تاریخ اپنے آپ کو دہرانے لگی

 تحریک ِ عدم اعتماد میرے خلاف غیرملکی سازش ہے وزیراعظم عمران خان نے اسلام آبادمیں ایک بڑے جلسہ ٔ عام سے خطاب کے دوران ایک خط لہراتے ہوئے انکشاف کیا انہوں نے مزید کوئی وضاحت نہیں کی لیکن اپنے پیچھے بہت سے سوال چھوڑ گئے کہ یہ خط کس ملک سے آیا؟ اس کے محرکات کیا ہیں؟،سازش میں کون کون شامل ہے؟ اور کون کون سے سیاستدان آلہ ٔ کار بنے ہوئے ہیں؟
ماضی میں ایک اور پاکستانی وزیر ِ اعظمذوالفقارعلی بھٹو اپنے اقتدار کے آخری دنوں اچانک ہی ایک دن راولپنڈی کے معروف صدر بازار میں جاپہنچے جوش جذبات میں ان کا چہرہ سرخ ہورہاتھا ان کے ہاتھ میں ایک نیا میگا فون تھا انہوں نے امریکی سنٹر کے سامنے ’’ سفید ہاتھی‘‘ کو نہ صرف للکارا بلکہ کے خلاف ایک جوشیلی تقریر بھی کرڈالی پھر اپنے کوٹ کی جیب سے ایک خط نکال کر بھی فضامیں لہرا دیا اور انتہائی جوش کے عالم میں کہا مجھے ’’ سفید ہاتھی‘‘ کی جانب سے پیغام دیا گیا تھا کہ ’’ THE PARTY IS OVER‘‘ بھٹو صاحب نے یہ کاغذ لہراتے ہوئے کہا تھا کہ میں ’’ سفید ہاتھی‘‘ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ’’ PARTY IS NOT OVER‘‘
تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اپنی گرفتاری سے قبل آخری وقت دہراتے رہے کہ جوہری پروگرام سے پیچھے ہٹنے سے انکار پر امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے دھمکی دی تھی کہ ہمیں ایک خوفناک مثال بنادیا جائے گا، اس دھمکی کے واحد گواہ خود ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جس کی آزادانہ تصدیق نہ ہوسکی تاہم کچھ عرصہ بعد امریکی سفارتکار اور اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے ڈپٹی چیف مشن جیرالڈ فیورسٹین نے تصدیق کی تھی کہ بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کے بارے میں ہنری کسنجر کی وارننگ کی پرواہ نہیں کی تھی بلکہ ذوالفقار علی بھٹونے اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ سائرس وینس کا ایک خط لہراتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ دیکھو مجھے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ پاکستان کو بھی خطرہ ہے۔ ان کہا سچ ثابت ہوا اور کچھ عرصہ بعد ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیاگیا پھر ذوالفقار علی بھٹونے ایک اور موقع پر 45 برس قبل پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کی جانے والی ایک انتہائی جذباتی تقریر میں الزام لگایا تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کے پیچھے امریکا ہے جو انھیں اقتدار سے نکالنا چاہتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ’یہ ایک بہت بڑی عالمی سازش ہے جسے امریکا کی مالی مدد حاصل ہے تاکہ میرے سیاسی حریفوں کے ذریعے مجھے نکال دیا جائے۔‘ اس کی وجہ بتاتے ہوئے بھٹو نے کہا کہ ’ویتنام میں امریکا کی حمایت نہ کرنے اور اسرائیل کے مقابلے میں عربوں کا ساتھ دینے پر امریکا انہیں معاف نہیں کرے گا۔بھٹو حکومت کے خاتمہ کے انہیں گرفتارکرلیا گیا اور نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل میں ذوالفقار علی بھٹو کو نامزد کرکے مقدمہ چلایا گیا۔ عدالت میں اپنے بیان میں ذوالفقار علی بھٹو نے دعویٰ کیا کہ ’ان کے ساتھ یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان کو ایک جوہری طاقت بنانے کا عزم کر لیا تھا اور امریکا کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے خبردار کرنے کے باوجود جب میں نے جوہری پروگرام سے پیچھے ہٹنے سے انکار کیا تو ہنری کسنجر نے انھیں دھمکی دی تھی کہ تمہیں ایک خوفناک مثال بنا دیا جائے گا۔