مغرب اور تیسری دنیا کا سائنس و ٹیکنالوجی میں بے جوڑ مقابلہ

حرام خور کا حلال خور کی زندگی کا مقابلہ ہے ہی جوڑ۔چوری, ڈکیتی اور استحصالی دولت کا صدقہ خیرات فلاحی کام کوئی بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ہوتا تو سائنسی ترقی کہاں سے قبول ہوگی؟ استحصالی معیشت کی بنیاد پر قائم سائنس تحقیقات کو فنڈنگ حرام خور کی صفات ہیں۔ اسی باعث کمزور اقوام کو ایمان اور پرہیزگاری اپناتے ہوئے ایسی سائنسی ترقی کیلئے مقابلے بازی سے پرہیز کرنا چاہیے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی مضبوط معیشت، قوت ارادی اور بلند عزائم کے بغیر ناممکن ہے۔ انسانی فطرت میں سہولت کے حصول کی خاطر قوت ارادی اور بلند عزائم خود پیدا ہوجاتے ہیں، جبکہ مضبوط معیشت اس ارادہ اور عزم کا محصول ہوتا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی انسانی سہولت میں اضافہ کرتے چلی جاتی ہے۔مغرب کی پے درپے سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کا راز بھی یہی عناصر ہیں۔ البتہ مغرب کی مضبوط معیشت میں سودی کاروبار و بینکاری ،خام وسائل سے بھرپور علاقوں پر فوجی دھونس و زبردستی، سیاسی غرور و تکبر، نسلی تعصب, خود غرضی, بے حیائی بھی شامل ہے۔ مسلمان ان کی سائنس و ٹیکنالوجی سے مقابلہ کرنے کیلئے ہمہ وقت پریشانی اور اضطراب کا اظہار کرتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کو اس کیلئے اپنی چھوٹی چھوٹی چندی چوریاں اور کرپشن چھوڑ کر بڑے فراڈ کرنے چاہییں تبھی ان کفار و مشرکین سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے نیز اس کیلئے اپنے اوپر سے ظاہر داری کا ہی سہی اسلامی ٹیگ اتار دینا چاہیے۔

لہذا سائنس ٹیکنالوجی میں مغرب سے مقابلہ کرنے کے بجائے دوسری صورت یہ ہے کہ اسلامی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے اور مغرب کے سودی کاروبار اور فوجی دھونس اور غرور و تعصب کے برتے پر قائم علمی و سائنسی و ٹیکنالوجی سے مقابلہ بازی بند کریں اور سماجی علوم پر توجہ مرکوز کریں، نیچرل سائنسز پر حسب استطاعت خرچہ کریں, مذہبی تہذیب اور ثقافت اور فنون لطیفہ کو فروغ دیں۔مضبوط عزائم، بلند ہمت اور دینی تہذیب و اخلاق کے ذریعے دنیا کے عوام کے قلوب فتح کرنے کی کوشش کریں اور خود دشمن کے اندر اپنے ہمنوا اور پشت پناہ پیدا کریں۔ عدل و عدالت، انصاف، مہربانی، رحم دلی، تواضح، محبت، انکساری اور دیگر صفات حسنہ جو کہ دین اسلام نے اپنانے کی نصیحت کی ہے ان کے ذریعے اپنی دنیا کو مسخر کریں اور آخرت تو ہے ہی اس دنیا کی کھیتی، تو وہ بھی خود بخود آباد ہوجائے گی۔سودی کاروبار، رشوت، چوری، غبن دنیاپرستی وغیرہ سے دور رہتے ہوئے معاشی اخلاق اور تہذیب اپنانے سے تیسری دنیا بے سروپا علوم و سائنسز سے مستغنی ہوجائے گی اور اسلامی سماج اپنے بہترین اخلاقی روایات پر فخر کرسکے گا۔ انسانی دنیا کے مسائل پر فوکس رہے گا اور مریخ و پلوٹو پر بے سروپا تحقیقات کچرے کا ڈھیر بن جائیں گی۔

