نئے پاکستان میں اسلام آباد سے کچھ ایسی ہوائیں چلی ہیں
کہ پنجاب ،خیبر پختونخواہ تک اُس کی لپیٹ میں آگئے ہیں، بلوچستان اور گلگت
بلتستان اگلا ٹارگٹ دکھائی دے رہے ہیں لیکن بعض طالع آزما ان سب سے قبل
کشمیر فتح کرنے کو لنگوٹ کسے بیٹھے ہیں ، ان سب کو میں یاد دلانا چاہتا ہوں
کہ کشمیر اسلام آباد نہیں ہے، اوریہ ایک متنازع علاقہ ہے ،یہ بھارت کے 2019
کے اقدامات کے نتیجے میں انتہائی حساس اور نازک ہو چکا ہے،اب کیا اپنے
حکومت اور وزارت عظمیٰ کے شوق کیلئے کوئی اس خوبصورت گلدان کو توڑنا چاہتا
ہو، میری نظر میں تو آزاد کشمیر کا کوئی بھی سیاستدان اتنا نادان نہیں ہے
کہ اپنے منو رنجن اور لالچ میں جموں و کشمیر کے لوگوں کے ماضی حال اور
مستقبل سے کھیلنے کا گناہ کرنے کا سوچ بھی سکتا ہو،لیکن پھر بھی تبدیلی کو
تبدیل کرنے کی بھنبھناہٹ اتنی بڑھ گئی ہے کہ آزاد کشمیر کے سکون اور خاموشی
میں ایک شور سا برپا ہو گیا ہے، اسلام آباد والوں کو گو ابھی تک اپنا ہوش
نہیں ہے اور خاص طور پر اتوار کی رات جیسے پاکستان بھر میں احتجاج ہوا ہے
اور ایمپورٹڈ حکومت نا منظور کے نعرے لگے ہیں،اس نے اور بھی خوشیوں کو مدھم
اور آلودہ سا کر دیا ہے مگر یہ نجانے کونسی مخلوق ہے جو سردار عبد القیوم
نیازی جیسے فرشتہصفت شخص کے خلاف ایک محاذ سا کھڑا کر دیا ہے، آج جب آزاد
کشمیر کو ایک اتحاد یکجہتی اور بھائی چاریے کی ضرورت ہے،آج جب آزاد کشمیر
کو تھریک کشمیر کا حقیقی بیس کیمپ بنانے کی ضرورت ہے کچھ ناسمجھ سیاستدان
اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہو رہے ہیں، قارئین آپ کو یاد ہو گا کہ
پاکستان میں بار بار لگنے والے ماشل لاؤں میں بھی آزاد کشمیر کی حکومت سے
کبھی چھیڑ چھاڑ نہ کی گئی، اور اس خطے کے نظام کو پر امن طور پر چلنے دیا
گیا لیکن اب وہ جماعت جو اپنی بنیاد کو ہی تحریک کشمیر سے منصوب کرتی ہے اس
کا نام لے کر عوام کو بہکایا اور حکومت کو دھمکایا جا رہا ہے، ہمارے ہاں
رسم چل نکلی ہے کہ لوگ آئین کے نام پر عوام کی رائے کا استحصال کرنے پر تُل
جاتے ہیں اور ہر وہ کام کر گذرنے کے لئے بے تاب ہو جاتے ہیں جو آئین کی روح
کے منافی ہو، اب پاکستان میں جو کچھ ہوا وہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے لیکن
آزاد کشمیر میں عدم اعتماد کے شور و غوغا کا پس منظر پاکستان کے بدلتے ہوئے
حالات ہی ہیں ، اور خاص طور پر جس منظر اور بیرونی مداخلت کا الزام اور
شواہد سامنے لائے جا رہے ہیں اس میں تو کسی کو آزاد حکومت کی طرف آنکھ
اُٹھا کر بھی نہیں دیکھنا چاہئے،چونکہ یہ بات روسی افغانستان سے امریکی
افغانستان تک ثابت ہو چکی ہے کہ بیہرونی ایجنڈوں سے کبھی ملکوں کی تقدیریں
نہیں بدلا کرتیں،غلامی تو مل سکتی ہے کبھی آزادیاں نہیں ملا کر تیں ، ایسے
میں سب سے زیادہ ذمہ داری حریت کانفرنس کی آزاد کشمیر اور پاکستان کی شاخوں
پر عئد ہوتی ہے کہ وہ اس ماحول کے خلاف آواز بلند کریں اور اپنا کچھ تو حق
ادا کریں اگر حریت کانفرنس کی یہ شاخیں اب بھی خاموش رہ کر صرف اپنا مقامی
مفادپیش نظر رکھتی ہیں تو پھر اس ریاست کا اس کی آزادی کی خواہش کا اور
