محب وطن اور ایماندار حکمران

عمران خان کی اصل اپوزیشن پی ڈی ایم نہیں، مہنگائی ہے !
موجودہ حالات میں عمران خان کے خلاف سازشیں کرنا ، پاکستان اور عالم اسلام کے خلاف ساشیں کرنے کے مترادف ہے ۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے خلاف اس وقت اپوزیشن ایک سیاسی اتحاد ’’ پی ڈی ایم ‘‘ بنا کر بڑے زور و شور سے سرگرم عمل ہے اور وہ اپنے نزدیک یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ عمران خان کو ناکوں چنے چبوانے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن وزیراعظم کے طور پر عمران خان کی ساڑھے تین سال کی کارکردگی کی روشنی میں ان کی حب الوطنی اور ایمانداری کے سب ہی معترف ہیں اس کے علاوہ ان کے ملک اور قوم کی بھلائی کے حوالے سے کئی دور رس اقدامات کی وجہ سے پڑھی لکھی باشعور عوام کی اکثریت عمران خان کو آصف زرداری ،نوازشریف، شہبازشریف اورمولانا فضل الرحمان کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر سمجھتی ہے جس کی وجہ عمران خان کا امریکہ ،اسرائیل اور انڈیا جیسی کفریہ طاقتوں کے خلاف علم جہاد بلند کرتے ہوئے بہت عرصے کے بعد پاکستان کو ایک بہترین دلیرانہ خارجہ پالیسی دینا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اگر کسی لیڈر نے امریکہ بھارت اور اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کی ہے اور اسلامی دنیا کو متحد کرنے کی سنجیدہ کوششیں کرتے ہوئے اسلامو فوبیا کے خلاف ببانگ دہل آواز بلند کرکے ثابت کیا ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے لیے بھی ایک بہترین خوددار لیڈر کی تمام صلاحیتوں سے مالا مال ایک ایسا نڈر اور بے باک سیاستدان ہے جو اقتدار میں آنے کے بعد سے لے کر آج تک ایک دن کے لیے بھی سامراجی طاقتوں کی ذہنی غلامی یا ان کی ڈکٹیشن کے مطابق کام کرنے پر تیار نہیں ہوا۔البتہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ عمران خان کو بحالت مجبوری کرنا پڑا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر کی طرح پاکستان کی معیشت کو بھی بڑا دھچکہ لگا جس سے سنبھلنے کے لیے بھی عمران خان نے سب سے بہتر پالیسیاں بنائیں جس کی تعریف ساری دنیا نے کی لیکن کرونا کی وجہ سے پاکستانی معیشت بھی زوال سے دوچار ہوئی اور پاکستان کو بھی چاروناچار آئی ایم ایف سے معاہدہ کرکے ملکی نظام چلانے کے لیے خطیر رقم لینی پڑی اور پھرآئی ایم ایف کے پالیسیوں کے مطابق ملک کو چلانے کی وجہ سے مختلف اشیا ء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جس سے مہنگائی بڑھی ۔

