پاکستان میں عمران خان کی حکومت گر گئی مگر آئین کی
حکمرانی قائم ہوگئی ۔ وزیر اعظم کا تو سرنگوں ہوا لیکن عدلیہ کا وقار بلند
ہوگیا ۔ افراد اور سرکاروں پر اداروں اور دستور کی بالہ دستی ہر ملک وقوم
کے لیے نیک فال ہے۔ اپنی مقبولیت کے باوجود عمران خان یہ سیاسی میچ ہارگئے
۔ سیاست میں آنے کے بعد کرکٹ کی دنیا کے بے تاج بادشاہ عمران خان یہ
بنیادی سبق بھول گئے کہ کوئی بھی کھلاڑی ہر میچ میں کامیاب نہیں ہوتا ۔ جیت
کا ہار سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ نہ تو ان کی
گزشتہ جیت آخری تھی اور نہ یہ ہار اختتام ہے۔ آج بھی مملکت خداداد میں
عمران خان بہت مقبول ہیں ۔ ان کو ابھی بہت کھیلنا ہے۔دو سال بعد ملک میں
دوبارہ انتخاب ہوں گے ۔ اپنی اس شکست کو کھلے دل سے قبول کرکے ا گرانہوں نے
حماقتوں کا یہ تازہ سلسلہ بند کردیا اور سوجھ بوجھ کے ساتھ سیاسی مہرے
چلاتے رہے تو بعید نہیں کہ پھر سے اپنے بل بوتے پر ایک مستحکم حکومت قائم
کرنے میں کامیاب ہوجائیں کیو نکہ بقول شاعر ؎
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہے
عمران خان کو دوبار ہ فتح یاب ہونے کے لیے سب سے پہلے حقیقت پسند بننا ہوگا
۔ ان کو یہ بات رکھنی ہوگی کہ وہ کس طرح ایک کرکٹ کھلاڑی سے سربراہِ مملکت
بنے؟ انہوں نے پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کا عزم کیا اورتحریک انصاف
نامی سیاسی پارٹی تشکیل دی۔ ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے بہت سارے
سیاستداں ان کی سیاسی جماعت میں شامل ہوئے۔ اس پارٹی نے انتخاب سے قبل عوام
کی فلاح بہبود کا دعویٰ کیا۔ ان کے سامنے وزیر اعظم میاں نواز شریف نامی
ایک مضبوط دعویدار تھا۔ اس بابت عوام سے انتخاب کے ذریعہ مشاورت کی گئی تو
سب سے زیادہ لوگوں نے ان کے حق میں رائے دی لیکن وہ کافی نہیں تھی یعنی
ایوانِ پارلیمان ان کی پارٹی کے ارکان کی تعداد پچاس فیصد سے کم تھی ۔ دیگر
جماعتوں نے ان کی حمایت کی ۔ اس کے بعد عمران خان نےتحریک اعتماد پیش کی ۔
اس میں انہیں کامیابی ملی اور وہ ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔
تین سال بعد یہی پہیہ الٹا گھوم گیا ۔ پاکستان کے اندر جو حزب اختلاف منتشر
تھا وہ متحد ہوگیا ۔ تحریک انصاف کی حامی جماعتوں نے اس مرتبہ متحدہ حزب
اختلاف کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ اس کا انہیں حق ہے کیونکہ اگر وہ عمران کے
خلاف انتخاب میں کامیاب ہوکر ان کی حمایت کرسکتے ہیں تو مخالفت کیوں نہیں
کرسکتے؟ ان کے ایسا کرنے سے عمران خان کی پارٹی اقلیت میں آگئی۔ حزب
اختلاف نے ان کے خلاف عدم اعتما د کی تحریک پیش کردی ۔ اس میں تعجب کی کوئی
بات نہیں ۔دہلی میں وی پی سنگھ اور دیوے گوڑا کی حکومت اسی طرح حزب اختلاف
کے یکجا ہونے سے قائم ہوئی اور مہاراشٹر میں اب بھی موجود ہے۔ ایسے میں
عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے سے دور جانے والی جماعتوں کو قریب لانے
کی کوشش کرتے ؟ لیکن عدم اعتماد کی تحریک کو غیر ملکی سازش اور مخالف ارکان
پارلیمان کو امریکی ایجنٹ قرار دے کر عمران خان نے مفاہمت کا دروازہ ازخود
بند کرلیا ۔
عمران خان نے اپنے مخالفین کو غدارِ وطن قرار دے کر ان پر بک جانے کا سنگین
الزام لگا دیا ؟ یہ ارکان پارلیمان اگر بکاو مال تھے خود عمران انہیں کیوں
