ملک کے کئی شہروں اور علاقوں سے آنے والی خبروں سے امن پسند عوام میں تشویش
پیداہونافطری عمل ہے،شمال سے جنوب تک ایک ایسا ماحول بنایا گیاہے کہ جس سے
واضح ہوتا ہے کہ ایک مخصوص فرقے کو نشانہ بنایاجارہاہے،بلکہ دانستہ طور پر
جاری اس مہم کے ذریعے انہیں دبانے اور کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ ان
کے حوصلے پست ہوں اور وہ اس ملک میں احساس کمتری کا شکار ہوں۔
کرناٹک سے حجاب کے خلاف سرکاری پشت پناہی میں شروع کی گئی مہم حلال،مسلمان
دکانداروں سے خرید وفروخت نہ کرنے کے اعلان کے بعد مساجد سے لاؤڈ اسپیکر
ہٹانے پر پہنچ چکی ہے۔اس درمیان سیاسی بیان بازیوں کادور جاری ہے۔کھڑگون
میں رام نامی جلوس کے دوران تشدد کے بعد چند گھنٹوں میں مدھیہ پردیش کی
شیوراج حکومت نے قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اقلیتی فرقے مکانات اور دکانوں
کو زمین دوز کردیاہے،ایم پی کے وزیر داخلہ کے بیانات اور ان کا متکبرانہ
انداز تاناشاہی کی جھلک پیش کرتاہے۔ان مجبوراور لاچار مسلمانوں کا کوئی
پرسان حال نہیں ہے،جنہیں ماہ رمضان میں بے گھر کردیا گیا ہے۔
کانگریس رکن پارلیمنٹ اور پارٹی کے سابق قومی صدر راہل گاندھی نے بی جے پی
حکومت کو مہنگائی اور بے روزگاری پر بلڈوزر چلانے کی صلاح دی ہے۔ انھوں نے
کہا کہ بی جے پی حکومت کو لوگوں کے مسائل پر بلڈوزر چلانا چاہیے، لیکن بی
جے پی کے بلڈوزر پر نفرت اور دہشت سوار ہے۔ انہوں نے ایم پی کے واقعی پر
کہاکہ رام نومی کے موقع پر عدم تحمل، تشدد اور نفرت کی کارروائیاں کی جا
رہی ہے،
کرناٹک میں حال کے دنوں میں حکومت کی چشم پوشی کی وجہ سے گروہ پرستوں نے سب
سے زیادہ دھینگامستی کی ہے،مسلمانوں کو اس حد تک تنگ کیاگیا کہ سابق
وزیراعلی اور بی جے پی لیڈر یدی یورپاکو بیان دینا پڑا کہ مسلمانوں کو چین
سے رہنے دیا جائے۔یہاں تک کے کر ناٹک کے قانون اور پارلیمانی امور کے وزیر
جے سی مادھو سوامی بھی چپ نہیں رہ سکے کہ گروہوں کو کارروائی کی انتباہ
دیتے ہوۓ ایک دن بعد یہ کہا تھا کہ وہ تمام لوگ جنہوں نے آزادی کے بعد
ہندوستان میں رہنے کا انتخاب کیا ہے ۔ یہ ملک سب کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ
حکومت کو بعض مخصوص گروہوں کی کارروائیوں کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا
سکتا لیکن اگر وہ ایسے گروپس کے خلاف کارروائی کرے گی اگر وہ پریشانی پیدا
کرتے ہیں اور امن میں خلل ڈالتے ہیں۔ آئین نے ہر شہری کو جینے ، کاروبار
کرنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کے حق کی ضمانت دی ہے ۔ اس نے کسی کو بھی
عوامی سطح پر کسی بھی برادری کو بد نام کرنے کا حق نہیں دیا ہے ۔
کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے لیے مہم چلانے کے بعد ، زعفرانی تنظیموں نے
مندروں کے قریب مسلمانوں کی دکانوں پر پابندی ، حلال گوشت کا بائیکاٹ اور
اذان دینے کے لیے مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے خلاف محاذ کھول