اگر ہم عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دورحکومت پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہمیں واضح طور پر دکھائی دے گا کہ عمران خان کی اصل اپوزیشن پی ڈی ایم نہیں بلکہ مہنگائی ہے اگر عمران خان کے دورحکومت میں مہنگائی میں اضافہ نہ ہوتا تو عمران خان نے جو دو تین بہت اچھے کام کیے ہیں جن میں قومی لباس اور قومی زبان کو ملکی اوربین الاقوامی سطح پر فخر کے ساتھ اور مسلسل استعمال کرتے ہوئے پوری دنیا سے پاکستان کی قومی زبان اور قومی لباس کا احترام کروانااور مذہبی رواداری کے فروغ کے لیے ان کا تمام بین الاقوامی فورمز پر حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخی کو ایک بڑے جرم کے طور پر اجاگر کرنا جس کی وجہ سے آج امریکہ اور روس جیسی سپر پاورز کی جانب سے ہمارے آخری بنی حٖضرت محمد ﷺ کی کردار کشی یا ان کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کوحکومتی سطح پر ایک جرم تسلیم کر لیا گیا ہے جو کہ عمران خان کی بہت بڑی سفارتی کامیابیاں ہیں اور پھر حب الوطنی پر مبنی ان کے بعض دور رس اقدامات جن میں ایک طویل عرصہ بعد پاکستان میں پانی کو ذخیرہ کرنے اور بجلی کی کمی کو دور کرنے کے لیے چند ڈیموں پر باقاعدہ عملی کام کا آغاز بعض بہت ہی مفید اور اہم اصلاحات اور عوامی سطح پر بالکل ہی غریب لوگوں کے لیئے کیے گئے ان کے کچھ کام جن میں پناہ گاہیں، لنگر خانے اور صحت کارڈ وغیرہ کے عملی طور پر نافذ ہونے کی وجہ سے ،ان کی سیاسی اپوزیشن پر مبنی مفاد پرستانہ اتحاد پی ڈی ایم اگلے پانچ سال تک بھی ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی تھی لیکن صرف دن بدن بڑھتی ہوئی شدید مہنگائی کی وجہ سے عمران خان کی مقبولیت کا گراف انتہائی تیز ی کے ساتھ نیچے آیاجس کا ادراک حکومتی حلقوں کو کافی دیر سے ہوا پھر پی ٹی آئی اور عمران خان کے خلاف مختلف مافیاز نے بھی اپوزیشن جماعتوں کی تھپکی کی وجہ سے خوب کھل کر کھیل کھیلا اور یوں ایک ایمانداراور محب وطن پاکستانی وزیراعظم کے خلاف مہنگائی ایک پہاڑ بن کر کھڑی ہوگئی جس پر اپنی تمام تر توجہ اور کوششوں کے باوجود عمران خان قابو نہ پاسکے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے عمران مخالف قوتوں کو موقع ملا کہ وہ عوام کو بھڑکائیں جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ بھی اٹھایا۔بلاشبہ عمران خان کے دورحکومت میں مہنگائی بہت زیادہ بڑھی جس کی وجہ سے خاص طور پر مڈل کلاس تنخواہ دار طبقے کا جینا مشکل ہوگیا ۔ اس بات کا ادراک عمران خان کو بھی ہے اور اس کی جانب سے مہنگائی کم کرنے اور غریبوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے کی کوششیں بھی کی گئیں جن کی وجہ سے جگہ جگہ لنگر خانے اور پناہ گاہیں نظر آنے لگیں جن سے بالکل غریب اور نادار لوگوں کو کافی ریلیف ملا لیکن مہنگائی سے عوام کا جو طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ سفید پوش تنخواہ دار لوگ تھے جو نہ تو لنگر خانے سے کھانا کھا سکتے ہیں نہ ہی پناہ گاہوں میں جاکر سو سکتے ہیں اور نہ ہی ان کو احساس پروگرام سے کوئی پائی پیسہ ملتا ہے جس کی بدولت وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرسکیں اور دراصل یہی وہ پہلو ہے جو عمران خان کی نظروں سے اوجھل رہا اور انہیں اس بات کا پتہ نہیں چلا کہ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد مہنگائی کی چکی میں پسنے کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں کے پروپیگنڈے کا باآسانی شکار ہوگئی ۔اگر عمران خان کوکنگ آئل ،چینی ،آٹااور دیگر گھریلو اشیاء کی قیمتوں پر چیک رکھتے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ نواز کے دورحکومت میں 160 روپے کلو بکنے والا کوکنگ آئل عمران خان کے دور حکومت میں آج 420 روپے کلو بیچا جارہا ہے ۔یوں تو روزمرہ استعمال کی اور بھی بہت سی چیزوں کی قیمتوں میں بہت اضافہ ہوا ہے لیکن سب سے زیادہ مہنگی ہونے والی چیزوں میں کوکنگ آئل اور دوائیں سرفہرست ہیں ۔

