|
|
مارننگ شوز کا حقیقی آئیڈیا کیا تھا؟ پہلا نشر ہونے والا
مارننگ شو The Today Show تھا، جو پہلی بار NBC پر 1952 میں امریکہ میں نشر
کیا گیا تھا۔ جس کا مقصد ایک انفوٹینمنٹ شو تیار کرنا تھا جو ناظرین کو کچھ
تفریح کے ساتھ ساتھ معلومات اور خبریں بھی فراہم کرے۔ 1964 میں پاکستان
ٹیلی ویژن نے براہ راست نشریات کا آغاز کیا۔ شروع میں پی ٹی وی میں ہفتے
میں چھ دن شام کی نشریات پانچ گھنٹے ہوتی تھی۔ اسے اپنا پہلا مارننگ شو،
صبح بخیر شروع کرنے میں مزید 24 سال لگے۔ مستنصر حسین تارڑ، بچوں کے چاچا
جی، پاکستان کی ٹیلی ویژن کی تاریخ کے پہلے مارننگ شو کے میزبان تھے۔ صبح
بخیر تقریباً سات سال چلا۔ اسکول جانے سے پہلے چاچا جی کی مزاح میں چھپی
دانشمندانہ باتیں اس زمانے کے بچوں کی تربیت کا حصہ تھیں جو اس نسل کے بہت
سے لوگوں کی پسندیدہ یادوں میں سے ایک ہے۔ اگرچہ اس زمانے میں آج جیسا
گلیمر نہیں تھا، لیکن مواد کے لحاظ سے یہ بھرپور ہوتا تھا۔ کارٹونسٹ کی
آسان ڈرائنگ تیکنیک نے پتا نہیں کتنے بچوں کو آرٹ سکھایا۔ |
|
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ارتقاء آتا ہے اسی لئے مارننگ
شوز بھی کمرشلائزڈ ہونا شروع ہو گئے۔آج مارننگ شوز کے معیار سے سب بخوبی
واقف ہیں جو گلیمر سے بھرپور ہے ، جن کی بنیاد پر مارننگ شو کے میزبانوں کو
چنا جاتا ہے۔ مارننگ شو کے میزبان ہونے کا سب سے بڑا معیار ہے کہ وہ بنا
سوچے سمجھے باتیں کرنے والا ہو۔ عقل رکھنے والا کوئی بھی شخص ان سب چیزوں
پر سوال کرے گا جو ان سے مارننگ شو کی میزبانی کے دوران کرنے کو کہا جاتا
ہے۔ مارننگ شو کی میزبان شائستہ لودھی، صنم جنگ، اور یہاں تک کہ نادیہ خان
نے بھی ان شوز کے فارمیٹ کے بارے میں بارہا شکایت کی ہے۔ |
|
ایک مشہور اور ٹاپ مارننگ شو کی میزبان تو اپنے بلنڈرز
کی وجہ سے آئے دن خبروں کی زینت بنی رہتی ہیں انھیں مارننگ شو کی میرا کہا
جائے تو غلط نہ ہو گا۔ انھیں میزبان نے انٹرویو میں کھل کر اعلان کیا کہ 'تعلیمی'
شوز کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ انہیں ریٹنگ نہیں ملتی۔ ۔ وہ یہ جواز
پیش کرتی ہیں کہ ان کے سامعین کا بڑا حصہ گھر میں بیٹھی خواتین پر مشتمل
ہے۔ "ان کے بچوں کے اسکول جانے اور ان کے شوہروں کے دفتر جانے کے بعد،
انہیں صرف تفریح کی ضرورت ہوتی ہے۔" صنم جنگ کہتی ہیں کہ مارننگ شو دیکھنے
والوں کے پاس مہنگے ڈاکٹروں یا بیوٹیشنز کے پاس جانے کے لیے پیسے نہیں
ہوتے۔شوز دیکھ کر، وہ اپنے گھروں کے آرام کو چھوڑے بغیر اور اس کی قیمت ادا
کیے بغیر تجربہ کار ماہرین سے اچھے مشورے حاصل کرتے ہیں۔ |
|
|
|
حیرت کی بات ہے کہ کیا واقعی یہ شوز اس مقصد کے لئے شروع
ہوئے تھے کہ چینلز کی میزبانی برد بار لوگوں کی بجائے ان لوگوں کے ہاتھوں
میں دے دی جائے جنھیں خود گرومنگ کی ضرورت ہے۔ مزے کی بات ہے یہ میزبان
اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے شاید یہ سب ٹی آر پی کا کھیل
ہے تاکہ سوشل میڈیا کو چٹپتا مواد ملے۔ |
|
اس وقت مختلف چینلز پر مارننگ شوز کی دو قسمیں نشر ہو