نہیں خرید سکے ؟ وہ لوگ اگر بدعنوان ہیں تو عمران خان نے ان کے گھر ای ڈی
جیسے کسی ادارے کا چھاپہ مار کر انہیں ڈرایا دھمکایا کیوں نہیں؟ خریدنے اور
ڈرانے دھمکانے کا یہ کھیل اس ہم سایہ ملک میں سرِ عام ہوتا جس کی وہ تعریف
کررہے ہیں ۔ امریکہ اگر واشنگٹن میں بیٹھ کرپاکستانی ارکانں پارلیمان کی
وفاداری خرید سکتا ہے تو عمران خان کو ایسا کرنے سے کس نے روکا؟
اپنےمخالفین کو ملک کا دشمن قرار دینا تو بہت آسان ہے مگر اس الزام کو وہ
ثابت نہیں کرنا مشکل ہوتاہے ۔ حزب اختلاف پر دباو بنانے کی یہ حکمتِ عملی
ناکام رہی تو انہوں اپنا اقتدار بچانے کی خاطر ایوان کو تحلیل کرنے کا غیر
آئینی فیصلہ کرکےازسرِ نو انتخاب کروانے کا اعلان فرما دیا۔
عمران خان بھول گئے کہ آئین کے مطابق ایسی صورتحال میں کسی اور کا کارگزار
وزیر اعظم بننا ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ کارگزار وزیر اعظم کے نام پر حزب
اقتدار اور حزب اختلاف کا اتفاق رائے لازمی ہے۔حزب اختلاف سے رائے مشورہ
کیے بغیر انہوں نے سابق چیف جسٹس کا نام تجویز کردیا ۔ عمران خان کی اس
تجویز پر اگراتفاق رائے ہوجاتا تب بھی ان کو اقتدار سے بے دخل ہونا ہی پڑتا
۔ ان کے خیال میں اس طرح وہ استعفیٰ کی سبکی یا عدم اعتماد کےذریعہ ہٹائے
جانے کی رسوائی سے بچ جاتے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس میں کوئی سبکی یا رسوائی
تھی ہی نہیں ۔ کوئی فرد اگر اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے اقتدار سنبھال سکتا ہے
تو عدم اعتماد کے سبب اپنا عہدہ گنوا بھی سکتا ہے۔ عمران خان کے ان ہیجانی
اقدامات کا پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے ازخود نوٹس لیا۔ ہندوستان کی سپریم
کورٹ ایسا کرنے کی جرأت نہیں کر سکتی۔
بدقسمتی سے عمران خان کو اپنی عدالتِ عظمیٰ میں رنجن گوگوئی جیسا کوئی چیف
جسٹس میسر نہیں آیا ورنہ ان کو سبکدوشی کے بعد کسی عہدے کا وعدہ کرکے وہ
اپنے حق میں فیصلہ کروا سکتے تھے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے کمال دلیری کا
مظاہرہ کرتے ہوئےنہایت دوٹوک ایسا متفقہ فیصلہ سنایا کہ کنفیوزن یا ہیر
پھیر کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہی۔ اس فیصلے میں پہلے تو قومی اسمبلی کے
تحلیل کرنے کو غیر آئینی قرار دے کر اسے بحال کردیا گیا ۔ حکومت پر عدم
اعتماد کی تحریک پر رائے شماری کروانے کو لازم کرتے ہوئے اس کی تاریخ متعین
کی گئی اور حکم دیا گیا کہ یہ اجلاس کسی بہانے سے ملتوی نہیں کیا جائے گا ۔
اس فیصلے سے قبل چونکہ عمران خان یہ کہہ چکے تھے کہ وہ عدالت کا ہر فیصلہ
قبول کرلیں گے اس لیے ان کے پاس اقتدار سے دستبردار ہونے کے سوا کوئی چارۂ
کار نہیں بچا۔
پاکستان میں فوجی مداخلت کے سبب سرکاری عدم استحکام تو رہا ہے لیکن سیاسی
جماعتوں نے یہ دوسری مرتبہ بڑے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا ۔ عمران خان کے
اشتعال انگیزی سے متاثرہوکرایسی کوئی ہنگامہ آرائی نہیں کی کہ جس کا حکومت
فائدہ اٹھا سکے۔ اس طرح کی پختگی کا مظاہرہ پرویز مشرف کے ذریعہ کرائے جانے
والے انتخاب کے بعد بھی ہوا تھا ۔ اس وقت بھی کسی جماعت کو واضح اکثریت
