رام نومی اور سبزی خوری: پردے کے پیچھے کیا ہے؟


رام نومی اور سبزی خوری کاجن دہلی کے بلدیہ سے نکل کر جے این یو کے کیمپس میں داخل ہوگیا ۔ وہاں رام نومی کی پوجا پاٹ اور کاویری میس کے اندر نان ویج کو لے کر ہنگامہ اتنا بڑھا کہ نوبت پولس اسٹیشن میں ایف آئی آر سے لے کر اسپتال میں زخمیوں تک پہنچ گئی۔ اس میں ان بھولے بھالے شکست خوردہ دانشوروں کے لیے عبرت کا سامان ہے جو مسلم قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر نے بابری مسجد کی بازیابی کے لیے اصرار نہیں کیا گیا ہوتا تو ملک کی فرقہ وارانہ فضا خراب نہیں ہوتی ۔اس لیے گویا موجودہ نفرت کے ماحول کی ذمہ داری خود ملت پر ہے۔ رام نومی کایہ تنازع اس خوش فہمی کو دور کردیتا ہے۔ اس بار بابری مسجد یا رام مندرنہیں ہے۔ بابر اوراس سے صدیوں بعد انتقام لینے کی خاطر میدان میں آنے والا بجرنگ دل بھی غائب ہے لیکن تنازع ہے ۔ دنگا فساد اور نفرت انگیزی اپنے شباب پر ہے کیونکہ اس کی سیاسی ضرورت موجود ہے۔ جن لوگوں کو انتخاب جیتنے کے لیے فرقہ واریت درکار ہے وہ اس کو فروغ دے کرکسی نہ کسی بہانے سے فتنہ فساد برپا کرتےرہتےہیں اور کرتے رہیں گے ۔ بقول غالب ؎
ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی

ان لوگوں کو جوسوچتے ہیں کہ اگر بابری مسجد کی تحریک نہ چلتی تو آج بھی ملک میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے، یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ایسا صرف محاورے کی حد تک ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے میمنے اور شیر کی کہانی میں درسِ عبرت ہے۔ ایک نہر پروہ دونوں کافی فاصلے پر پانی پی رہے تھے۔ حسب توقع جنگل کا راجہ بلندی پر اورپرجا پستی میں تھی۔ شیر کو بھوک کا احساس ہوا تو میمنے پر نیت خراب ہوگئی۔ میمنے کا شکار کرنے کے لیےشیر نے جواز تلاش کیا حالانکہ آج کل کے سیاستداں بلا جواز بلڈوزر چلا دیتے ہیں۔ شیر نے کہا کہ تم میرے پینے کا پانی کیوں گدلہ کررہے ہو؟ غریب میمنہ بولا حضور پانی تو آپ کی جانب سے میری طرف آرہا ہے اس لیے میں اسے کیونکر گدلہ کرسکتا ہوں ۔ اس جواب پر جھینپ کر شیر نے کہا سنا ہے تم نے مجھے پچھلے سال گالی دی تھی۔ میمنہ بولا میں تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوا تھا ۔ لاجواب ہوجانے کے باوجودشیر کٹ حجتی کرتے ہوئے بولا تم نے نہیں تو تمہاری ماں نے گالی دی ہوگی۔ میمنہ خطرہ سمجھ گیا اور اپنی جان بچانے کی خاطر گویا ہوا جناب آپ اور وہ تو ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے ۔ لہٰذہ وہ ایسی گستاخی کیسے کرتی ۔ شیر نے زچ ہوکر کہا دیکھو جب مجھے بھوک لگتی ہے تو میں دوست و دشمن کی تفریق نہیں کرتا اور پھر میمنے کو چٹ کرگیا۔