رہی ہیں۔ ایک انفوٹینمنٹ کے زمرے میں آتا ہے جبکہ دوسرا خالصتاً تفریح۔ جیو
کے نقش قدم پر چلنے والے زیادہ تر تفریحی چینلز نے ان مارننگ شوز کے لیے
خواتین میزبانوں کو شامل کیا۔ ان کا ہدف بنیادی طور پر خواتین ناظرین اور
ریٹائرڈ افراد ہیں۔ صبح کی نشریات کا مقصد تفریحی چینلز پر نشریات کو کم
سنجیدہ اور زیادہ تفریحی رکھنا ہے۔ |
|
آج کل ندا یاسر، شائستہ، فیصل قریشی اور ساحر لودھی اے
آر وائی، پی ٹی وی ہوم، اے آر وائی زندگی اور ٹی وی ون پر مارننگ شوز کی
میزبانی کر رہے ہیں۔ مین اسٹریم نیوز چینلز کے اپنے مارننگ شوز ہوتے ہیں جن
میں عروج عباس ڈان نیوز پر، عمران حسن اور ارملا حسن ایکسپریس نیوز پر اور
سدرہ اقبال آج نیوز پر میزبانی کرتے ہیں۔ ان سب میں کم و بیش ایک جیسی
پروگرامنگ ہے۔ صحت، خوبصورتی، کھانا پکانے اور گپ شپ پر سیگمنٹس ہیں، جن
میں مشہور شخصیات کے انٹرویوز ہوتے ہیں۔ اگر آپ نیوز نیٹ ورکس پر مارننگ
شوز دیکھتے ہیں تو یہ زیادہ تر حالات حاضرہ پر ہوتے ہیں۔ |
|
کووڈ سے پہلے کے اوقات میں، مارننگ شوز سرکس سے مشابہت
رکھتے تھے: شادی کی تقریبات اور فیشن شوز ہوتے تھے جن میں بہت سے شرکاء
شامل ہوتے تھے۔ جو چینل لگاؤ وہاں شادی شدہ سیلیبریٹیز کی دوبارہ شادی بڑے
گلیمر سے بھرپور دکھائی جاتی۔ شکر ہے کوویڈ سیفٹی ایس او پیز کے نفاذ کی
وجہ سے، وہ سرکس ختم ہو گیا۔ اب، مارننگ شوز کچھ کنٹرول میں آئے ہیں،
حالانکہ مواد کے لحاظ سے زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ ناظرین کو بار بار ایک ہی
قسم کا مواد دکھایا جا رہا ہے۔ کیا یہ تخلیقی صلاحیتوں کی کمی ہے یا ریٹنگ
کی دوڑ؟ |
|
|
|
ایک شو کی میزبان نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ اپنی
بیرون ملک کی گئی شاپنگ بڑے فخر سے اپنے ناظرین کو دکھائی۔ عوام کو وہ سب
دکھانے کا کیا مقصد تھا کیا یہ کھلی ریاکاری نہیں یہاں عوام مہنگائی سے
پریشان ہے اور آپ امیر طبقے کی امیریت دکھا کر کیا سکھانا چاہتے ہیں۔۔
شادیاں، فیشن ویکز منانا سراسر وقت کا ضیاع نہیں، کیا پروڈکشن ٹیم کے
خیالات ختم ہو گئے تھے؟ |
|
فیصل قریشی ایک اچھے اداکار ہیں جو کافی عرصے سے اے آر
وائی زندگی پر سلام زندگی کی میزبانی کر رہےہیں۔ ان کے شو میں عام طور پر
اچھا مواد ہوتا ہے اور موضوع دوسروں کے مقابلے کم دہرایا جاتا ہے۔ بہت سارے
اداکار اچھے میزبان ثابت نہیں ہوئے لیکن فیصل قریشی نے اب تک اچھا کام کیا
ہے۔ سدرہ اقبال آج ٹی وی پر آج پاکستان کی میزبانی کر رہی ہیں۔ ان کی
میزبانی کا انداز دلکش ہے اور ان کی زبان کا عبور ان کو دوسرے میزبانوں سے
جدا کرتا ہے۔ |
|
ہونا یہ چاہئے کہ جن، جادو ٹونا، سستے طریقوں سے خوبصورت
ہونا، انتاکشری، دلہن میک اپ، گھریلو جھگڑوں وغیرہ سے نکل کر ایسے ٹاپک
دکھائے جائیں جو عوام کی گرومنگ میں مددگار ثابت ہوں۔ صبح کی نشریات کو ایک
نئے انداز کی ضرورت ہے جو زیادہ تخلیقی ہو۔ آج ناظرین کے پاس ماضی کے
مقابلے میں بہت زیادہ انتخاب ہے۔ مارننگ شوز ہمارے دن کی شروعات کرتے ہیں۔
بہتر ہو گا اگر یہ شوز ہمیں تفریح کے ساتھ ساتھ سیکھنے کے لیے کچھ اچھا
مواد فراہم کر سکیں۔ |