وزیراعظم عمران خان نے کمال کردیا امریکہ کو دو ٹوک جواب نے کروڑوں
مسلمانوں کا سر فخرسے بلندکردیا بلاشبہ ایک مسلم ملک کے سربراہ کو ایسا ہی
ہونا چاہیے۔ عمران ،ان نے بانگِ دہل کہا ہے کہ ہم امریکا کے ساتھ امن کے
شراکت دار تو بن سکتے ہیں لیکن جنگ میں شراکت دار نہیں بن سکتے۔ جو قوم
اپنی عزت نہیں کرتی تو دنیا اس کی عزت نہیں کرتی، کبھی اس قوم نے کسی کے
خوف سے اپنی خودمختاری پر سمجھوتا نہیں کرنا، سارا پاکستان ان دلیر
کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے، ہم سب ان کے ساتھ کھڑے ہیں، جب تک بھارت 5 اگست
کا اقدام واپس نہیں لے گا ہم ان سے سفارتی تعلقات بحال نہیں کریں گے۔ 'لا
الہ الا اﷲ انسان میں غیرت دیتا ہے اور غیرت کے بغیر نہ کوئی انسان کوئی
کام کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ملک اٹھتا ہے۔ جب میں اپوزیشن میں بیٹھتا تھا
اور پیپلزپارٹی بھی ہمارے ساتھ بیٹھی تھی تو یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہم
دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کا حصہ بن رہے ہیں۔ اپنی زندگی میں
پاکستانی ہوتے ہوئے مجھے سب سے زیادہ ذلت اس وقت محسوس ہوئی تھی۔ وزیراعظم
نے کہا کہ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہم امریکا کی فرنٹ لائن سٹیٹ بن جائیں
گے۔ اس وقت اسمبلی میں میری ایک نشست تھی مگر میں اس وقت بھی کہتا تھا کہ
اس جنگ سے ہمارا کیا تعلق ہے، القاعدہ افغانستان میں ہے، مسلح طالبان
افغانستان میں ہے، ہم نے کیا کیا ہے جو ہم ان کی جنگ کا حصہ بنیں۔ عمران
خان نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میری قوم ہمیشہ کے لیے یہ سیکھے کہ کوئی
قوم اس وقت آگے بڑھتی ہے جب وہ اپنی غلطیوں سے سیکھے، ہم نے اس وقت جو
حماقت کی، میں ان میٹنگز میں شریک تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ فیصلہ کیا گیا
تھا کہ امریکا بڑا ناراض ہے، اس کے لیے زخمی ریچھ کا لفظ استعمال کیا گیا
کہ کہیں بھی ہاتھ ماردے گا۔ لہذا ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے لیکن ہم نے اس
کے بعد جو کیا، کیا قوم کسی اور کی جنگ میں شرکت کرکے اپنے 70 ہزار لوگوں
کی قربانی دیتی ہے؟۔ امریکی جنرل نے کتاب میں لکھا کہ ہم جانتے تھے کہ مشرف
کمزور تھا تو ہم اس پر دباؤڈالتے رہے، مشرف سے جو کہا کرنے کا تیار ہوگیا،
اپنے لوگ پکڑ کر گوانتاناموبے بھجوایا۔ پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا
کہ انہوں نے پیسے لے کر لوگوں کو بھجوایا، مگر کس قانون کے تحت؟۔ وزیراعظم
نے کہا کہ اگر حکومت ہی اپنے لوگوں کی حفاظت نہیں کرتی تو ان کی حفاظت کون
کرے گا؟۔ انہوں نے مزید کہا کہ بات یہاں تک نہیں رکی قبائلی علاقے میں تورا
بورا کے بعد القاعدہ آگئی، قبائلی علاقے میں اوپن بارڈر تھا ہمیں انہوں نے
حکم دیا کہ وہاں اپنی فوج بھیجیں اور چند سو القاعدہ کے لئے ہم نے قبائلی
علاقے میں اپنی فوج بھیج دی۔ میں نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کی مخالفت کی
تو مجھے طالبان خان بنادیا گیا، جب میں کہتا تھا کہ افغانستان کا کوئی فوجی
حل نہیں تو طالبان کا حامی کہا گیا، وہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا
ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ہمارا دوست کون ہے اور دشمن کون؟۔ وزیراعظم نے
سوال کیا کہ30سال سے لندن میں ہمارا ایک دہشت گرد بیٹھا ہوا ہے، ہم اسے
ڈرون ماریں گے تو کیا برطانیہ اجازت دے گا؟ اگر ہم لندن میں ڈرون حملہ کرتے
ہیں تو اس کی اجازت دی جائے گی؟ وہ اجازت نہیں دیں گے تو ہم نے اجازت کیوں
دی؟۔ لوگوں سے جھوٹ کہا گیا کہ ہم ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہیں، امریکی
سینٹ میں جب ایڈمرل سے پوچھا گیا کہ آپ پاکستان میں ڈرون حملے کیوں کررہے
ہیں جب ان کی حکومت مذمت کررہی ہے تو انہوں نے کارل لیون کو جواب دیا تھا
کہ ہم حکومت پاکستان کی اجازت سے کررہے ہیں اس پر انہوں نے کہا تھا کہ
پاکستانی حکومت دوغلی کیوں ہے؟۔ ہم نے اپنے آپ کو ذلیل کیا، امریکا کو کیوں
برا بھلا کہیں جب آپ نے خود اجازت دی ہو، آپ ان کی مدد کررہے ہیں، آپ کے
لوگ مررہے ہیں ان کے لیے اور وہ آپ ہی پر بمباری کررہے ہیں دنیا میں اس کی
مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ جب امریکی نیوی سیلز نے ایبٹ آباد میں
اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کیا تو اوورسیز پاکستانیوں کو بہت ذلت ملی،
پھر سے کہتا ہوں جو قوم اپنی عزت نہیں کرتی تو دنیا اس کی عزت نہیں کرتی،
مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان، امریکا کو فضائی اڈے دے گا؟ میں ان سے یہ
پوچھوں کہ جب ہم نے اتنی خدمات پیش کیں، ہمارے 70 ہزار لوگ مارے گئے، اپنے
ملک کے 150 ارب ڈالر کا نقصان کردیا، کیا انہوں نے ہماری تعریف کی؟۔ ہماری
قربانیوں کو تسلیم کیا؟ بلکہ پاکستان کو برا بھلا، دوغلا کہا اور افغانستان
جنگ میں ناکامی کا ملبہ بھی ہم پر ڈالا، یعنی ہماری تعریف کرنے کے بجائے
ہمیں ہی برا بھلا کہا گیا تو اس سے ہم نے ایک سبق سیکھا کہ کبھی کسی کے خوف
سے اپنی خودمختاری پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ عمران خان نے مزید کہا کہ
افغانستان کے حوالے سے ہمارے لیے اب واقعی بڑا مشکل وقت آرہا ہے، شکر ہے کہ
امریکا نے تسلیم کرلیا کہ افغانستان کے تنازع کا فوجی حل موجود نہیں اگر وہ
پہلے مان لیتے تو اتنا خون نہ بہتا۔اگر ہم متحرک ہوتے اور پراعتماد حکومت
کھڑی ہوتی اور کہتی کہ آپ (امریکا) غلط کررہے ہیں تو ہم ان کو (افغانیوں)
بھی بچالیتے اور دوسری طرف امریکا بھی بہتر وقت پر جاسکتا تھا۔ وزیراعظم نے
کہا کہ تو امریکہ پاکستان سے چاہتا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کے لیے تیار
کریں، ہمارے پاس کیا لیوریج ہے؟ سوائے اس کے کہ ان کے خاندان یہاں بسے ہوئے
ہیں، ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ فوجی حل کی جانب جائیں گے تو خانہ
جنگی اور طویل ہوگی جس میں افغانستان میں تباہی ہوگی اور اس کے بعد پاکستان
بھی متاثر ہوگا۔ میں کہہ چکا ہوں کہ ہمارا مفاد یہ ہے کہ افغانستان میں امن
ہو، ہم افغانستان میں کوئی تذویراتی گہرائی نہیں چاہتے، جو افغانستان کے
لوگ چاہتے ہیں ہم ان کے ساتھ ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے متعلق
وزیراعظم نے کہا کہ 5اگست 2019سے پہلے بھی بھارتی حکومت کشمیریوں پر ظلم
کررہی تھی، آج اس پلیٹ فارم سے اپنی پوری قوم کی طرف سے کشمیریوں کے جذبے
کو سلام پیش کرتا ہوں، سارا پاکستان ان دلیر کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے، جب
تک بھارت 5 اگست کا اقدام واپس نہیں لے گا ہم ان سے سفارتی تعلقات بحال
نہیں کریں گے۔ یہ پاکستان کی جمہوریت کا مستقبل ہے۔آئیں مذاکرات کریں۔عمران
خان نے کہا کہ کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نیوٹرل امپائر کھڑے کیے تھے
اور اب یہ مسئلہ ختم ہوگیا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ اب یہ وقت آگیا ہے کہ ہم
الیکشن لڑیں اور کسی کو یہ فکر نا ہو کہ دھاندلی سے ہرادیا جائے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پہلے دن جب میں قومی اسمبلی میں تقریر کرنے کھڑا ہوا
تھا تو اپوزیشن نے تقریر نہیں کرنے دی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن
ٹھیک نہیں ہوئے، اگر الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے تو انہیں بتانا چاہیے تھا کہ
کیسے ٹھیک نہیں ہوئے۔ جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ الیکشن ٹھیک
نہیں ہوئے تو ان کے میڈیا اور عوام نے کہا کہ اس بات کا ثبوت دیں۔اپوزیشن
سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کا صرف ایک ہی حل ہے پروٹو ٹائپ الیکٹرانک
ووٹنگ مشین کیونکہ جب ووٹنگ ختم ہوتی ہے تو بٹن دباتے ہی نتائج فورا سامنے
آجاتے ہیں، اس طرح ڈبل اسٹامپس، تھیلیاں کھلے ہونے کے مسائل ختم ہوتے ہیں
اور جو بھی اعتراض کرنا چاہے وہ اٹھاسکتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا یہ میرے وژن
کے مطابق ہے اگر اصلاحات نہیں کی جائیں گی تو یہ مسئلہ ہر الیکشن میں آئے
گا۔ آئی ایم ایف کی شرائط مشکل ہونے کی وجہ سے عوام کو تکلیف ہوئی اس کے
باوجود وزیراعظم عمران خان نے کمال کردیا امریکہ کو دو ٹوک جواب نے کروڑوں
مسلمانوں کا سر فخرسے بلندکردیا بلاشبہ ایک مسلم ملک کے سربراہ کو ایسا ہی
ہونا چاہیے شاید اسی بناء پر عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے لئے بیرونی
سازش کی جارہی ہے جس کااظہارانہوں نے اسلام آباد کے جلسہ کے دوران خط
لہراکرکیاتھا۔
|