امریکہ از ریئلی سپر پاور

امریکہ اس دنیا میں اپنی حکمرانی اور سپر پاور تسلیم کرو ا چکا ہے اور وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہر وہ کام کرتا ہے اور کرواتا ہے جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے کئی ممالک کے اندرونی معاملات میں کھلے عام مداخلت کرتا ہے اور اس کی ایک ہی وجہ ان ممالک کا خود کفیل نہ ہونا ہے اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہو نا ہے اور دوسری وجہ ان ممالک کے کرتے دھرتے افراد کے کافی اثاثے اور مال و دولت ان ممالک میں پڑی ہے اس لئے بھی ان کی مخلالفت نہیں کرتے۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ تمام سیاستدانوں، اداروں کے سربراہان کے لئے یہ بنیادی شرط رکھ دی جائے کہ ان کہ بیرون ملک کوئی اثاثے، جائیداد اور مال و دولت نہ ہو۔ تب ہی وہ ملک و قوم کے لئے اور اس کے مفادات کے لئے سوچیں گے ورنہ وہ ان ممالک کے مفادات کے تحفظ کے لئے اور اپنے اثاثے، جائیداد اور مال و دولت کے بچانے کے لئے اپنے ملک وقوم سے کیسے وفاداری کریں گے
موجودہ دور میں دنیا میں واحد سپر پاور امریکہ ہے اور پوری دنیاخاص کر مسلم ممالک کو اس کی یہ حیثیت تسلیم کر لینی چاہئے۔اور اس کے مفادات کے خلاف نہیں جانا چاہئے اور اس کی ہاںمیں ہاں ملا کر اپنی بقاء اور تحفظ کو یقینی بنانا چاہیے کیونکہ جو ملک اس کےیا اس کے مفادات کے خلاف جاتا ہے اس کا حشر بہت بُراہوتاہے اس لئےدنیا کے تمام ممالک کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیئےمیں اپنےملک پاکستان کی مثال پیش کرنا چاہوں گا- زیادہ دور ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں ۔ ذولفقار علی بھٹو اور اس کے انجام کو دیکھ لیں۔ اس نےامریکہ کی غلامی کرنے سے انکار کیا، پاکستان کو ایٹمی ملک بنانے کی بنیاد رکھی،مسلم ممالک کو اکٹھا کرنا چاہا اور ان کا طاقتور اور خود مختیار بنانے کی کوشش کی جس سے امریکہ نے انہیں روکا لیکن وہ نہیں رکے توپاکستان کی سیاسی جماعتوں قومی اداروں نے ملک و قوم کی بقاء اور تحفظ کی خاطر اس کو پھانسی کے تختے پر چڑھاکر دم لیا۔ پھر پرویز مشرف کی مثال لےلیں جب امریکہ نے افغانستان پر حملےکے لئے کہا تو ہماری بہادر افواج کےسربراہ پرویز مشرف صاحب نے فورا ہامی بھر لی کیونکہ امریکہ نے دھمکی دی
کہ اگر ساتھ نہ دیا تو آپ کے ملک کو پتھروں کےزمانے میں پہنچا دیا جائے گااور پرویز مشرف نے دور اندیشی اور حقیقت پسندی کامظاہرہ کرتے ہوئےملک و قوم کی بقاء اور تحفظ کےلئے امریکہ کا ساتھ دیا چاہے اس کاجو بھی نتیجہ نکلا۔ ملک میں دہشت گردی عام ہوئی امریکہ کی بجائے ہمارے زیادہ فوج جوانوں نے اپنی جانیں قربان کیں لیکن ملک تو قائم اور دائم ہے نہ۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو پتہ نہیں امریکہ ہمارے ساتھ کیا کرتا، دنیا کے نقشےپر ہمارا نشان بھی ہوتا یا نہیں اگر ہوتا بھی تو پتہ نہیں اس کے کتنے حصے ہو چکے ہوتے جس طرح اس نے دوسرے ممالک کےساتھ کیا جو اس کے خلاف آواز بلند کرتے تھے اور اس کی سپر پاور حیثیت کو چیلنج کرتے تھے اور اس سے انکار کرتے تھے اس لئے ان کا ہر قدم ملک و قوم کی بقاء اور سلامتی کی خاطر اٹھا یا گیا تھا اور اٹھایا جاتا ہے
