اسلام نے نظامِ حکومت کے لئے خلافت کا تصور پیش کیا ہے۔
خلافت کا مفہوم
”خلافت کا معنی ہے جانشینی۔ خلافت نبی کریم ﷺ کی جانشینی کا نام ہے، یعنی
دنیا بھر کے مسلمانوں کے تمام دینی و دنیوی معاملات میں رسول اللہ ﷺ کی
لائی ہوئی شریعت کی بالادستی قائم رکھتے ہوئے احکامِ الہیہ کا نفاذ کرنا۔“
جمہوریت کا مفہوم
”جمہوریت، جمہور سے بنا ہے جس کا مطلب ہے آدمیوں کا مجموعہ۔ دراصل یہ
یونانی زبان کے دو لفظ سے مل کربناہے: Demos اور Kratos
جس کا معنی ہے عوام کی حاکمیت، اسے انگریزی میں Democracy کہتے ہیں۔
عوام کی نمائندگی کرنے والی اکثریتی جماعت کا حکومتی نظام جمہوریت کہلاتا
ہے۔ آسان الفاظ میں عوامی حکومت جمہوریت ہے۔“
خلافت اور جمہوریت میں بنیادی فرق
نظامِ خلافت، رسول اللہ ﷺ کی جانشینی کا تصور پیش کرتی ہے جس کی بنیاد اللہ
عزوجل کی زمین پر اس کے احکام کا نفاذ کرنا ہے۔
نظامِ جمہوریت، عوام کی نمائندگی کا تصور پیش کرتی ہے جس کی بنیاد اکثریتی
عوامی جماعت کی خواہشات کا تمام افراد پر نفاذ کرنا ہے۔
خلافت اور جمہوریت کا تفصیلی تقابل
1خلافت چونکہ احکامِ الہیہ کے نفاذ کا نام ہے لہذا اس بڑے منصب کے لئے
شرائط رکھی گئی ہیں یعنی خلیفہ کے لئے مسلمان، مرد، آزاد، عاقل، بالغ،
قادر، قرشی ہونا شرط ہے۔ جبکہ جمہوریت چونکہ اکثریتی عوام کی خواہشات کا
نام ہے لہذا اس منصب کے لئے عوام کی پسند،نا پسند ہی کل شرائط ہیں یعنی
کافر، فاسق، فاجر، جاہل وغیرہ بھی حاکم بن سکتا ہے۔
2خلافت میں خلیفہ کا انتخاب سابق خلیفہ یا اہلِ حَل و عقد پر مشتمل مجلسِ
شوری کرتی ہے جو عادل، عالم، صاحبِ رائے اور معاشرے کے بہترین لوگوں پر
مشتمل ہوتی ہے جبکہ جمہوریت میں عوام اپنے ووٹ کے ذریعے حاکم کا انتخاب
کرتی ہے، اس بات کی کوئی تمیز نہیں ہوتی کہ ووٹ دینے والا عاقل یا عادل
ہے،عالم ہے یا جاہل، متقی ہے یا فاسق، نظامِ حکومت کو سمجھنے والا ہے یا
نہیں ہے۔
3خلافت میں قرآن و سنت کی بالادستی ہوتی ہے اور اس سے اوپرکوئی قانون نہیں
ہوتا جبکہ جمہوریت میں آئین کی بالادستی ہوتی ہے اور قرآن و سنت کو فوقیت
حاصل نہیں ہوتی۔
4خلافت میں عدالتیں قرآن و سنت کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہوتی ہیں جبکہ
جمہوریت میں عدالتیں آئین کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہوتی ہیں اگرچہ
قرآن و حدیث کے خلاف ہو۔
5خلافت میں مدت کا تعین نہیں ہوتا تاوقتیکہ معزولیت کا سبب پیدا نہ ہوجائے
مثلا خلیفہ مرتد ہوجائے جبکہ جمہوریت میں مقررہ مدت مثلا پانچ سال کےلئے
حاکم منتخب ہوتا ہے اور یہ صورت کئی قباحتوں پر مشتمل ہے۔
6خلافت میں سیاسی پارٹیوں کا تصور نہیں ہوتا جبکہ جمہوریت میں حزبِ اقتدار،
حزبِ اختلاف پر مشتمل چھوٹی بڑی لسانی، علاقائی پارٹیاں ہوتی ہیں جواپنے
اپنے مفادات کے لئے کام کرتی ہیں۔
7خلافت میں باطل مذاہب کو اپنے مذہب کی کھلے عام تبلیغ و اشاعت کی اجازت
نہیں ہوتی ہاں انفرادی طور پر وہ اپنے مذہب پر عمل کرسکتے ہیں جب کہ
جمہوریت میں باطل مذاہب کو جمہوری حق کے تحت اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت
دی جاتی ہے۔
8خلافت میں کفار پر جزیہ نافذ کیا جاتا ہے اور ان کے جان مال عزت آبرو کی
حفاظت کی ذمہ داری لی جاتی ہے جبکہ جمہوریت میں کفار پر جزیہ کا تصور موجود
نہیں ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام کا پیش کردہ نظامِ حکومت جمہوریت سے
مختلف ہے۔
نِری جمہویت – عذابِ الہی کا پیش خیمہ
جمہوریت اپنی اصل میں بے شمار خرابیوں کا مجموعہ ہے اور نری جمہوریت کفر یہ
نظام کا حصہ، لعنت اور عذابِ الہی کا باعث ہے۔
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
”اسلام میں جمہوریت بھی ہے اور شخصیت بھی، محض جمہوریت لعنت ہے۔“
(مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد 08، صفحہ 215، المدینہ لائبریری،
دعوت اسلامی)
ہم یہاں صرف ایک مثال پیش کرتے ہیں جس سے واضح ہوجائے گا کہ نری جمہوریت کس
قدر خطرناک اور احکامِ الہیہ سے کھلی جنگ کے مترادف ہے۔
برطانیہ میں جس وقت یہ بل پیش ہوا کہ ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دی
جائے، تو پارلیمنٹ میں اختلافِ رائے ہوا جس کو دور کرنے کے لئے 15 رکنی
Wolfendern Committee بنائی گئی جس کی رپورٹ 4 ستمبر 1957 میں شائع ہوئی،
اس رپورٹ کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم جنس پرستی ایک برائی ہے لیکن چونکہ
قانون کی بنیاد اچھائی یا برائی طے کرنا نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک اخلاقی
معاملہ اور عام لوگوں کی رائے اس کی اجازت کی طرف ہے تو ہماری رائے اسے
قانونی حیثیت دینے کی ہے۔
اس رپورٹ کا نام Report of the Departmental Committee on Homosexual
Offences and Prostitution ہے جسے انٹرنیت سے دیکھا جاسکتا ہے۔
بعد میں یہ قانون امریکہ میں بھی بنایا گیا اور اب ایسے لوگوں کی باقاعدہ
تنظیمیں ہیں جن کو ہم جنس پرست کہتے ہیں، اس کے لئے Gay, Lesbian, Bisexual
وغیرہ الفاظ گردش کرتے ہیں۔
بات صرف یہاں تک نہیں رہتی بلکہ Wife Swapping کے نام سے ایک اور سوچ پھیلی
ہوئی جس کا معنی ہے بیوی کا تبادلہ۔ یعنی آپس میں ایک دوسرے کی بیویوں سے
فائدہ اٹھانا ،اس کی اجازت کے لئے آواز اٹھائی جارہی ہے۔
یہ سب عوامی جمہوریت کے مظاہر ہیں جبکہ نظامِ خلافت ان بے حیائیوں پر یک
لخت پابندی عائد کرتا ہے اور کسی عوامی رائے، جمہوری حق کی پرواہ نہیں
کرتا۔
جمہوریت ایک دھوکہ
جمہوریت کا بغور جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہوگا کہ عوام کی اکثریت کا نعرہ
محض لفظی ہے حقیقی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر
یہ بات معلوم ہے کہ ملک کے تمام ہی افراد ووٹ نہیں دیتے، بلکہ اس کی شرح 40
سے 50 فیصد یا تھوڑی کم زیادہ ہوتی ہے، اس شرح میں سے بھی بعض 20 فیصد کسی
پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں، 15 فیصد کسی پارٹی کو اور بقیہ فیصد دیگر پارٹیوں
کو ووٹ جاتا ہے۔ ان میں سے جس کو ووٹ زیادہ ملتے ہیں مثلا 20 فیصد والی
پارٹی زیادہ ووٹ حاصل کرلے تو وہ حکومت بناتی ہے حالانکہ حقیقی طور پر یہ