عمران خان اور پی ٹی آئی حکومت کو چاہیے کہ وہ مڈل کلاس سفید پوش طبقے کی مشکلات کا احساس اور خیال کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے کہ دیگر تمام مہنگی ہونے والی اشیاء کے ساتھ خاص طور پر کوکنگ آئل اور دواؤں کی قیمتوں میں نمایاں کمی کا اعلان کرے تاکہ عوام کو احساس ہوسکے کہ پاکستان میں امیر اور غریب طبقے کے علاوہ ایک طبقہ ’’ مڈل کلاس‘‘ لوگوں کا ہے جن کو ریلیف دیے بغیر کوئی بھی حکمران تادیر برسراقتدار نہیں رہ سکتا ۔رہ گئی اپوزیشن اور اس کی ہلڑ بازی تو وہ انشااﷲ بہت جلد اپنی موت آپ مرجائے گی کہ عوام کی اکثریت نواز ،زرداری اور فضل کے سابقہ کردار اور ریکارڈ سے اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں اور اگر عوام سے رائے لی جائے تو ان کی اکثریت ان کرپٹ اور چور سیاستدانوں کے مقابلے میں عمران خان کو ہی ترجیح دے گی کہ نہ تو عمران خان بے ایمان ہے نہ ہی کرپشن کرتا ہے نہ ہی اس کی جائیدادیں ملک سے باہر ہیں نہ ہی یہ اپنا علاج باہر کے ممالک میں جاکر کرواتا ہے نہ ہی یہ میڈیا ہاؤسز کو رام کرنے کے لیے ان کو پیسہ کھلاتا ہے نہ ہی وہ امریکہ اور بھارت جیسے مسلمان دشمن ممالک سے راہ و رسم اور یاریاں بناتا ہے اور نہ ہی وہ بے غیرت ہے بلکہ وہ ایک غیرت مند ،ایماندار ،بہادر ،نڈر اور بے باک مسلمان اور سچا پاکستانی لیڈر ہے جو نہ صر ف پاکستان بلکہ سارے عالم اسلا م کی قیادت کرنے کا بجاطور پر اہل ہے ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ زرداری یا نواز (جن کی سیاسی پارٹیاں کئی بار اقتدار میں آچکی ہیں ) وہ عمران خان سے بہتر اور محب وطن لیڈر ہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے کہ ان دونوں کا سابقہ ٹریک ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد ذاتی مفادات اور اقربا پروری کی سیاست کو فروغ دیا اور آج بھی زرداری، نواز، شہباز اور مولانا فضلو ایک سیاسی اتحاد ’’ پی ڈی ایم ‘‘ بناکر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں تو اس کا مقصد بھی اپنے ذاتی مفادات کو تحفظ دینا ہے کہ ان لوگوں نے تو اب تک یہ ہی طے نہیں کیا کہ اگر یہ لوگ اقتدار میں آگئے تو ان کے اتحاد میں شامل کون سا لیڈر پاکستان کا وزیراعظم بنے گا۔ اس وقت پی ڈی ایم کی قیادت کی ساری توجہ صرف عمران خان کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹانا ہے کیونکہ عمران خان ایک ایماندار لیڈر ہے اور وہ ان تمام مفاد پرست سیاستدانوں کو این آر او دینے کے لیے تیار نہیں جس کی وجہ سے نواز ،زرداری،شہباز اور فضل بہت زیادہ پریشان ہیں کہ اگر عمران خان مذید کچھ عرصہ اقتدار میں رہ گیا تو ان لوگوں کی مفاد پرستانہ سیاست کو ہمیشہ کے لیے دفن کردے گا۔

ملک کے موجودہ سیاسی حالات اور بین الاقوامی سطح پر مسلمان دشمن ممالک کی طرف سے عمران خان کی حکومت ختم کرنے کے لیے بے دریغ پیسہ بہانا درحقیقت پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی کو سبو تاژ کرکے عمران خان کو عالم اسلام کی قیادت سے باز رکھنے کی کوششوں کا حصہ ہے جس کا واحد مقصد پاکستان سے غیوراور محب وطن سیاسی قیادت کا خاتمہ ہے کہ پاکستان کے دشمنوں کو اپنے اشاروں پر ناچنے والے زرخرید غلاموں کی ضرورت ہے عمران خان کی طرح آنکھیں دکھانے والے لیڈر امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتے جس کا عملی مظاہرہ وہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے عظیم عوامی لیڈر کو ایک فوجی حکمران کے ہاتھوں پھانسی لگا کر کرچکا ہے لیکن اب وہ زمانہ نہیں رہا اب الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کا زمانہ ہے عمران خان کے خلاف سامراجی طاقتیں اتنی آسانی سے اپنے منصوبے پر عمل پیرا نہ ہوسکیں گی کیونکہ اب پڑھی لکھی اور محب وطن عوام کی اکثریت بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ اس وقت عمران خان کے خلاف سازشیں کرنا ،دیکھا جائے تو پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے کے مترادف ہے کہ بنا کسی لالچ کے ملک اور قوم کی خدمت کرنے کا جذبہ لے کر سیاست میں آنے والے سیاستدانوں میں قیام پاکستان سے لے کر ابتک صرف تین ہی سیاستدان ایسے ہیں جو برسراقتدار آسکے ہیں جو کہ بالترتیب بانی ء پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح ،ذوالفقارعلی بھٹو اور عمران خان ہیں جو دنیاوی فائدوں سے بالا تر ہوکر ایک مشن کے تحت اقتدار میں آئے وگرنہ یوں تو مفاد پرست سیاستدانوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کا اقتدار میں آنے کا واحد مقصد ذاتی فائدے ،مراعات، ٹھیکے اور بڑی بڑی پوسٹوں پر اپنے قریبی رشتہ داروں کو فائض کرنا ہوتا ہے ،نہ ان کو ملک سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے نہ عوام سے ۔ان لوگوں کا محور ومقصد صرف اپنی ذات کو زیادہ سے زیاہ فائدہ پہنچانا ہوتا ہے ۔ ایسے دنیا دار اور مفاد پرست سیاستدانوں کی بھیڑ میں اگر کوئی بے لوث ،محب وطن اوربہادر رہنما کسی قوم کو مل جائے تو اسے اس کی قدر کرنی چاہیے اور مفاد پرست رہنماؤں کے بھڑکاوے میں آکر اس کے خلاف کسی قسم کی مہم جوئی کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے کہ بقول شاعر :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے ۔بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا ۔

