کُنْتُ کَنْزَاً (نعتیہ رباعیات) # محبوب الہٰی عطا
(Dr Rais Samdani, Karachi)
|
کُنْتُ کَنْزَاً (نعتیہ رباعیات) # محبوب الہٰی عطا فلیپ اور پیش لفظ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی پروفیسر ایمریٹس، منہاج یونیورسٹی، لاہور محبوب الٰہی عطاؔ ہزارہ میں اور مَیں کراچی کا باسی ہوں۔ایک دوسرے سے محبت اور انسیت ہوجائے تو فاصلے بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں۔عطا ؔ صاحب سے تعلق کا بنیادی حوالہ ان کی شاعری اور شاعری کے مجموعے ہیں۔ سال گزشتہ کے اوائل میں ان کی تصنیف ’اَوْدنیٰ‘ پر اظہاریہ تحریر کیا تھاجس کے جواب میں عطاؔ صاحب نے اپنے نعتیہ شاعری خصوصاً رباعیات کے مجموعے ارسال کیے جن میں ”زمزمہ ئ ہاتف (مجموعہ رباعیات)،چَراخِ اطلس (تاریخِ اردو ادب میں نعتیہ رباعیات کا پہلا مجموعہ )، انوارِ سروش،مطلعَ انوار،لی مع اللہ،اَوْاَدنیٰ“شامل ہیں۔اس سے قبل ’عطائے رسول ﷺ، آئینہ در آئینہ بھی شائع ہوچکے ہیں۔ میری کوتاہی کہ مَیں ان پر اظہاریہ قلم بند کرنے کا سوچتا ہی رہا کہ عطا ؔ صاحب نے رباعیات کا مجموعہ ”کُنْتُ کَنْزَاً“کا مسودہ ارسال کیا ساتھ ہی لکھا کہ ’آپ کی مرضی ہے چاہے مضمون لکھیں یا فلیپ‘۔ یہ تصنیف ان کی نویں تصنیف ہے۔ عطا ؔ صاحب سے قلبی تعلق اورحمد، نعت رسول مقبول ﷺ اورمنقبتوں پر مشتمل مجموعہ پر چند سطور لکھنا اپنے لیے سعادت تصور کرتا ہوں۔ کُنْتُ کَنْزَاً‘ کے معنی ہیں ’اللہ نے کہا‘۔ شاعر موصوف کی سب سے بڑی خوبی اور انفرادیت رباعی گو ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی رباعیات کے مجموعوں کے عنوانات عربی الفاظ اور وہ الفاظ قرآن کریم یا احادیث مبارکہ میں ہوں منتخب کرتے ہیں جیسے زیر نظر مجموعہ کُنْتُ کَنْزَاً کے معنی ہیں ’اللہ نے کہا‘۔ اصناف شاعری میں رباعی ایک ایسی صنف ہے جس کے بارے میں شعراء کی یہ رائے عام ہے کہ یہ ایک مشکل صنف سخن ہے۔ اللہ پاک نے پاکستان کے شہر ہری پور ہزارہ کے موضع ’مونن‘ کے مقیم اور گوشہ نشین شاعر کو اس مشکل صنف رباعی کہنے میں کمال مہارت عطا فرمائی۔ وہ اردو کے چند رباعی گو شعراء میں سے ہیں۔ انہیں تاریخ اردو ادب میں نعتیہ رباعیات کے پہلے مجموعہ ’چَراخِ اطلس‘ کی اشاعت کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یکے بعد دیگرے رباعیات پر مشتمل ان کے مجموعے منظر عام پرآتے رہے جن کی تفصیل اوپر بیان کی ہے۔ زیرِ نظر مجموعہ ر اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔ عطاؔ صاحب سچے عاشق رسول ﷺ، علم و ادب میں ہمہ وقت مصروف رہنے والی شخصیت ہیں۔ وہ رباعی کے فن سے بخوبی آگاہ اور اس کے اوزان پر مکمل گرفت رکھتے ہیں حالانکہ دوسری اصناف سخن کی نسبت رباعی کے اوزان زیادہ پیچیدہ ہیں۔ زیر نظر مجموعے میں انہوں نے مختلف اوذان کو کمال مہارت اور خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ عطاؔ کی یہ مہارت انہیں رباعی گوئی میں بلند مرتبہ پر فائز کرتی ہے۔ عطاء شاعری کے رموز اوقاف اور علمِ عروض سے بَہرہَ مَند اور صاحب اقبال ہیں۔عطاؔ کی نعتیہ رباعیات پڑھنے والے کے دل میں اتر جاتی ہیں اور وہ عشق نبوی ﷺ میں گم ہوجاتا ہے۔انہون نے مجموعہ کے عنوان کے حوالے سے ایک حدیث نقل کی جس کا ترجمہ ہے ”اللہ نے کہا میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ میں جاناجاؤں تو میں نے خلقت کو خلق کیا تاکہ جانا جاؤں ’میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا“۔ پھر ایک رباعی کہی ؎ آفاقی شہرت کا رکھتی ہے مزاج حاص ہونہ کیوں اس کو سخن کی معراج تحسین یہ ہے کہ کُنْتُ کَنْزَاً کی عطاؔ روشن ہے سرِ بامِ فلک جس کا سراج عطاؔ نے مجموعہ کا انتساب خُلفائے راشدین کے نام کیا ہے اور انتساب پر ایک رباعی بیان کی ؎ حق سے خُلفائے راشدینہیں منسوب چارون کے ہیں سلطان مدینہ مطلوب کرتا ہوں میں نذ ر کُنْتُ کَنْزَاً ان کو نسبت ہے مجھے شاہِ ہدیٰ ؑ کی محبوب زیرِ نظر مجموعہ میں حمدیہ رباعیات، نعتیہ رباعیات بحضور سید نا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، بحضور فاطمتہ الزہرہ ؓ، بحضور امام حسین علیہ السلام، بحضور سید علی ہجویری داتا گنج بخش ؒ، بحضور حضرت معین الدین چشتی اجمیرؒ، بحضور حضرت بابا ففید الدین گنج شکرؒ، بحضور حضرت مخد وم علی احمد کلیری ؒ، بحضور حضرت خواجہ محمد افضل خان صاحب کے علاوہ آخر میں عارفانہ رباعیات مجموعہ کا حصہ ہے۔عطاؔ کی زبان پاکیزہ اور الفاظ شستہ اور بلیغ ہے۔لہجہ شائستہ اور منکسرانہ ہے۔ وہ شریعت سے واقف، کتاب و سنت کے بحرِ ذخار کے سچے عاشق اور صاحب فضل و کمال ہیں۔ کُنْتُ کَنْزَاً میں شامل رباعیات قاری کو عطاؔ کی رباعی گوئی سے متعارف کرائیں گی اور ہم عصرشعراء پر نعتیہ رباعیات گوئی کی تفہیم عیاں ہوگی اور وہ بھی رباعی گوئی کی جانب توجہ مبذول کریں گے۔ (22اگست2021ء)
|