معلوم نہیں متحدہ قومی موومنٹ
صوبائی پرستی کو کیوں اتنا فروغ دے رہی ہے ۔کبھی وہ سندھی اجرک اور ٹوپی کا
دن مناتی نظر آتی ہے تو کبھی دریائے سندھ کا دن منایا جا رہا ہے ،بات یہیں
پر ختم ہو تو کافی ہے لیکن کراچی کے دیواروں پر وال چاکنگ (مہاجروں کا صوبہ
بنانے کےلئے) اب تو ان حرکتوں سے باقاعدہ بو آنی شروع ہو گئی ہے کہ پاکستان
کے باقی حصوں میں اس قسم کی حرکتیں نہیں ہو رہیں اور نہ ہی اتنے تند و تیز
بیانات آ رہے ہیں جس طرح ایم کیو ایم کی قیادت گزشتہ کچھ عرصے سے دے رہی ہے
،(اور اس پر اس جماعت کی جانب سے دوسرے کے حق رائے کو تسلیم نہ کرنے کی
بجائے تشدد کا راستہ اپنانا بھی نہایت برا سیاسی فعل تسلیم کیا جا رہا ہے)۔
ویسے تو اس جماعت کے قائد بھارت میں ایک بولی بولتے ہیں اور لندن میں بیٹھ
کر دوسری زبان، اب جبکہ ایم کیو ایم کے ایک بار پھر حکومت میں واپسی کے
امکانات بڑھ گئے ہیں وہاں کراچی کی صورتحال اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ میجر
آپر یشن کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے، اس سلسلے میں رینجرز سمیت کوئی بھی
ادارہ کاروائی کرتا ہے تو ایم کیو ایم اس کی حمائت کرے گی بلکہ الطاف حسین
نے تو خود اپنی ایک حالیہ تقریرمیں فوجی آپریشن کی ضرورت پر زور دیا ہے ،یہ
بھی خدا کی شان ہے کہ 90 ءکی دہائی میں جن کے خلاف آپریشن ہو ا تھا وہ آج
خود اس کے متمنی ہیں ۔ دوسری جانب کراچی میں گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا وہ بھی
سب کے سامنے ہے ،لاشوں پر لاشیں گرتی گئیں اور کوئی اس کو اٹھانے والا نہیں
تھا جن گھروں کا واحد کفیل ہی گولیوں کی نذر ہو جائے وہاں دو وقت کی روٹی
ملنا کتنا مشکل ہو جاتا ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جسے اس قسم کی دکھ
کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ ایسی گھمبیر صورتحال میں الطاف حسین کی جانب سے عوام
کو ایک ماہ کا راشن ذخیرہ کرنے کے بیان نے جلتی پر تیل کا کام دیا ، اس
حوالے سے اگر ہم بدھ کو کراچی سٹاک مارکیٹ کا جائزہ لیں تو اس ایک دن کے
ایس سی ہنڈرڈ انڈکس میں قریباً280 پوائنٹس کی گراوٹ دیکھی گئی جس سے سرمایہ
کاروں کے اربوں روپے ڈوب گئے ۔
الطاف حسین نے عوام کو ایک ماہ کا راشن اکٹھا کرنے کا تو کہہ دیا لیکن کہنے
والے کہتے ہیں کہ یہ ماہانہ بھتہ نہیں کہ جو آسانی سے اکٹھا ہو سکے ۔راشن
اکٹھا کرنے کے لئے مارکیٹ میں راشن ہونے کے ساتھ ساتھ جیب کا بڑا ہونا بھی
ضروری ہے جبکہ کراچی کی اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جو دیہاڑی لگا کر
رات کو تھوڑا بہت کھانے پینے کی چیزیں خریدتے ہیں اور اس دن کا چولہا جلاتے
ہیں ایک ایسی صورتحال میں جب کراچی امن و امان کی خراب صورتحال کے پیش نظر
خبروں میں گرم ہے وہاںلوگ روزگار کی تلاش میں کم اور اپنی زندگی کی حفاظت
زیادہ کرنے لگے ہیں،
ایم کیو ایم نے جہاں دوسرے روز بھی کراچی کی ابترصورتحال پر قومی اسمبلی
میں آواز بلند کی ، وہاں ارکان اسمبلی کی جانب سے اسے ملک کے خلاف سازش
قرار دی جا ری ہے اور فوج سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ آپریشن کرے جبکہ
وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک اب بھی آپریشن کے حق اور مخالفت میں ہیں بہرحال
ان کی جانب سے عوام کو یہ نوید ملی کہ شہر کے بعض علاقوں میں ٹارگٹڈ آپریشن
ہو رہا ہے۔ اس تمام صورتحال میں الطاف حسین کا یہ کہنا کہ وہ سندھ کے بیٹے
ہیں لیکن ایسے بیٹے کا کیا فائدہ کہ جو اپنے گھر کوجلتا دیکھنے کے باوجود
باہر بیٹھا ہو اور بیان دے رہا ہو کہ اگر مہاجروں کو سندھ میں رہتے ہوئے 70
سال ہو گئے ہیں تو مقامی سندھی بھی یہاں پر 200 سال سے زیادہ عرصے سے نہیں
رہ رہے، بین الاقوامی برادری مہاجروں کو پاکستان کا شہری سمجھے اور یہ کہ
کیا بھارت اب 7 کروڑ مہاجروں کو قبول کر لے گا ،بڑے بے وقت قسم کے بیانات
ہیں ۔
الطاف حسین قریباً18 سال سے بیرون ملک میں ہیں پارٹی کے رہنما ان کے اتنے
طویل عرصے تک ملک سے باہر رہنے کی توجہیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں مقدمات
میں پھنسا دیا جائے گا اور وہ مناسب وقت پر پاکستان آئیں گے ،یہ منطق بڑی
نرالی ہے پاکستان کا وزیر داخلہ قریباً ہر مہینے دو مہینے بعد لندن جا کر
ان سے گرفتاری کی نہیں بلکہ مفاہمت اور حکومت میں شریک ہونے کی درخو استیں
کرتا رہتا ہے ایسی صورتحال میں اگر وہ ملک واپس آ بھی جائیں تو ہمارے وز یر
داخلہ کیا انہیں قانون کے شکنجے میں جکڑ لیں گے بالکل نہیں اور مناسب وقت
کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ کون سا وقت ہو گا جب ان اور ان کی جماعت کے لئے
اقتدار کے پھول کھلیں گے یا یہ وقت جب کراچی سمیت ملک بھر مختلف النوع
بحرانوں کا شکا رہے۔ تو اگر آپ کو کراچی عزیز ہے،سندھ عزیز ہے اور پاکستان
عزیز ہے تو وطن واپس آئیں اور اپنی سیاسی بالغ نظری سے جملہ مسائل کو حل
کرنے میں اپنا کردار ادا کریں،سندھ کے بیٹے کو لندن میں بیٹھ کر اس قسم کے
بیانات نہیں دینے چاہیے۔مڈل کلاس کی دعویدار جماعت کے قائد کو شہنشاہ کے
ملک میں اعلٰی شان رہائش رکھنے کا کیا جواز بنتا ہے عوام اس سوال کے جواب
کے بھی منتظر ہیں ۔ |