آزاد کشمیر میں گڈ گورنس کا اﷲ ہی حافظ ہے، اس ضمن میں حریت کانفرنس کے بعد
میری نظر مسلم کانفرنس کے سردار عتیق احمد خان اور جموں کشمیر کے حسن
خالدابراہیم پر ٹھہرتی ہے، کہ وہ اس وقت میں اپنی اہمیت کو سمجھیں اپنی
آواز کی طاقت کو پہچانیں کہ اب صرف اُن کی آوازیں ہی کشمیر کے حق خود
ارادیت کی آواز ہیں، یا پھر اُن کے بعد جماعت اسلامی آزاد کشمیر کی آوازکو
دنیا کچھ اہمیت دے سکتی ہے، ان ذمہ داران کے بعد میری نظریں پھر پاک فوج کی
قیادت کی طرف اُٹھتی ہیں جو 1947سے آج تک آزاد کشمیر کے تحفظ و بقا کی ضامن
رہی ہے، ایسے وقت میں جب ہم سرینگر میں ہونے والی ایک بھی گرفتاری یا شہادت
پر پوری دنیا کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایسے میں اگر آزاد کشمیر میں
عوامی منڈیٹ کو مینو پلیٹ کیا جائے یا اس کا خون کیا جائے گا تو پھر بھارت
اور خود کشمیری کیا واویلا نہیں کریں گے ،اور بھارت کومْبوضہ کشمیر میں ڈی
لیمیٹیشن کرنے اور ہندو رجیم قائم کرنے میں کتنی آسانیاں حاصل ہوجائینگی،
اس لئے لازم ہے کہ نہ صرف متذکرہ افراد اور جماعتیں اپنی آواز بلند کریں
بلکہ آزاد کشمیر کے تشخص کے داعی راجہ فاروق حیدر خان، پی پی پی کے چوہدری
یٰسین، اور لطیف اکبر اور خاص طور پر صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود
اور صدر پی ٹی آئی تنویر الیاس کو بھی اپنے ذاتی اختلافات، انا اور خواہشات
کو ایک طرف رکھ کر قومی مفاد کو مقدم رکھنا چاہئے، اب آپ کے ذاتی اختلافات
کا فائدہ اُٹھا کر پیپلز پارٹی اگر ن لیگ کے اشتراک کا فائدہ اٹھا کر وزارت
عظمیٰ پر براجمان ہو جاتی ہے تو خود کو تحریک انصاف سے منصوب کر کے اقتدار
میں آنے والوں کی مٹی پلید ہو جاتی ہے، ہاں یہ درست ہے کہ سردار تنویر
الیاس روز اول سے وزارت عظمیٰ کے اُمید وار تھے ، بیرسٹر سلطان محمود بھی
عمران خان کے اس انتخاب سے ناخوش تھے اور بعد میں آمادہ بھی ہوئے، اور وہ
عدم اعتماد کیلئے متحرک بھی رہے ہیں مگر فی الوقت حالات اور زمینی حقائق
بدل گئے ہیں ، انہیں نئی صورت حال کو سمجھ کر فیصلے کرنے اور اپنی پارٹی کا
تشخص برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے، سردار عبدا لقیوم خان اس وقت ان کی
سانجھی عزت و وقار ہیں، پاکستان کے عوام کا موڈ بھی سب دیکھ رہے ہیں اس لئے
لالچ، کینہ اور انا سے ہٹ کر، بالا ہو کر انہیں اپنی اجتماعی عزت بچانے کی
طرف توجہ دینی چاہئے، ان کا ایک قدم پوری کشمیری قوم کو شرمندہ کر سکتا
ہے،اور اس کے ساتھ ساتھ جس قدر نقصان تحریک آزادی ء کشمیر کو ہو گا اور
بھارت کے ہاتھ جتنے مضبوط ہونگے اور مقبوضہ کشمیر میں جس قدر مظالم بڑھیں
گے، اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے، اس لئے میری آزاد کشمیر کے
سارے ہی اکابرین سے درخواست ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کے گرد گھومنے والے
ورکروں اور مشیروں کے مشوروں کو ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے نکال
دیں،کہ آزد کشمیر حکومت کے استحکام میں ہی اُن سب کی اور کشمیری قوم کی عزت
ہے، ورنی شرمندگی اور رسوائی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
|