پورے ملک کا قلیل طبقہ ہوتا ہےجو اکثریت کا نعرہ لگاکر قوم کے اچھے برے کا
فیصلہ کرتا ہے۔ اس طرح جمہوری طریقے سے حکومت کا انتخاب ایک دھوکہ ہے۔
جمہوریت کا اسلامی ڈھانچہ
جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ اسلامی تعلیمات میں نِری جمہوریت کی قطعا گنجائش
نہیں ہے، لیکن غیر منصوص یعنی دنیاوی، انتظامی، صوابدیدی معاملات میں
جمہوریت کا تصور شورائیت کے معنی میں موجود ہے۔قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ یعنی اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔ (آل
عمران - 159)
وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ یعنی اور ان کا کام ان کے آپس کے مشورے
سے ہے۔ (شوری - 38)
حضور سیدِ عالم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ یعنی تم اپنے دنیاوی کاموں کو بہتر
جانتے ہو۔
(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب وجوب امتثال الخ، جلد 04، صفحہ 1836، حدیث
2363، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
”امورِ انتظامی جن میں شرع مطہر کی جانب سے کوئی تحدید نہ ہو ان میں کثرتِ
رائے کا لحاظ ہوتا ہے، اس میں ہرذی رائے مسلمان سنی کی رائے ملحوظ ہوگی
اگرچہ عالم نہ ہو کہ معاملہ شرعیات سے نہیں بلکہ بارہا تجربہ کار کم علموں
کی رائے کسی انتظامی امر میں ناتجربہ کار ذی علم کی رائے سے صائب تر ہوسکتی
ہے۔“
(فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 128، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
لہذا جمہوری نظام کی غیر شرعی شقوں کو دور کرکے اور جمہور کی رائے کو شرعی
حدود و قیودات سے مشروط کرکے نافذ کیا جائے تو اس نظام کو قبول کرنے کی
گنجائش موجود ہے۔ جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔
پاکستان میں اسلامی جمہوریت
دنیا کے تقریبا اکثر ممالک میں جمہوری نظام رائج ہے۔ جس کی ہم تین قسمیں
کرسکتے ہیں:
1بلاواسطہ جمہوریت (Direct Democracy): یہ سوئٹزرلینڈ اور امریکا کے نیو
انگلینڈ کے چند شہروں میں رائج ہے۔
2پارلیمانی جمہوریت ((Parliamentary Democracy: یہ پاکستان، انڈیا، کینیڈا،
جاپان، آسٹریلیا وغیرہم ممالک میں رائج ہے۔
3صدارتی جمہوریت (Presidential Democracy): یہ امریکہ میں رائج ہے۔
پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے، 1956کے پہلے آئین میں اسلام کا
سابقہ لگاکر اسے اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا، 1973 میں پاکستان کا تیسرا
آئین نافذ کیا گیا جو اب تک رائج ہے۔پاکستان کے مروجہ آئین میں قراردادِ
مقاصد کو برقرار رکھتے ہوئے اسلامی دفعات بیان کی گئی ہیں، مثلا
1”اسلام پاکستان کامملکتی مذہب ہوگا“۔ (آئینِ پاکستان، آرٹیکل2)
2”تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق
بنایا جائے گا، جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے، اور
ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گاجو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔ “
