چین میں اس وقت سالانہ بو آؤ ایشیائی فورم جاری ہے جس میں دنیا بھر سے اہم
شخصیات شریک ہیں۔عالمی صورتحال پر نگاہ دوڑائی جائے تو اس وقت زبردست
تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جنہیں ایک صدی کی ان دیکھی تبدیلیاں قرار دیا
جائے تو بے جا نہ ہو گا۔عالمگیر وبا بدستور پھیل رہی ہے ،جغرافیائی سیاسی
انتشار اب بھی جاری ہے اور مختلف ممالک کی اقتصادی بحالی اور پائیدار ترقی
کو مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے۔ اس تناظر میں، رواں سال کے سالانہ بو آؤ
ایشیائی فورم کا موضوع" وبا اور دنیا: مشترکہ طور پر عالمی ترقی کا فروغ
اور مشترکہ مستقبل کی تعمیر" کے طور پر طے کیا گیا ہے، جو کہ عالمی برادری
کی مشترکہ خواہش کی عکاسی کرتا ہے کہ اس وبا پر جلد سے جلد قابو پایا جائے،
اقتصادی ترقی کو فروغ دیا جائے ، یکجہتی اور تعاون کو برقرار رکھا جائے اور
عالمی گورننس کو بہتر بنایا جائے ۔
اس اہم سرگرمی کے موقع پر چینی صدر شی جن پھنگ نے ایک بڑے ملک کے رہنماء کے
طور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور دنیا کو درپیش بڑے مسائل کے حل کے لیے
اہم تجاویز دیں۔
شی جن پھنگ نے اپنے خطاب میں واضح کر دیا کہ تمام بنی نوع انسان کا ایک ہی
مشترکہ مستقبل کا حامل معاشرہ ہے ۔انسانی تاریخ نے بتایا ہے کہ مشکلات جتنی
ہوں ،اُتنا ہی اعتماد کو مضبوط بناناچاہیئے ، اختلافات ہی انسانی سماج کو
آگے بڑھانے کی ایک قوت ہیں،مختلف ممالک کو مل کر چیلنجز کا مقابلہ کرنا
چاہیئے اور مستقبل کے لیے تعاون کرنا چاہیئے۔یہاں انہوں نے دنیا کی موجودہ
جیو پولیٹیکل صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے پیغام دیا کہ مختلف ممالک ایک ہی
کشتی کے مسافر ہیں اور سردجنگ کے نظریات دنیا کے امن کو نقصان پہنچائیں
گے،بالادستی اور جبر کی سیاست عالمی امن کو تباہ کرے گی اور گروہی
محاذآرائی، سکیورٹی چیلنجز کو مزید سنگین بنائے گی۔
شی جن پھنگ نے دنیا کی مشترکہ سلامتی کے فروغ کی خاطر چین کی جانب سے عالمی
سیکورٹی انیشیٹو بھی پیش کیا جو کہتا ہے کہ ہمیں مشترکہ، جامع، تعاون اور
استحکام پر مبنی سلامتی کے تصور پر قائم رہنا چاہیئے اور مشترکہ طور پر
عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھنا چاہیئے؛ مختلف ممالک کی خودمختاری اور
علاقائی سالمیت کا احترام، دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت
اور مختلف ممالک کے عوام کی ترقیاتی راہ کے آزادانہ انتخاب اور سماجی نظام
کا احترام کرنا چاہیئے؛ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں پر عمل
کرنا چاہیئے، سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کرنا چاہیئے، یکطرفہ پسندی کی مخالفت
کی جانی چاہیے، گروہی سیاست اور "کیمپس کی محاذآرائی" سے باز رہنا چاہیئے،
تمام ممالک کے مناسب سکیورٹی خدشات و تحفظات کواہمیت دینی چاہیئے، سکیورٹی
کے ناقابل تقسیم ہونے کے اصول کو برقرار رکھنا چاہیئے، ایک متوازن، موثر
اور پائیدار سکیورٹی ڈھانچہ بنانا چاہیئے اور دوسرے ممالک کے عدم تحفظ پر
