"سندھ غیر سندھی باشندے اور حکمران"
(Muhammad Ahmed Tarazi, karachi)
سندھ کی تاریخ پانچ ہزارسال پرانی ہے ! کیا ہے حقیقت،کیا ہے فسانہ ؟ زبان و ادب،بسنے والے باشندوں اور حملہ آوروں کاتاریخی جائزے پر مشتمل ایک تحقیقی دستاویز "سندھ غیر سندھی باشندے اور حکمران"
|
|
سندھ کی تاریخ پانچ ہزارسال پرانی ہے ! کیا ہے حقیقت،کیا ہے فسانہ ؟ زبان و ادب،بسنے والے باشندوں اور حملہ آوروں کاتاریخی جائزے پر مشتمل ایک تحقیقی دستاویز "سندھ غیر سندھی باشندے اور حکمران" ممتاز محقق اور دانشور اشفاق احمد کی نئی کتاب ہے جو حال ہی میں فکشن ہاؤس لاہور سے شائع ہوئی ہے۔جس میں سندھ کے جغرافیہ کو مدنظر رکھتے اور یہاں بسنے والے مختلف قبائل ،حکمران،اقوام اور ممتاز افراد کا ذکر کرتے ہوئے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ سندھ میں کون کون ، کب کب اور کہاں کہاں سے آیا۔اور کس طرح سندھ کی دھرتی کی تعمیروترقی میں اپنا حصہ ڈالا۔اِس سلسلے میں یہاں کے حکمرانوں کا کیا کردار رہا۔ اورخاص طور سے مقامی اور غیر مقامی افراد کے حوالے سے یہ نظریہ کہ "موجودہ سندھ کی تاریخ پانچ ہزارسال پرانی ہے " کی اصل حقیقت کیا ہے؟اور کیا یہ واقعی حقیقت بھی ہے یا کہ فقط افسانہ ہے؟اِس کتاب کے وہ خاص موضوعات ہیں۔جس کے جوابات تاریخی حقائق کی روشنی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جناب اشفاق صاحب کے بقول " کچھ لوگ تو اِس کی تاریخ کو پانچ ہزار سال پرانا بھی کہتے ہیں اور گزشتہ پانچ ہزار سال سے اپنے سندھی النسل ہونے پر فخر کرتے ہیں اور اِسی بنیاد پر سندھ کے باہر سے یہاں آکر آباد ہونے والوں کو غیر سندھی سمجھ کر اُن کو وہ اہمیت و حقوق دینے کے قائل نہیں جو کہ پرانے سندھیوں کو حاصل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک اِس صوبے میں "مقامی" اور "غیرمقامی"اقوام کے درمیان کبھی ذہنی، فکری ، سماجی ہم آہنگی پیدا نہیں ہوپائی اور اِس بنیاد پر آج بھی دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرتیں بھی پائی جاتی ہیں۔" اِسی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئےاُنہیں اِس اَمر کی ضرورت محسوس ہوئی کہ سندھ کی تاریخ کو کھنگالا جائے اور دیکھا جائے کہ کیا ویسی ہی صورت حال ہے جیسا کہ بیان کی جاتی ہے یا کہ تاریخ ہمیں کچھ اور ہی تصویر دکھاتی ہے۔چنانچہ اُنہوں نے سندھ کی تاریخ،اُس کی زبان و ادب،اُس میں بسنے والے باشندوں اور یہاں آنے والے حملہ آوروں کاتاریخی جائزہ "سندھ غیر سندھی باشندے اور حکمران"میں لے کر قاری کو درست تاریخی نتائج تک پہنچانے کی ایک عمدہ کوشش کی ہے۔ "سندھ غیر سندھی باشندے اور حکمران" کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ سندھ میں واقع موہن جو ڈرو کے آثار قدیمہ تقریباً پانچ ہزار سال پرانے ہیں۔شاید اسی وجہ سےسندھی دانشور صوبہ سندھ کی تاریخ کو کم از کم پانچ ہزار سال پرانا بتاتے ہیں۔اِس لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی جو آج"پرانے سندھی "یہاں آباد ہیں وہی اِس سرزمین کے اصل باشندے ہیں اور اُن کو باہر سے آنے والوں پر فوقیت حاصل ہے یا کہ حقیقت کچھ اور ہے۔ "سندھ غیر سندھی باشندے اور حکمران" کا مقصد تصنیف اِسی سوال کے جواب کی تلاش کا سفر ہے۔"