نہیں ملی تھی ۔ پہلے اور دوسرے نمبر پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی تھے۔
تیسرے پر پرویز مشرف کی پٹھو جماعت تھی ۔ ایسے میں نواز شریف کے لیے اپنے
سب سے بڑے مخالف کی حمایت کرنا بہت مشکل تھا ۔ اس وقت دونوں پارٹیوں کے لیے
پرویز مشرف کی حمایت لے کر حکومت سازی ممکن تھی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ دونوں
حریف جماعتوں نے ایک ساتھ آکر پرویز مشرف کو ملک سے فرار ہونےپر مجبور
کردیا۔ اس بار پھر وہ دونوں ساتھ آئے اور شہباز شریف کو وزیر اعظم بننے کا
موقع مل رہا ہے۔
عمران خان جاتے جاتے ہندوستان کی تعریف کرکے اپنی ساکھ کو بڑا نقصان
پہنچایا ہے۔ اپنے سیاسی حریفوں کو نیچا دکھانے کے لیے ایسی خارجہ پالیسی کی
تعریف کرنا جو نہ صرف چین کے سامنے ناکام رہی بلکہ یوکرین میں بھی کمزور
پڑگئی حیرت انگیز ہے۔ ہندوستان ایک طرف تو امریکہ کے ساتھ قواڈ میں شامل ہے
اوردوسری طرف روس سے تیل خرید رہا ہے۔ یہ’ پاسباں بھی خوش رہے راضی رہے
صیاد بھی‘ والی دوہری رسوائی ہے ۔ اقوام متحدہ میں ایک استثنیٰ کے علاوہ ہر
مرتبہ ہندوستان نے کسی فریق کی حمایت نہیں کی۔ بوچا کے نسل کشی پر بھی روس
کا نام نہیں یا اور اگلے دن روس کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن سے
نکالنے کی رائے شماری میں پھر سے معتدل ہوگیا۔ ایسے میں مریم نواز کو عمران
خان پر یہ طنز کسنے کا نادر موقع ہاتھ آگیا کہ اگر انہیں ہندوستان اتنا
اچھا لگتا ہے تو وہیں منتقل ہوکر ہمارا پیچھا چھوڑیں۔ اس سے سخت تنقید کا
موقع خودعمران نے انہیں دیا۔
اقتدار کا آنا جانا لگا رہتا ہے مگر فی الحال عمران خان سے جو لغزشیں سرزد
ہوئی ہیں اس کی بھرپائی آسان نہیں ۔ عمران نے استعفیٰ کے لیے پہلی شرط یہ
رکھی کہ انہیں گرفتار نہ کیا جائے۔ ایک نہایت دلیر رہنما کا جیل جانے سے
خوفزدہ ہوجانا کیا معنیٰ؟ ویسے حزب اختلاف کے رہنما جیل میں ہمدردی بٹور کر
اپنی مقبولیت میں اضافہ کرتے ہیں ۔ اندراگاندھی کے لیے تو جیل جانا ایک
وردان ثابت ہوا تھا اور اس نے ایمرجنسی کے دوران کیے جانے والے سارے مظالم
پر پانی پھیر کر عوام کو ان کا ہمدرد بنادیا تھا۔ عمران خان کا یہ مطالبہ
کہ ان پر بدعنوانی کے تحت مقدمہ نہ قائم کیا جائے چور کی داڑھی میں تنکے کی
مصداق ہے۔ کل تک سابق وزیر اعظم نواز شریف کے احتساب کا نعرہ لگانے والے
عمران خان کو یہ زیب نہیں دیتا ۔
عدالت کی پھٹکار کے بعد اقتدار گنوانے والے وزیر اعظم کو یہ اختیار ہی نہیں
ہے کہ وہ اگلے سربراہِ مملکت کے لیے مشورہ دے۔ ایسے میں یہ شرط لگانا کہ
شہباز شریف کے علاوہ کسی اور کو وزیر اعظم بنایا جائے بچکانہ مطالبہ تھا جس
کی توقع کسی پختہ کار سیاستداں سے نہیں کی جانی چاہیے۔ قومی امکان ہے بہت
جلد شہباز شریف پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لیں گے ۔ عمران خان
نے ایک اجلاس کا تو بائیکاٹ کردیا مگر آگے وزیر اعظم کی مخالفت کرنے کے
لیے بھی انہیں ملک کا سربراہ تو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔ کسی کو ملک کا غدار
یا غیر ملکی کٹھ پتلی کہہ دینے کے بعد یہ کرنا کس قدر ہوگا اس کا اندازہ
انہیں نہیں رہا ہوگا۔ عمران خان کے پیش نظر اگر بشیر بدر کا یہ شعر ہوتا تو
وہ اس قدر آگے نہیں جاتے ؎
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
|