غرور

باہر بہت اندھیرا تھا۔ رات کے دو بجے تھے اور وہ پچھلے کئ گھنٹوں سے موبائیل پکڑے کچھ ٹائپ کر رہی تھی ۔صبح تک اسے یہ اسائینمنٹ تیار کرنی تھی۔جب سے اس کا لیپ ٹاپ خراب ہوا تھا ،یہ موبائیل ہی اس کے سارے کاموں کی چومکھی جنگ لڑ رہا تھا ۔ اس بار تو کلاس میں ٹاپ میں ہی کروں گی ،اس نے سوچا اور تیزی سے ٹائپ کرنے لگی۔کام کرتے کرتے اسے نیند کے جھونکے آنے لگے اور پتہ نہیں کب ،موبائیل اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا ۔اب وہ بے خبر نیند کی وادی میں اتر چکی تھی ۔کام وہیں کا وہیں رہ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باجی درزی سے مخاطب تھیں ۔دیکھیں بھائ صاحب ، یہ کپڑے آپ نے ہر حال میں تین دن کے اندر سینے ہیں کیونکہ چوتھے دن ہم نے سفر پہ روانہ ہونا ہے ۔وقت کم ہے ،کام زیادہ۔ آپ بے شک سلائ ڈبل لے لیں لیکن کپڑے وقت پہ سی دیں ۔۔
درزی بچوں کی سکول فیس کا سوچتے ہوئے کہنے لگا ،ٹھیک ہے میں سی دوں گا اور تیزی سے مشین چلانے لگا۔
تین دن گزرنے کے بعد شام کو باجی دکان پہ گئیں تو یہ دیکھ کے وہیں کی وہیں کھڑی رہ گئیں کہ دکان پہ موٹا سا تالا لگا ہوا تھا۔ باجی نے ساتھ والی دکان سے درزی کا پوچھا تو وہ افسوس سے سر ہلانے لگا ۔۔۔۔۔باجی درزی تو دو دن پہلے ہارٹ اٹیک سے فوت ہوگیا ۔بے چارے پہ کام کا اتنا بوجھ تھا کہ وہ سہہ نہیں سکا۔۔۔ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے ۔۔۔۔۔
لیکن باجی تو اپنا سر پکڑ کے بیٹھ گئیں ۔وہ اپنے کپڑوں کے بارے میں سوچ رہی تھیں۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہونہہ ! مجھے تو ذرا پسند نہیں آۓ وہ لوگ !لڑکے کی بہن نے ڈرائینگ روم میں داخل ہوتے ساتھ ہی اپنا ہینڈ بیگ صوفے پہ پھینکا اور خود بھی وہیں بیٹھ گئیں ۔۔
لیکن کیوں آپا ؟لڑکا پاس آکے بیٹھ گیا۔۔۔۔ سلجھے ہوۓ لوگ ہیں ۔میرے کالج کے پروفیسر صاحب کی بیٹی ہے ۔میری کلاس فیلو ہے ۔بہت اچھا گھرانہ ہے۔ آپ کو کیا اعتراض ہے ؟۔
آپا نے منہ بسور کے کہا "چھوٹا سا گھر ہے ،پتلی سی لڑکی ہے ، نہ کوئ ٹھاٹھ باٹھ ہے نہ کوئ شان بان ! ہم کیسے وہاں تمہارا گھر بسادیں ؟ "
بی بی جی ، یہ آپ کے نام کوئ لیٹر دے گیا تھا ، ملازمہ نے ایک بند لفافہ آپا کے ہاتھ میں تھمادیا۔
کیا ہے اس میں ؟ آپا نے جیسے ہی لفافہ کھولا ،دھاڑیں مار کے رونے لگیں ۔ کیا ہوا آپا؟ لڑکے نے لیٹر دیکھا تو اس کے بہنوئی نے آپا کو ڈائوورس دے دی تھی !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان واقعات سے ملتے جلتے کی واقعات ہمارے اردگرد رونما ہوتے رہتے ہیں ۔جن کے اسباب ونتائج سے ہم بالکل ناواقف ہوتے ہیں ۔زندگی کبھی ایک حالت میں نہیں رہتی۔
~ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں !
کئ حادثات اور صدمے ہمیں اتنا توڑ پھوڑ کے رکھ دیتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے ہم اپنی ذات کی کرچیاں کبھی سمیٹ نہیں پائیں گے لیکن وقت ایسا مرہم ہے جو بہت بڑے زخم بھی بھر دیتا ہے ۔ان واقعات کے پیچھے رب العالمین کی قدرت کارفرما ہے ۔وہی نظام عالم چلا رہا ہے ۔وہ ہمیں دکھ اور سکھ کے معانی سمجھاتا ہے ۔وہ ہمیں شکر اور صبر سکھاتا ہے۔بعض اوقات یہ دنیا ،انسان کا ہر مان ،ہر غرور پاش پاش کر دیتی ہے ۔وہ جن چیزوں سے محبت رکھتا ہے وہ اس سے چھوٹ جاتی ہیں ۔ زندگی اسے زیرو کے مقام پر لاکھڑا کرتی ہے،ایسے مسافر کی طرح جو طویل مسافت کے بعد پھر اسی جگہ پہنچ جائے جہاں سے اس نے سفر کا آغاز کیا تھا۔تب انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ تو بالکل تنہا ہے۔ کسی نے اس کی قدر نہیں کی ،کسی نے اسے سمجھا ہی نہیں ۔سواۓ ایک اللہ کے !وہی اس کے دل کا حال جان سکتا ہے ۔پھر انسان خالص ہوکر اپنے رب کو پکارتا ہے ۔یہی وہ پوائنٹ ہے جہاں اس کا رب اسے لانا چاہتا ہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں ایک طرف بندہ ہے ،دوسری طرف رب ہے،
ڈائیریکٹ کنیکشن ہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو اس مقام تک پہنچ گئے جنھیں رب مل گیا۔اب رب العالمین انھیں نئے سرے سے بنادے گا کیونکہ وہ "یبدی و یعید"ہے ،وہ ابتدا کرتا ہے پھر اس تخلیق کا اعادہ بھی کرتا ہے ۔ اب انسان کی توجہ کا مرکز اس کے رب کی ذات ہے ۔اس کو راضی کرنا ،اس سے ڈرتے ہوئے گناہوں سے بچنا،اس سے دعائیں مانگنا،دنیا سے لا پروا ہوجانا ،کون اس کے خلاف ہے ،کون سازشیں کر رہا ہے ،اب اسے کسی کی پروا نہیں ہوتی۔ اب صرف رب کی پروا کرنا ہے ۔اس کی خوشنودی کے کام کرنے ہیں ۔ عبادت اور مخلوق خدا کی خدمت کے سارے فرائض ادا کرنے ہیں اور پھر چپکے چپکے رب کو بتانا ہے کہ مالک یہ کام تجھے راضی کرنے کےلئے کئے ہیں ،انھیں قبول فرما لے ۔قرآن پاک میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ :"وما الحیاۃ الدنیا الا متاع الغرور"(سورہ آل عمران)۔ یعنی بے شک دنیا کی زندگی تو دھوکا دے جانے والی ہے۔
تو اب کرنا کیا ہے ؟ ہمارا کام یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت میں گھر بنانا ہے۔ جنت سے محبت کرنی ہے ۔ وہاں کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے یہاں محنت کرنی ہے ۔دین کا علم سیکھنا ہے جو ہمیں جنت کے راستے پر چلا سکے ۔۔۔۔۔بقول علامہ اقبال از ضرب_کلیم :
~ تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے !
۔