نو" ابواب"سندھ کا قدیم دور"،"لفظ سندھ و سندھی"،"زبان وادب"،"سندھ کے حکمران"،"انگریز اور سندھ"،"سندھ کے حکمران 1947 کے بعد"،"سندھ کی چند سیاسی،سماجی،علمی و روحانی شخصیات اور اُن کا اصل تعین"،"کچھ کراچی کے بارےمیں"اور"فرزندان کراچی"پر مشتمل اِس کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ "آج کے سندھی جو اپنے آپ کو اِس سرزمین کے اصل وارث قرار دے رہے تاریخی طور پر اِس دعوی کی حیثیت مشکوک ہے اور اِس کا ذکر صرف ہندوؤں کی اُس مذہبی کتاب میں ملتا ہے جس کا تاریخی زمانہ ہی متعین نہیں ہے۔" یہاں یہ اَمر بھی واضح ہوتا ہے کہ قدیم سندھ کی اول تو کوئی تاریخ ہی میسر نہیں اور اگر ہے تو وہ ہندوؤں کی مذہبی کتب کی مرہون منت ہے۔اِس لیے یہ بات صاف ہے کہ سندھ میں کوئی ہزار سال پہلے آیاہو یا ہزار سال بعد میں۔سب ہی یہاں باہر کے ہیں۔اِس تناظر میں سندھ سب کا مشترکہ وطن ہے ۔ اور کوئی قوم کسی دوسری قوم پر نسلی فوقیت نہیں رکھتی۔یہ سب کا مشترکہ وطن ہے اور ساری قومیں یہاں کے وسائل پر مشترکہ حق رکھتی ہیں۔اِس لیے کوئی قوم اپنی قومی برتری کی بنیاد پر کسی دوسری قوم کا استحصال نہیں کرسکتی۔اور اگر وہ کرتی ہے تو اُس کی حیثیت مقامی نہیں بلکہ باہر سے آنے والے ایک قبضہ گیر کی سی ہے۔اِسی طرح اِس خطہ کا نام "سندھ" جس پر سندھ کے لوگ فخر کرتے ہیں،سندھ کا اپنا نہیں بلکہ باہر سے آنے والے آریاؤں کا دیا ہوا تحفہ ہے۔جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ نام اُن لوگوں کے دئیے ہوئے ہیں جو یہاں کے مقامی باشندےنہیں تھے بلکہ قبضہ گیر تھے۔ رہی سندھی زبان وادب کی تاریخی اہمیت کی بات :تو ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کی تحقیق کے مطابق چھ سوبرس قبل مسیح تک سندھ کی کسی زبان کی شناخت بطور ایک الگ زبان نہیں کی جاسکتی۔البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہاں جو بھی بولیاں بولی جاتی تھیں وہ آج کی "سندھی"زبان تو ہرگز نہیں تھی بلکہ اُس پر سامی،دراوڑی اور آریائی زبانوں کا بھی اثر پڑا تھا اِس لیے اِسے کوئی ایک یا "سندھی" زبان قرار دینا ممکن نہیں۔چنانچہ پانچ ہزار سال تو دور کی بات ہے،چھ سو قبل مسیح تک میں سندھی زبان موجود نہیں تھی،جس کی بنیاد پر سندھی قوم کے وجود کا دعویٰ بعید از حقیقت لگتا ہے۔اور معلوم ہوتا ہے کہ آج کی سندھی زبان پانچ ہزار سال قدیم نہیں بلکہ یہ باہر سے آئی ہوئی مختلف اقوام آسڑیلیا،دراوڑ، آریاؤں اور سنسکرت کے ملاپ سے وجود میں آئی اور عربی فارسی کے گہرے اثر کی وجہ سے اِسے عربی اور فارسی رسم الخط میں لکھا جاتاہے ۔یہاں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کا یہ اعتراف اور بھی سندھی زبان و ادب کی تاریخی حیثیت کو واضح اور متعین کردیتا ہے کہ "جس پانچ ہزار سالہ سندھی زبان کے دور کی بات کی جاتی ہے آج ہمارے پاس اُس دور کا بھی معلوم و مستند ادب موجود نہیں ہے۔" کتاب کے چوتھے باب"سندھ کے حکمران" میں صاحب کتاب کی تحقیق سے جہاں یہ بات سامنے آتی ہے کہ کول،سنتھال،آریاؤں سے لےکر تالپوروں تک کے سندھ کے حکمران سارے کے سارے غیرسندھی تھے۔وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سندھ کسی ایک قوم کا نہیں بلکہ بہت سی اقوام کا مسکن رہا۔جنھوں نے اِس دھرتی پر اپنے تہذیبی نقوش چھوڑے اور مخلوط نسلیں پیدا کیں۔