(آئینِ پاکستان، آرٹیکل 227)
3”چونکہ اللہ تبارک و تعالی ہی کل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور
پاکستان کے جمہورکو جو اختیار و اقتدار اس کی مقررکردہ حدود کے اندر
استعمال کرنے کا حق ہوگاوہ ایک مقدس امانت ہے۔“ (قرار دادِ مقاصد)
آئینِ پاکستان کی یہ دفعات بظاہر تو اسلامی قوانین کی برتری کا پتہ دیتی
ہیں مگران قوانین کے نفاذ کا جو طریقہ مرتب کیا گیا ہے اس سے اسلامی قوانین
کا نفاذ پارلیمنٹ کے رحم و کرم پر معلق رہے گا، تفصیل یہ ہے کہ کوئی بھی
قانون جو خلافِ قرآن و سنت ہوگا اسلامی نظریاتی کونسل اس کی نشاندہی کرے گی
اور پارلیمنٹ کو سفارش پیش کرے گی۔ آئین میں لکھا ہے:
1”مجلسِ شوری (پارلیمنٹ) اور صوبائی اسمبلیوں سے ایسے ذرائع اور وسائل کی
سفارش کرنا جن سے پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی زندگیاں انفرادی اور اجتماعی
طور پر ہر لحاظ سے اسلام کے ان اصولوں اور تصورات کے مطابق ڈھالنے کی ترغیب
اور امداد ملےجن کا قرآن پاک اور سنت میں تعین کیا گیا ہے۔“ (آئینِ
پاکستان، آرٹیکل 230(1) (الف))
2”کسی ایوان، کسی صوبائی اسمبلی، صدر یا کسی گورنر کو کسی ایسے سوال کے
بارے میں مشورہ دیناجس میں کونسل سے اس بابت رجوع کیا گیا ہو کہ کوئی مجوزہ
قانون اسلامی احکام کے منافی ہے یا نہیں۔“ (آئینِ پاکستان، آرٹیکل 230(1)
(ب))
اس کی مزید شقوں کا مطالعہ کریں تو اسلامی نظریاتی کونسل کی ساری محنت،
کاوش اور خلافِ قرآن و سنت قوانین کی نشاندہی وغیرہ صرف سفارش اور مشورے تک
محدود ہے، رہا نفاذ کا معاملہ تو کونسل کو اس کا اختیار نہیں بلکہ پارلیمنٹ
ہی اس کے نفاذ کا فیصلہ کرے گی۔
یہ بھی یاد رہے کہ پارلیمنٹ اگر دو تہائی اکثریت سے ”قرآن و سنت کے خلاف
قانون نہ بننے“ کی دفعہ میں ترمیم کردے یا اسے کالعدم قرار دے دے تو اُس کا
فیصلہ نافذ ہوجائے گا۔ ایسی صورت میں قرآن و سنت کی بالادستی کی بات برائے
نام رہ جاتی ہے اور جمہوریت کی وہی صورت سامنے آتی ہے جو اسلامی تعلیمات سے
بالکل متصادم اور اللہ عزوجل کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
موجودہ حالت میں کیا کرنا چاہئے؟
تمام تر تفصیل واضح کرتی ہے کہ نظامِ جمہوریت اپنے اندر بہت سی قباحتوں کو
سمیٹے ہوئے ہے خصوصا اس کے بنیادی ڈھانچے میں سخت خرابی موجود ہے، پاکستان
میں موجودہ جمہوری نظام کے آئین میں اسلامی دفعات کو شامل کرکے جمہوریت کو
اسلامی بنانے کی کوشش کی گئی ہے مگر یہ نظام خرابیوں سے مکمل طور پر پاک
نہیں ہوسکا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمنٹ کے اختیارت کو ایسی دفعات کے
تحت محدود کردیا جائے جس سے وہ چاہ کر بھی قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون
پاس نہ کرسکےاور جو سفارشات اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے اب تک دی
جاچکی ہیں ان پر اِلتوا ئی پردہ ڈالنے کے بجائے عملی اقدامات کئے جائیں۔
ان سب کے باجود یہ ذہن نشین رہے کہ موجودہ اسلامی جمہوری نظام نہ تو ہمارا