شیر جنگل میں ہو یا شہر میں اس کی خصلت نہیں بدلتی ہاں شکار بدل جاتا ہے۔ دہلی کی مشہور و معروف جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ضرورت پرانی مگر شکار نیا یعنی مسلمان نہیں بلکہ بائیں بازو کے طلباء ہیں ۔ اس لیے کہ وہاں اپنی سیاسی بھوک مٹانے کی خاطر مسلمانوں کی وافر مقدار موجود نہیں ہے۔ جے این یو میں رام نومی اور سبزی خوری کے مسئلہ پر ہنگامہ برپا کردیا گیا ۔ بائیں بازو کی یونین کا الزام ہے کہ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے طلباء نے انہیں نان ویج کھانا کھانے سے روکنے کی خاطر کاویری ہاسٹل کے میس سکریٹری کے ساتھ مار پیٹ کی۔ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ جے این یو اسٹوڈنٹس یونین پر فی الحال لیفٹ ونگ کا غلبہ ہے اوراے بی وی پی برسوں سے وہاں قدم جمانے کی ناکام کوشش کررہی ہے ۔

یونین نے کیمپس میں غنڈہ گردی کا الزام لگاتے ہوئے طلبہ سے متحد ہونے کی اپیل کی ہے لیکن کیا اس طرح کے ہنگاموں سے اے بی وی پی کو اپنے مقصد میں یعنی اثرو رسوخ بڑھانے میں کامیابی ملے گی؟ ظاہر ہے دنیا کی کسی بھی درسگاہ میں داداگیری سے کوئی تنظیم کامیاب نہیں ہوسکتی لیکن اے بی وی پی کو اس کے سوا کوئی اور طریقہ معلوم ہی نہیں ہے اور امیت شاہ کی پولس کے آشیرواد نے اسے شتر بے مہار بنادیا ہے ۔ الٹا چور کوتوال کو ڈ انٹے کی مانند اے بی وی پی نے بھی الزام لگادیا کہ بائیں بازو کے طلباء کوکاویری ہاسٹل میں رام نومی پوجا سے روکا گیا اور ہڈیوں کے بکھیر دینے کی دھمکی دی گئی ۔ اس طرح گویا یونیورسٹی کے اندرگوشت خوری کے مقابلے رام نومی کی سیاست کا آغاز ہوگیا ۔

اس کشمکش کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بائیں بازو کی طلباء تنظیمیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں ،انہیں رام نومی کی پوجا پاٹ پر کوئی اعتراض نہیں ہے وہ تو اپنی پسند کی غذا پررکاوٹ کے مخالف ہیں ۔ اس کے برعکس اے بی وی پی والوں کا کہنا ہے کہ انہیں نان ویج سے کوئی پریشانی نہیں ہے بلکہ وہ تو رام نومی منانے سے روکے جا نے کے خلاف ہیں ۔دونوں فریقوں کا دعویٰ اگر درست ہے تو تصادم نہیں بلکہ مفاہمت ہونی چاہیے یعنی لیفٹ ونگ کے طلباء کو رام نومی کے جشن میں شریک ہونا چاہیے اور اے بی وی پی والوں کو ان کے ساتھ گوشت کھانا چاہیے لیکن اس کے برعکس لڑائی ہوگئی توآخر ایسا کیوں ہوا؟ اس کی حقیقت یہ ہے کہ رام نومی کی شام اے بی وی پی نے رام نومی کی پوجا کا اعلان کیا تو اس کے ساتھ نان ویج کی مخالفت بھی کی ۔ مرغی کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالی گئی ۔باورچیوں پر نہ صرف دباو ڈالا گیا بلکہ مار پیٹ بھی کی گئی ۔ آخرمیں کھانے والے نشانہ بنے ۔ یہ زعفرانیوں کا چال، چرتر اور( دوغلا) چہرا ہے ۔

اس معاملے میں دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ نے واضح کردیا کہ جے این یو کیمپس کی میس میں بلا تفریق مذہب و ملت کسی کے کھانے پینے پر کوئی پابندی یا ممانعت نہیں ہے۔ رمضان ہو یا رام نومی ہر کوئی اسے اپنے طریقے سے منا سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ وضاحت بھی کی گئی کہ کسی کے لباس، کھانے اور عقیدے پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ تمام لوگ اپنے اپنے طریقے کے مطابق مذہب کی پیروی کرسکتے ہیں ۔مذکورہ تنازع سے اپنا پلہّ جھاڑتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ نے یہ بھی کہہ دیا کہ میس کا انتظام و انصرام اسٹوڈنٹ کمیٹی کے ذریعہ ہوتا ہے اور مینو وہی طے کرتی ہے۔ وارڈن نے نوٹس جاری کرکے واضح کیا کہ ہر شخص اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرسکتا ہے، اپنے مذہب پر عمل کرسکتا ہے، یونیورسٹی کی جانب سے کوئی ممانعت نہیں ہے۔