اِن تاریخی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج سندھ میں مخصوص سندھی قوم کی تلاش تاریخ کی پرتوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے مترادف ہے ۔اِس خطے کا ہر وہ شخص سندھی ہے جس نے اِس دھرتی کو اپنا مسکن بنایا،چاہےوہ ہزار پہلے آیا ہو یا ہزار سال بعد،سب کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ "انگریز اورسندھ" کے عنوان سے موسوم پانچویں باب کا مطالعہ واضح کرتا ہے کہ انگریزی دور میں سندھ بلخصوص کراچی کو جو مقام ملا وہ کسی سندھی حکمران کے دور میں نہیں ملا۔مقامی حکمرانوں کے حوالے سے سندھ اور سندھ کے باشندوں کی تعمیروترقی کے تعلق سے فقط بے حسی اور لاتعلقی تاریخ کے صفحات میں رقم ہے۔ جبکہ کراچی کو شہر اور سندھ کو صوبہ کی شکل دینے والے بھی مقامی نہیں بلکہ باہر سے آنے والے تاجر ہی تھے۔اُنہوں نے مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے اور ایک ایسا شہر بھی دیا جس میں انسانی ضرورت اور سہولیات کی ہر شے موجود مہیا تھی۔یہ سندھ اور کراچی پر مقامی نہیں غیر مقامی حکمرانوں کا احسان ہے۔ "سندھ کے حکمران 1947 کے بعد"کے باب میں قیام پاکستان کے بعدایوب کھوڑو،تالپور ،ارباب ،پیر پگارا،تھرپارکر کے شاہ،جام،جتوئی،خیرپور کے شاہ،گبول، سہون کے پیر،نواب شاہ کے شاہ،وسان،زرداری اوربھٹوتک جتنے بھی سندھ کےحاکم رہے ،وہ اگرچہ رہتے سندھ میں ہی ہیں مگر یہاں کے مختلف خاندانوں اور قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں جس کی آپس میں رشتہ داریاں ضرور ہیں مگر یہ حسب نسب کے لحاظ سے ایک دوسرے سے اتنے الگ ہیں کہ انہیں صرف اِس سرزمین سندھ میں رہنے کی وجہ سے" سندھی "کہا جاسکتا ہے نہ کہ اُن کے خاندان کے" اصلاً سندھی "ہونے کے سبب۔اِس لیے یہ بات واضح ہے کہ سندھ میں بہت سے قبائل آباد ہیں جو صرف ایک جغرافیہ یعنی سندھ کی حدود میں رہنے کی وجہ سے سندھی ہیں اِن میں سے کوئی بھی ایک "سندھی خاندان یا سندھی قوم" سے تعلق نہیں رکھتا۔اِس لیے جو بھی سندھ میں رہتا ہے وہ ایک جیسا یعنی "جغرافیائی سندھی"ہے،چاہے اُس کی قوم قبیلہ یا خاندان کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ اِس تناظر میں یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ سندھ ایک ایسا خطہ ہے جہاں مختلف اقوام و قبائل آباد ہیں اور اگر وہ اپنے آپ کو سندھی کہتے ہیں تو صرف جغرافیہ کی وجہ سے نہ کہ ایک قوم ہونے کی وجہ سے۔ جہاں تک سندھ کی چند معروف سیاسی ،سماجی ،علمی و روحانی شخصیات کا تعلق ہے تو اِس حوالے سے مولانا عبیداللہ سندھی،ڈاکٹر نبی بخش بلوچ،شیخ عبدالمجید سندھی،حیدر بخش جتوئی،رسول بخش پلیچو،جی ایم سید،میر علی قانع ٹھٹھوی،حاجی عبداللہ ہارون،راشدی خاندان،مرزا قلیچ بیگ،شیخ مبارک علی ایاز (شیخ ایاز)،جام ساقی،مخدوم ہاشم ٹھٹھوی،میرمعصوم بکھری،لعل شہباز قلندر،شاہ عبدالطیف بھٹائی،سچل سرمست،ڈاکٹر مبارک علی،ہوش محمد شیدی، دولہہ دریا خان ،باگھل بائی،مخدوم بلاول شاہ،راجہ سہیرس،شاہ عنایت ٹھٹھوی شہیدتک جن چند مشہور شخصیات کا ذکر ہوا وہ سب کے سب مختلف قوم و قبائل سے تعلق رکھتے تھے ۔ سندھ کی چند مشہور شخصیات میں سے یہ صرف چند کا مختصر ذکر ہےجس کے ذریعے صاحب کتاب نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آج جو سندھ ہمارے سامنے ہے وہ کسی ایک قوم کا مسکن نہیں ہے بلکہ یہ ایک جغرافیائی سندھ ہے جہاں ایک زمانے سے لوگ اور مختلف قبائل آکر آباد ہوتے رہے اور اِس دھرتی کی ترقی و حفاظت میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔اس لیے آج بھی سندھ پر ان سب کا اقوام کا برابر حق ہے جو اس جغرافیے میں آباد ہیں۔ یہاں کوئی پہلے آیا ،کوئی بعد میں مگر سب برابر کے سندھی ہیں۔اور تاریخی و نسلی اعتبار سے ہرگز ہرگز ایک قوم نہیں ہیں۔اس لیے یہاں بسنے والی اقوام کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سندھ کی مخلوط ثقافت کو اپنا سمجھیں اور اسے اپنائیں اور اپنے ماضی کی تہذیب و ثقافت سے رشتہ برقرار رکھتے ہوئے یہاں موجود سب ہی لوگوں کی ثقافت کی عزت کریں ،احترام کریں،کہ یہ سندھ میں بسنے والی تمام اقوام کا وطن ہے۔ صاحب کتاب آخر میں "کراچی" کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں"سندھ میں رائے گھرانے کی حکومت سے لے کر تالپوروں تک کسی نے بھی کراچی کو دارالحکومت نہیں بنایااور نہ ہی اِس کی تعمیروترقی پر توجہ دی۔تاریخ میں یہ شہر ٹیکس اکٹھا کرنے اور ایک دوسرے کو تاوان میں دینے والے لاوارث علاقے کے طور پر ملتا ہے۔سندھ کی تاریخ میں ٹھٹھ علم وفضل اور تعلیم کا مرکز اس لیے نظر آتا ہے کہ حکمرانوں کی توجہ اس طرف رہی مگر کراچی کی حالت ہر دور میں ایک جیسی ہی رہی۔۔۔اورکراچی کی قسمت یہ رہی کہ کبھی اس پر بلوچ اپنا اقتدار جماتے اور کبھی سندھ کے حکمران اس پر قبضہ کرلیتے یہ شہر ایک مال غنیمت کی صورت تھا یعنی کراچی کی کوئی مستقل حیثیت اُس دور میں نظر نہیں آتی۔ اس باب کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ یہاں رہنے والے تاجروں نے اپنے طور پر جو بھی کام کیے بس وہی اس وقت اس شہر کے لیے کیے جانے والے کام تھے ۔ہاں انگریزوں کے دور میں اس شہر کی اہمیت جان کر اسے ایک بین الاقوامی شہر بنانے کی بنیاد ضرور رکھی گئی۔اور انگریزی دور میں اِس شہر کی جغرافیائی ،سیاسی،تجارتی،دفاعی اہمیت کو سمجھا گیا اور ایک باقاعدہ شہر بنانے کے اقدامات کیے گئے۔یعنی کراچی کو کراچی بنانے کاتعلق کا ہرگز سندھ کے حکمرانوں سے ثابت نہیں ہوتا۔ فرزندان کراچی کے باب میں صاحب کتاب اُن شخصیات کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے اس شہر کی تعمیروترقی میں اپنا حصہ ڈالا۔اِن میں سیٹھ ناؤمل ہوت چند،کیول رام رتن مل ملکانی،نادر شاہ ڈنشا۔ایڈلیجی ڈنشا،دیا رام گدومل،ہرچند رائے وشنداس،جمشید نسروانجی رستم جی مہتا،مولانا دین محمد وفائی،وغیرہ قابل ذکر ہیں۔صاحب کتاب لکھتے ہیں کہ اس تجزیے سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ کراچی کی تعمیروترقی کب شروع ہوئی اور وہ کون لوگ تھے جنھوں نے اس چھوٹی سی مچھیروں کی بستی کو ایک بین الاقوامی شہر بنادیا۔اس مقام پر مولف وہ یہ مطالبہ بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ کراچی کی تعمیروترقی کی بنیاد رکھنے والے ان فرزندان کراچی کی شہر میں یاد گاریں قائم کی جائیں اور کوئی ایسا خطہ زمین جہاں باغ ہو قائم کیا جائے جہاں اِن لوگوں کے شہر کے لیے کئے گئے کام سے متعلق یادگاری تختیاں بھی نصب ہوں تاکہ کراچی کے لوگ ان شخصیات اورکراچی شہر کے کی تعمیر وترقی کے لیے ان کی خدمات سے واقف ہوسکیں۔ کتاب کا اختتامیہ صاحب کی کتاب کی ان گزارشات اور وضاحت پر مشتمل ہے کہ لکھنے کا مقصد ہرگز ہرگز یہ نہیں کہ سندھ میں بسنے والی کسی قوم کو اونچا یا نیچا دکھایا جائے بلکہ اس تحریر کا مقصد سندھ کی تاریخ یہاں کے باشندوں اور یہاں پر حکومت کرنے والے حکمرانوں کے بارے میں کھوج لگاکر یہ بتانا ہے کہ سندھ کبھی بھی ایک نسلی علاقہ نہیں رہا بلکہ ایک جغرافیائی خطہ رہا ہے جہاں قدیم دور سے دور جدید تک مختلف اقوام آ آکر آباد ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔اس لیے اس کسی مخصوص قوم و نسل کا وطن ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ کتاب کے مصنف جناب اشفاق احمد کا تعلق کراچی سے ہے۔آپ درس و تدریس کے شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں،مطالعہ شوق کے ساتھ ہمیشہ کتاب کی اہمیت و افادیت اور پڑھنے کی ترغیب کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ فلسفہ،تاریخ اور سیاست آپ کے خاص موضوعات ہیں۔"کتابیں جو میں نے پڑھیں" شوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ "فیس بک "پر پیج اور "یوٹیوب" پرآپ کا وہ چینل ہے جس پرکتابوں سے متعلق معلومات اور وڈیو تبصرے اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔"سندھ غیر سندھی باشندے اور حکمران"آپ کی دوسری کتاب ہے جو حال ہی میں ملک کے مشہوراشاعتی ادارے "فکشن ھاؤس" لاہور سے شائع ہوئی ہے۔اِس سے قبل "تحریک پاکستان سے قیام پاکستان تک نظریات کی تاریخ"بھی اسی ادارے کے تحت شائع ہوکر قبولیت عامہ کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ تاریخ کے اوراق کو پلٹتے ہوئےاشفاق احمد صاحب اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ سندھ میں بسنے والی تمام اقوام کے جذبات اور احساسات کو مد نظر رکھا جائے اور کسی کی بھی دل آزاری سے گریز کرتے ہوئے اپنی بات مدلل تاریخی حقائق کی روشنی میں پیش کی جائے ۔اُن کا مقصد سندھ میں بسنے والی کسی قوم کی توہین وتنقیص اور تنقید نہیں بلکہ اُس دعویٰ کا جائزہ مقصود ہے جو سندھ کے" پرانے سندھی "نئے آنے والے والوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔اِس تاریخی جائزہ کے دوران وہ ہمیں سندھ کی تاریخ کا وہی رُخ دکھاتے ہیں جو تاریخی تناظر میں اُن کے سامنے متشکل ہوتا ہے۔اپنی اِس کاوش میں وہ اس بات کو بھی اہمیت دیتے ہیں کہ سندھ میں بسنے والی کسی قوم کو حقیر یا کمتر نہ دکھایا جائے بلکہ سندھ کی تاریخ ،یہاں کے باشندوں اور یہاں پر حکومت کرنے والے حکمرانوں کے بارے میں وقت کی دبیز تہہ ہٹا کر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سندھ کبھی بھی ایک نسلی علاقہ نہیں رہا بلکہ ایک "جغرافیائی خطہ" رہا ہے جہاں قدیم دور سے جدید دور تک مختلف اقوام آکر آباد ہوتی رہی اور ہوتی رہیں گی۔اس لیے اسے کسی مخصوص قوم،نسل کا وطن تاریخی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے بہت ضروری ہے کہ اشفاق احمد صاحب کے نقطہ نظر کو کسی نسلی،قومی،اور لسانی تعصب کی عینک لگاکر دیکھنے کے بجائے،تاریخ کی کسوٹی پر پرکھا اور سمجھا جائے ۔اشفاق احمد صاحب اپنی اس کوشش میں کس حد کامیاب ٹھہرے اس کا فیصلہ"سندھ غیر سندھی باشندے اور حکمران"کے مطالعہ کا متقاضی ہے۔
|