دیاہے۔ حال ہی میں مسلمان کاریگروں کے بنائے ہوئے بتوں اور ان کے ذریعے
چلائی جانے والی ٹیکسیوں اور آٹوز کا بائیکاٹ کرنے کی کال بھی دی گئی ہے۔
اتر پردیش،کرناٹک،مدھیہ پردیش اور راجستھان میں فرقہ وارانہ تشدد کے درمیان
مہاراشٹر میں 16 سال سے سیاسی بن باس جیسی حالت میں پڑے مہاراشٹر نو نرمان
سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے نے بھی سیاسی زمین حاصل کرنے کے لیے عوامی
مسائل،مہنگائی اور بے روزگاری کو نظر انداز کرتے ہوئے مساجد سے لاؤڈ اسپیکر
پر ہونے والی اذان کو ٹارگٹ کردیا ۔دراصل راج ٹھاکرے اپنے چچا بال ٹھاکرے
کے نقش قدم۔پر چل رہے ہیں،حالانکہ اپنے چچا کی زندگی میں 16سال قبل انہوں
نے ادھوٹھاکرے کو شیوسینا کی زمہ داری سونپ دینے کے بعد بغاوت کردی اور
مہارشٹرنونرمان کی بنیاد ڈالی ۔ابتدائی دور میں انہیں ممبئی اور تھانے خطہ
میں کچھ کامیابی ملی ،لیکن مراٹھی عوام نے انہیں درکنار کردیا،چند مہینے
میں ممبئی،تھانے سمیت مہاراشٹر کی کئی میونسپلٹیوں کے انتخابات ہونے والے
ہیں ۔بقول شردپوار راج ٹھاکرے کی عادت ہے کہ مہینوں لمبی نیندکے بعد اچانک
سرگرم ہوجاتا ہیں اور متنازع بیان بازی کرکے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش
کرتے ہیں۔اس بار راج نے دانستہ طور پر اذان اور لاؤڈ اسپیکر کو نشانہ بنایا
ہے،کانگریس،شیوسینا اور این سی پی لیڈران کے بیانات آرہے ہیں اور وہ انہیں
سخت سست اور بی جے پی کی کٹھ پتلی کہہ رہے ہیں اور فرقہ پرستی کو اچھالنے
کا الزام عائد کیا رہاہے،لیکن کارروائی کے نام پر ان کے خلاف کوئی کارروائی
نہیں کی گئی اور صرف تھانے کے جلسہ عام میں تلوار لہرانے کے معاملہ میں ان
کے خلاف معاملہ درج کیاگیاہے۔راج ٹھاکرے نے عین ماہ رمضان میں اس تنازع
کوہوا دی اور عملی طور پر کئی علاقوں میں مساجد کے سامنے ہنومان چالیسہ
پڑھا گیا ،ایم این ایس نے اس معاملہ کوگرمانے کے لیے ایک قدم اور اٹھاتے
ہوئے شیوسینا کے صدر دفاتر سینا بھون کے سامنے بھی لاؤڈ اسپیکر سے ہنومان
چالیسہ پڑھ دیا اور پولیس وانتظامیہ تماشائی بنی رہی۔
راج ٹھاکرے کے بیان سے کئی خراب ذہنیت والوں کو حوصلہ مل گیا ہے،اور یہ
محسوس ہو تا ہے کہ ہر کسی کی زبان جیسے کھل گئی ہو اور ہرکوئی لاؤڈ اسپیکر
پراذان کی باتیں کرنے لگا،اس فہرست میں ماضی کی گلوکارہ انورادھاپوڈوال بھی
شامل ہیں۔حالانکہ راج سمیت لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی مخالفت کرنے والے ایسے
علاقوں میں رہائش پذیر ہیں،جہاں دور دور تک کوئی مسجد نہیں ہے۔دراصل راج
ٹھاکرے نے اپنے فرزند کو سیاست میں شامل کرلیا یے،جوپہلے ہی متنازع بیان دے
چکے ہیں اور اب ایک باپ کی ذمہ داری ہے کہ فرزند کے لیے سیاسی زمین ہموار
کی جائے ،کیونکہ 16،سال میں ایم این ایس کو کچھ خاص حاصل نہیں ہوا ہے،جبکہ
عام آدمی پارٹی دہلی کے بعد پنجاب پر قابض ہوچکی ہے،اب راج ٹھاکرے نے یہ
حربہ استعمال کیأ ہے تاکہ مساجد کے لاؤڈ اسپیکرکے نام پر مستقبل میں سیاسی
فائدہ اٹھایا جاسکے،انہیں کتنی کامیابی ملے گی یہ وقت ہی بتائے گا۔
|