اپنی سلامتی کی بنیاد رکھنے کی مخالفت کرنی چاہیئے؛ بات چیت اور مشاورت کے
ذریعے مختلف ممالک کے درمیان اختلافات اور تنازعات کے پرامن حل پر عمل کرنا
چاہیئے، ان تمام کوششوں کی حمایت کرنی چاہیئے جو بحرانوں کے پرامن حل کے
لیے سازگار ہوں، دوہرے معیار پر عمل نہیں کرنا چاہیئے، یکطرفہ پابندیوں اور
"لمبے ہاتھ کے دائرہ اختیار" کے غلط استعمال کی مخالفت کرنی چاہیئے؛ روایتی
اور غیر روایتی شعبوں میں سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے مجموعی منصوبہ
بندی پر عمل کرنا چاہیئے نیز علاقائی تنازعات اور دہشت گردی، موسمیاتی
تبدیلی، سائبر سکیورٹی، اور بائیو سکیورٹی سمیت عالمی مسائل کو مشترکہ طور
پر حل کرنا چاہیئے۔
شی جن پھنگ نے زور دیا کہ ہمیں جامع مشاورت،تعمیری شراکت اور مشترکہ مفادات
پر مبنی عالمی گورننس کے تصور پر عمل کرنا چاہیئے،انسانیت کی مشترکہ اقدار
کو بروئے کار لانا چاہیئے اور مختلف تہذیبوں کے درمیان تبادلوں کو فروغ
دینا چاہیئے۔حقیقی کثیرالجہتی پر ثابت قدم رہنا چاہیئے ،اقوام متحدہ کی
مرکز یت پر مبنی بین الاقوامی نظام اور قوانین کی بنیاد پر بین الاقوامی
نظم و نسق کا بھرپور تحفظ کیا جانا چاہیئے۔بڑے ممالک کو مساوات ،تعاون ،
دیانت داری اور قانونی انتظام کے لیے رہنما اوربہترین مثال بننا چاہیئے ۔
یہاں انہوں نے ایشیا سے باہر دیگر دنیا کو باور کروایا کہ ایشیائی ممالک کے
عوام امن اور ترقی کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ گزشتہ عشروں میں
ایشیائی ممالک میں مجموعی طور پر استحکام رہا اور اقتصادی ترقی کی رفتار
مسلسل تیز ہو رہی جو ایک "کرشمہ"بن چکا ہے۔انہوں نےاس عزم کا اظہار کیا کہ
ہم ایشیا کو دنیا میں امن و امان،ترقی اور تعاون کا ایک اہم علاقہ بنانے کی
کوشش جاری رکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ آج، ایشیا کی جانب سے شروع کردہ پرامن
بقائے باہمی کے پانچ اصول اور "بندونگ سپرٹ" کی اور بھی زیادہ حقیقی اور
عملی اہمیت ہے۔ ہمیں باہمی احترام، مساوات اور باہمی مفاد اور پرامن بقائے
باہمی کے اصولوں کو برقرار رکھنا چاہیے، اچھی ہمسائیگی اور دوستی کی پالیسی
پر عمل کرنا چاہیے اور اپنی تقدیر کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہیے۔خطے کے
اندر اور باہر تمام ممالک خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے، طاقتور ہوں یا کمزور، ان
سب کو چاہیے کہ وہ افراتفری پیدا کیے بغیر ایشیا کی خوبصورتی میں اضافہ
کریں۔تمام ممالک کو پرامن ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہیے، باہمی استفادے
پر مبنی تعاون کے لیے کوشش کر نی چاہیئے اور ایک متحد اور ترقی پسند
ایشیائی خاندان تشکیل دینا چاہیے۔
ایک بڑی عالمی طاقت کے سربراہ کی حیثیت سے شی جن پھنگ نے بو آؤ ایشیائی
فورم کے موقع پر دنیا کو پیغام بھی دیا کہ چین غیرمتزلزل طور پر پرامن ترقی
کی راہ پر گامزن رہے گا اور ہمیشہ عالمی امن کا معمار، عالمی ترقی میں
معاون اور بین الاقوامی نظام کا محافظ رہے گا۔
|