قائداعظم محمدعلی جناح اور ذوالفقارعلی بھٹو کے بعد اگر پاکستانی قوم کو عمران خان کی شکل میں ایک بے لوث لیڈر اور حکمران ملا ہے تو اس قوم کو اس کے شانہ بشانہ ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اس کے ہاتھ مظبوط کرنے چاہیئں کہ ماضی میں بھی نو سیاسی جماعتوں کا قومی اتحاد،عظیم عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اکٹھا ہوکر امریکہ اور اس کے گماشتوں کا آلہ کار بن کر اس جرم کا مرتکب ہوچکا ہے جس کی معافی آج تک مانگی جاتی ہے لیکن کچھ غلطیاں ناقابل تلافی ہوتی ہیں ،بھٹو کو کھوکر یہ قوم آج تک پچھتا رہی ہے تو کیا کرپٹ اور مفاد پرست اپوزیشن کی باتوں میں آکر ہم اپنے ہی ہاتھوں پاکستان اور عالم اسلام کے ایک اورعظیم اور بہادررہنما عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کا حصہ بن کر پھر ایک تاریخی غلطی کرنے جارہے ہیں ؟ عمران خان اپنی کچھ غلطیوں کے باجود آج بھی پاکستان کے حکمران کے طور پر ہر لحاظ سے آصف زرداری،نوازشریف،شہبازشریف اور فضل الرحمٰن سے بہتر چوائس ہیں جس کی وجوہات سے ہر باشعور اور بابصیرت پاکستانی اچھی طرح واقف ہے لہذاسب کچھ فراموش کرکے صرف پاکستان کے ہمدرد بن کر غیر جانبداری سے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ فیصلہ کریں کہ صرف بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے آپ اور ہم عمران خان کو اقتدار سے باہر کرکے کوئی دانشمندانہ فیصلہ کریں گے ؟ میرا خیال ہے کہ ہم لوگ ،ہماری عوام ،ہمارے ادارے اور ہمارے منتخب نمائندے عمران خان کے خلاف کھڑے ہوکر اس بھیانک غلطی کا انتخاب کریں گے جس کی تلافی کا پھر شاید موقع ہی نہ ملے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں ،سیاستدانوں کے کردار کا مطالعہ کریں اور درست فیصلہ کریں کہ آج آپ سب اور ہم سب کا درست فیصلہ ہمارے پیارے ملک پاکستان ،اس کی عوام اور ہم سب کی اولادوں کے روشن مستقبل کا ضامن ہوگا اور اگر خدانخواستہ ہم نے وہی غلطی دہرادی جو بھٹو صاحب کے زمانے میں ہوئی تو پھر اس ملک اور قوم کا اﷲ ہی حافظ ہے ۔

ﷲ تعالی ، پاکستان اور پاکستانی عوام کی حفاظت کرے اورعمران خان کی قیادت میں پاکستان کی جانب سے ایک بار پھر عالم اسلام کو متحد کرتے ہوئے اپنا ایک علیحدہ مسلم بلاک بنانے کی جو مخلصانہ کوششیں ہو رہی ہیں اﷲ تعالی ٰ اس میں کامیابی عطا فرمائے اور اس کے راستے میں جو رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں ان کو ناکامی سے دوچار فرمائے(آمین)۔
تحریر : فرید اشرف غازی ۔ کراچی


 

Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 142407 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More