‘ امریکی وزیر خارجہ کا یہ مبینہ جملہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آج بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے کچھ محب وطن حلقوں کا خیال ہے کہ آج پاکستان جن حالات کا سامنا کر رہا ہے اس میں اس دھمکی اور اس کے نتائج کا بہت بڑا کردار ہے۔ لیکن اس دھمکی کے گواہ صرف ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جو اپنے اقتدار کے آخری دنوں اور گرفتاری کے بعد بھی مسلسل چیخ چیخ کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان کے خلاف امریکہ سازش کر رہا ہے اور اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں اور پاکستان کے مقامی صنعتکار جن کی صنعتیں قومی تحویل میں لی گئی تھیں اس سازش میں شامل ہیں۔ بھٹو اسی نکتے پر پاکستان کے عوام کو متحرک کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن دیر ہو چکی تھی۔ اس دوران انھوں نے کئی مقامات پر ہنری کسنجر کی اس دھمکی کے اپنے دعوی کو دہرایا لیکن بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک ِ نظام ِ مصطفےٰ ﷺ انہیں بہاکر لے گئی ۔ ہنری کسنجر کے اس جملے تمہیں ایک خوفناک مثال بنا دیں گے کی کسی آزادانہ ذرائع سے تصدیق تو نہیں ہو سکی ہے لیکن اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ڈپٹی چیف مشن جیرالڈ فیورسٹین نے اپریل 2010ء میں پاکستانی میڈیا کو اپنے انٹرویو میں تصدیق کی تھی کہ وہ ایک پروٹوکول آفیسر کی حیثیت سے 10 اگست 1976ء کو لاہور میں ہونے والی اس میٹنگ کے عینی شاہد ہیں جس میں بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کے بارے میں ہنری کسنجر کی وارننگ کو مسترد کر کے ایٹمی پروگرام کو جاری رکھا جیرالڈ فیورسٹین کے علاوہ امریکا کے سابق اٹارنی جنرل رامسے کلارک نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ میں سازشی تھیوریز پر تو یقین نہیں رکھتا لیکن چلی اور پاکستان میں ہونے والے فسادات میں بڑی مماثلت ہے۔ چلی میں بھی سی آئی اے نے مبینہ طور پر وہاں صدر سیلواڈور الاندے کا تختہ الٹنے میں مدد کی۔‘ رامسے کلارک، جنھوں نے بھٹو پر چلنے والے مقدمے کو خود دیکھا تھا، لکھا کہ ایک مذاق مقدمہ جو ایک کینگرو کورٹ میں لڑا گیا۔ بھٹو نے عدالت میں اپنے بیان میں بتایا کہ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ اگر آپ نے ری پروسیسنگ پلانٹ کے معاہدے کو منسوخ، تبدیل یا معطل نہیں کیا تو ہم آپ کو ایک خوفناک مثال بنا دیں گے جس روز بھٹو نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ ان کی حکومت کو ختم کرنا چاہتا ہے اب آتے ہیں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی طرف جنہوں نے نو سال قبل تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے 22 ستمبر 2013 کو پشاور کے کوہاٹی گیٹ کے اندر ائل سینٹس چرچ پر دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد پہلی بار بین الاقوامی سازش کے بارے میں بات کی تھی۔ اتوار کی عبادت کے اختتام پر دو خودکش بمباروں نے عیسائیوں کی عبادت گاہ کے باہر حملہ کیا تھا جس میں ایک اندازے کے مطابق 37 بچوں سمیت 127 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 14 اکتوبر 2014 کو ایک 106 سال پرانے امریکی تحقیقی گروپ ’بروکنگز انسٹی ٹیوشن‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں عمران خان کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ملک کو دوبارہ دس سالہ دلدل کی طرف لے جانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں قائم اس ادارے ، جو سماجی علوم جیسے معاشیات، ٹیکس پالیسی، گورننس اور خارجہ پالیسی وغیرہ میں تحقیق اور تعلیم کا انتظام کرتا ہے، نے لکھا تھا کہ عمران نے کہا کہ اس حملے کا مقصد پاکستانی طالبان کے ساتھ جلد شروع ہونے والے امن مذاکرات کو پٹڑی سے اتارنا ہے جس کی انہوں نے اس وقت حمایت کی تھی۔ خان، درحقیقت، گروپ اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں ثالث بننے کے لئے پاکستانی طالبان کا انتخاب تھے۔ انہوں نے انکار کیا لیکن بات چیت کے حامی رہے۔ 70 کی دہائی میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر کرتے ہوئے سیاسی تاریخ کا ایک حوالہ یوں دیا کہ، جب ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو آزاد خارجہ پالیسی دینے کی کوشش کی تو مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا مفتی محمود،اسفندیارولی کے والد خان عبدالولی خان،مسلم لیگ کے خان عبدالقیوم خان،جماعت اسلامی کے پروفیسرعبدالغفور، JUPکے مولانا شاہ احمدنورانی سمیت9 حکومت مخالف پارٹیوں نے بھٹو کے خلاف تحریک چلائی اور ایسے حالات پیدا کر دیئے جس کی وجہ سے انہیں پھانسی ہوگئی، ذوالفقار علی بھٹو نے 28 اپریل 1977 کوقومی اسمبلی میں کہا تھا کہ قومی اتحاد میرے خلاف ایک ساز ش ہے جو ایک بڑی قوت کے ذریعے میرے خلاف تیار کی گئی ہے ’’ سفید ہاتھی‘‘ میرے خون کا پیاسا ہوچکا ہے لیکن میں اس کا مقابلہ کروں گا پھر ان کا کہا سچ ثابت ہوالیکن آج ایک بارپھر عمران خان نے غیرملکی سازش کا ذکرکرکے چونکا دیاہے یقینا اس صورتحال سے آگاہی رکھنے والے لوگ واقعات میں مماثلت تلاش کرتے ہوں گے اب برطانوی ریڈیو نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں کہاہے کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ کو ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جیب سے ایک خط نکال کر لہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بیرون ملک سے ان کی حکومت گرانے کی سازش ہو رہی ہے اور انہیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے اس کا مطلب ہے کہ تاریخ ایک بارپھر اپنے آپ کودہرارہی ہے عمران خان کے حامی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ امت ِ مسلمہ کااتحادکسی طوربھی مغربی دنیاکو قبول نہیں ایسا کرنے کی کوشش کرنے والے ہرمسلمان لیڈرکوانہوں نے عبرت کی مثال بنادیا شاہ فیصل،ذوالفقارعلی بھٹو،صدام حسین،کرنل معمرقذافی کاانجام سب کے سامنے ہے اب وزیراعظم عمران خان کایہ کہنا کہ تحریک ِ عدم اعتماد میرے خلاف غیرملکی سازش ہے پاکستانیوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے بلاشبہ عمران خان نے اسلاموفویبا کے خلاف جتنی کوشش اور جرأت کا مظاہرہ کیاہے یہ انہی کا خاصاہے انہوں نے دنیا پرواضح کردیا کہ اظہاررائے کی آڑمیں نبی ٔ معظم ﷺ اور ان کے پروقارساتھیوں کی توہین کا حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا یہ صریحاً گستاخی ہے اسلام دشمن قوتوں اور مغربی دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنا ہر مسلم حکمران کا نصب العین ہونا چاہیے اسلامی دنیا مشترکہ لائحہ عمل تیارکرے تو مقبوضہ کشمیر بھارتی تسلط اور قبلہ ٔ اول یہودی پنجہ ٔ استبدادسے آزادہوسکتاہے دعاہے کہ خدکرے وہ دن بھی طلوع ہو جب مسلم حکمران عالم ِ اسلام کو متحدکرنے کیلئے اس تحریک کاآغازکریں جوامت ِ مسلمہ کے ہرفردکے د ل کی آواز ہے اس کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کیخلاف بیرونی سازشوں کامقابلہ کرنے کے لئے دیڑھ ارب مسلمانوں کامتحدہونا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں مسلمان سیاستدانوں کو محض اقتدارکی خاطر اسلام دشمن قوتوں اور مغربی دنیا کی سازشوں کاحصہ نہیں بننا چاہیے اگرکسی بیرونی طاقت پاکستان یا کسی اور اسلامی ملک میں اندرونی معاملات میں مداخلت کریں تو اس کے خلاف شدید مزاحمت کی جائے آزادی،خودمختاری اور قومی سا لمیت پرسمجھوتہ کرنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 383623 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.