اور اب عمران خان نے اپنی اناء اور ضد کی وجہ سے پاکستان کو خود مختار اور آزاد ریاست بنانے کی کوشش کی امریکہ سے برابری کے تعلقات قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی حالانکہ اس کے ساتھ برابری کے تعلقات قائم کرنا دانشمندانہ عمل نہیں بلکہ حاکم اور غلام کے تعلقات قائم کرنا ہی پاکستان کے حق میں ہے تو ایک بار پھر امریکہ نے خبرادر کیا کہ ہمارے مفادات کو پس پشت ڈال کر اپنے ملک و قوم کے مفادات کا تحفظ کرنے کی جرات نہ کرو لیکن خان نہ مانا اور امریکہ نے خبردار کیا کہ اگر عمران کی حکومت نہ گرائی گئی تو ملک پاکستان کو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑےگا۔ اللہ تعالی بھلا کرے ہمارے مخلص۔ محب وطن اور دلیر اپوزیشن کےکے سیاستدانوں کو اور پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کا اور پھر قومی اداروں کاجنھوں نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور یوں ہمارا پیاراوطن پاکستان ایک بہت بڑے خطرے سے بچ نکلا اگر ایسا نہ ہوتا تو پتہ نہیں امریکہ ہمارے ساتھ کیاکرتا۔ اس لئے ملک و قوم کے تحفظ و بقاء کے لئے اپوزیشن، منحرف اراکین اور پیارے وطن پاکستان کے قومی اداروں نے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ضروری سمجھتے ہوئے ا س کے لئے ہر ممکن کوشش کی اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس میں کامیاب ہوئے۔ اس لئے تمام ممالک خاص کر مسلم ممالک اور ان کے سربراہان کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیئے کہ کوئی بھی قدم امریکہ کے مفادات اور مرضی کے خلاف نہ اٹھائیں اور بھٹو کے انجام سے سبق سیکھتےہوئے اپنی ذمہ داریاںسر انجام دینی چاہیئے اگر عمران خان امریکہ سے برابری کے تعلقات کی خواہش نہ کرتا اور اس کی غلامی میں ہی عافیت جانتا تو اس کا یہ حشر نہ ہوتا ابھی تو صرف حکومت ختم ہوئی شایداس کاانجام بھٹو سے بھی بھیانک ہو۔ عمران خان صاحب ہماری قوم کچھ بھی نہیں کر سکتی کچھ دن آپ کے ساتھ رہے گی پھر سب کچھ بھول جائے گی عوام کو آزادی اور خودمختاری سے کوئی مطلب نہیں اور نہ وہ اس سے واقف ہیں انہین صرف دو وقت کی روٹی اور رہنے کے لئے جگہ پہننے کے لئے کپڑا درکار ہے۔ انہیں اپنی ضروریات زندگی کی فکر ہے چاہے وہ آزاد رہ کر ملیں یا غلام رہ کر۔ اس لئے آپ عوام سے بہت زیادہ توقعات نہ رکھیں اور عوام کر بھی کچھ نہیں سکتی۔ جب ملک کے تمام ادارے آپ کے خلاف ہوں تو عوام کیا کر سکتی ہے؟ جب وہ بھٹو جیسے لیڈر کو پھانسی لگنے سے نہ بچا سکی تو آپ کو کون بچائے گا؟ اس لئے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانی چاہیئے اوراپنے ملک و قوم کی بقاء اور سلامتی کے لئے ضروری ہے کہ خودمختاری اور آزادی کو پس پشت ڈال کر امریکہ کے مفادات اور احکامات کےمطابق امور سر انجام دینے چاہیئے ورنہ ملک کی بقاء اور تحفظ کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے اور امریکہ بہت بھیانک انجام کی طرف لےجاتاہے اس لئے ماننا اور کہنا پڑے گا کہ
‘’ امریکہ از ریئلی سپر پاور ‘’۔
kashif imran
About the Author: kashif imran Read More Articles by kashif imran: 122 Articles with 169136 views I live in Piplan District Miawnali... View More