رام نومی کے دن مذکورہ یقین دہانیاں زمینی سطح پر بے اثر ہوگئیں کیونکہ جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے مطابق اے بی وی پی کے غنڈوں نے نفرت اور تقسیم کے ایجنڈے کی سیاست کے سبب کاویری ہاسٹل میں پرتشدد ماحول پیدا کر دیا۔ وہ میس کمیٹی کو کھانے کا مینو تبدیل کرنے پر مجبور کر نے لگے اور میس سے وابستہ افراد کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے طلباء پر حملہ کر دیا ۔جے این یو کے مینو میں گوکہ نان ویج اور ویج دونوں قسم کے کھانے ہیں اور طلباء کو اپنی پسند کا کھانا لینے کی چھوٹ ہے لیکن اے بی وی پی کے کارکنوں نے غنڈہ گردی کر کے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ نان ویج کی مخالفت کرنے والے احمق اس حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ جے این یو اور اس کے ہاسٹل میں رہنے والے طلباء کا تعلق نہ صرف مختلف علاقوں بلکہ ملکوں سے ہے۔ ان سب کی تہذیب اور ناو نوش کے اختلاف کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ ویسے طلبہ یونین تفرقہ انگیزی کا مقابلہ کرنے کے لیے پر عزم ہے۔

پچھلے چند ماہ میں دوسری مرتبہ اے بی وی پی نے یہ حرکت کی ہے۔گزشتہ سال ماہِ نومبر کی 15 ؍تاریخ کو بھی لیفٹ تنظیموں آل انڈیا اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن و اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کے ساتھ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے اراکین کی پُرتشدد جھڑپ ہوچکی ہے۔اس میں 12 سے زیادہ طلبا زخمی ہوگئے تھے۔ زخمی طلبا میں سے تین کوایمس میں داخل کرنا پڑا تھا۔ اس ہاتھا پائی کے لیے دونوں فریقوں نےایک دوسرے کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ ڈی سی پی ساوتھ ویسٹ گورو شرما نے طلبہ یونین ہال میں میٹنگ منعقد کرنے کو لے کر طلبا کے دو گروہوں میں جھگڑے کا تو انکار کرنے کے باوجود سخت نوک جھونک کو تسلیم کیا تھا۔ یہی حقیقت ہوتی تو تین لوگوں کو نازک حالت میں ایمس کے اندر داخل کرانے کی نوبت کیوں آتی؟

ماضی کا تصادم میٹنگ میں رخنہ اندازی کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مارپیٹ کا تھا مگر اب اس میں رام نومی کا مذہبی تڑکا لگا یا جارہا ہے۔ اے بی وی پی کوممکن ہے اس سے کیمپس انتخاب میں تھوڑا بہت فائدہ ہوجائےایسا کرنے سے جے این یو کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا ۔ اس میں نہ صرف غیر ملکی طلباءکی آمد رک جائے گی بلکہ ہندوستان بھر سے والدین بھی اپنے بچوں کو یوکرین تو بھیج دیں گے لیکن جے این یو نہیں روانہ کرنے سے ہچکچائیں گے۔ مرکزی حکومت ممکن ہے یہی چاہتی ہو لیکن کیا ایسا کرنے سے ملک اور اس کے باشندوں کا کوئی بھلا ہوگا ؟ اس سوال کا جواب راشٹر بھکتی کا دعویٰ کرنے والی برسرِ اقتدار جماعت کو دینا ہوگا اور یہ بتانا ہوگا کہ اقتدار کی خاطر وہ کس حد تک گریں گےنیز ملک و قوم کو کتنا نقصان پہنچائیں گے؟



 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449642 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.