مطلوب ہے نہ ہماری ترجیح ہے بلکہ یہ مجبوری کی حالت ہے، ہم اسے مکمل طور پر
نظامِ خلافت کا متبادل نہیں کہہ سکتےجیسے ماضی میں اسلامی سلطنت و بادشاہت
کا نظام رہا ہے۔مگر پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک کم از کم یہ تو کرسکتے
ہیں کہ اپنے اپنے ملک میں قرآن و سنت کی بالادستی کو قائم رکھتے ہوئے مروجہ
نظام میں اصلاحات لے کر آئیں اور ایک اسلامی بلاک کے لئے کوشش کریں، یہ
تدریجی مراحل شمار ہوں گے جوخلافت کی راہ ہموار کرنے میں معاون ثابت ہوں
گے۔گو کہ علمائے اسلام تصریح کرچکے ہیں کہ امتِ مسلمہ صدیوں سے بارِ خلافت
اٹھانے سے معذور ہے، دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے اسلامی ممالک کو ایک
خلیفہ کے جھنڈے تلے جمع کردینا مشکل ترین معاملہ ہے مگر امکان تو یقینا
موجود ہےاور وہ وقت بھی یقینا آئے گا جب امتِ مسلمہ پھر سے نظامِ خلافت کے
تحت جمع ہوگی۔ ابو داؤد شریف کی حدیث ملاحظہ کریں:
نبی رحمت شفیعِ امت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
”يَكُونُ اخْتِلَافٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِيفَةٍ، فَيَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ
أَهْلِ الْمَدِينَةِ هَارِبًا إِلَى مَكَّةَ، فَيَأْتِيهِ نَاسٌ مِنْ
أَهْلِ مَكَّةَ فَيُخْرِجُونَهُ وَهُوَ كَارِهٌ، فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ
الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ۔۔۔ یعنی ایک خلیفہ کی وفات کے وقت اختلاف ہوگا، (اس
کا نام معلوم نہیں مگر یہ آخری خلیفہ ہوگا جس کے بعد امام مہدی خلیفہ ہوں
گے، اختلاف ہوگا کہ کسے خلیفہ منتخب کریں) تو اہلِ مدینہ میں سے ایک صاحب
مکہ معظمہ کی طرف تیزی سے تشریف لے جائیں (اس خوف سے کہ کہیں اُنہیں خلیفہ
نہ چُن لیا جائے) اہلِ مکہ میں سے کچھ لوگ ان کے پاس آئیں گے (وہ مکے میں
کہیں چھپے ہوں گے) ، لوگ انہیں باہر لائیں گے اس حال میں کہ وہ صاحب(بارِ
خلافت اٹھانے کو) ناپسند کرتے ہوں گے، تو لوگ حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم
کے درمیان ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔“
(سنن ابو داؤد،کتاب الفتن و الملاحم، جلد 04، صفحہ 107، حدیث 4286، المکتبۃ
العصریہ، بیروت)
اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مہدی رضی اللہ عنہ سے پہلے خلافت
لوٹ آئے گی اور اس وقت کسی خلیفہ کا انتقال ہوگا، ہم اگر اپنے دور سے
موازنہ کریں تو یک دم خلافت کا قیام بے حد مشکل نظر آتا ہے، لیکن یہ طے
ہےکہ خلافت قائم ہوگی تو یقینا خلافت کی راہ پہلے ہموار ہوگی ۔ اس لئے ہم
نا امید نہیں ہیں اور یہی عرض کرتے ہیں کہ مجبوری کی حالت پر تکیہ کرکے نہ
بیٹھیں بلکہ مروجہ نظام میں اصلاحات کی کوشش کے ساتھ ساتھ قوم کو نظامِ
خلافت کے خوبیوں اور مروجہ جمہوری نظام کی خرابیوں سے آگاہ کرتے رہیں۔اگر
ہم کوشش کرتے رہے تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ ہمارا نام خلافت کے لئے
کوشش کرنے والوں کی فہرست میں شامل کردیا جائے ۔
|