تھا نے دکھ سے کہا کہ دوستوں ' رشتے داروں اور احباب کو مریض پر رحم کھانے کی بجائے معاشی مدد کا انتظام کر نا چاہئے -

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 333221 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More