ورنہ وہی پہلا طریقہ اختیار کریں کہ چھوٹی چھوٹی چندی چوریاں، دھوکے، فراڈ، غبن وغیرہ چھوڑ کر بڑے ڈاکے ڈالے جائیں، انسانی اقدار کو فراموش کرکے وسائل سے بھرپور علاقوں پر دست درازی کی جائے، کسی خون اور عزت کی پروا نہ کی جائے غرور و تکبر، خود غرضی, لالچ, تعصب و دہشت گردی، درندگی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ مال جمع کرکے مغربی مقابلے پر سائنس و ٹیکنالوجی اور دہشت گرد سیاسی تکبر میں ترقی کی جائے۔

حرام خور کا حلال خور کی زندگی کا مقابلہ ہے ہی جوڑ۔
چوری, ڈکیتی اور استحصالی دولت کا صدقہ خیرات فلاحی کام کوئی بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ہوتا۔
یاد رکھیں جس دن سامراج کے دجالی چراغ کا تیل یعنی سودی معیشت متزلزل ہوئی اس دن ہر طرح کے بے سروپا فلسفے, جدید سائنسی کلچر اور سائنسی تحقیقات کی نوعیت فطری درجے پر آجائے گی جیسا کہ ہونا چاہیے۔

جس دن سامراج کی معاشی مرغی مرگئی تو سونے کے انڈے دینے والی سامراجی ٹیکنالوجی بھی مرجائے گی۔ سامراجی برائیلر معاشیات جس کی بنیاد ڈائیریکٹ سود یا ان ڈائیرکٹ سود (انفلیشن ٹیکسinflation tax-) پر ہے سامراجی نظاموں کے استحکام، بے سروپا سائنسی تحقیقات اور مالیخولیائی فلسفوں کی پیدائش کا سبب ہے، کیونکہ یہ فریبی معاشی سسٹم ہی ہے خاص طور پر بینکنگ اور کاغذی کرنسی کے ذریعے جو دنیا کی 90٪ آبادی کو معاشی اور پھر سائنسی ترقی سے روک رہا ہے اور دوسری طرف سامراج کو کاغذی یا ڈیجٹل کرنسی سے زیادہ سے زیادہ سرقے کے ذریعہ امیرسے امیر تر بنا رہا ہے اور یہ امیری ہی سبب ہے کہ دنیا کو بھوک افلاس غربت جہالت بیماری میں مبتلا رکھا جائے اور ترقی کے نام پر ٹیکنالوجی اور خلائی مشن سے مرعوب کرکے اصل دنیا کے مسائل سے توجہ ہٹائی جاتی رہے نیز اس معاشی طاقت سے سائنسی تحقیقات انجام دی جاتی رہیں۔ یہ واضح ہے کہ دنیا کی 90٪ آبادی کا سائنس و ٹیکنالوجی کے بزنس میں سوائے صارف کے اور کوئی کردار نہیں۔۔۔۔

فریب و دھوکہ پر مبنی معاشی نظاموں کے علاوہ میڈیا، علوم و فلسفے کے شعبوں میں بھی دھوکہ فریب کے ذریعے دنیا کے انسانوں کو تعلیم کے نام پر جہل مرکب میں مبتلا کیا جاتا ہے، کبھی کسی فلسفے کے نام سے کبھی کسی تھیوری کے نام سے۔۔۔۔ اور دوسری طرف فریبی معاشی نظاموں سے حاصل شدہ دولت سے سائنسی محققین، فلسفیوں کو بھاری رقوم دے کر نت نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی جاتی ہیں اور عوام اس کو ترقی کے نام پر ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے۔ دیدہ و دانستہ فسادوں اور بلووں میں بھی اسی سونے کے انڈے دینے والی فریبی معاشی مرغی کا ہاتھ ہے، جو دنیا کی حکومتوں کو خریدنے یا نافرمان حکومتوں اور اقوام میں فساد کروانے والوں کو بطور رشوت دی جاتی ہیں۔ سامراج کا مذاہب کی مخالفت اور الحادی فلسفوں کے پھیلانے کا ایک بنیادی سبب بھی دنیا کو غلام بنانا ہے۔۔۔۔

یہ ترقی ہے ۔۔۔!! مگر کیسی؟!!
ہاں! بے حسی، بے غیرتی، ذلالت اور کمینگی میں ترقی ہے۔
سامراج کے استحکام کا بنیادی اسباب میں سے ایک تیسری دنیا کے لوگوں کا مشترکات پر آپس میں اتحاد نہ ہونا ہے۔ اس اتحاد کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے تحریک ہے جس میں سامراج کا تختہ الٹ دیا جانا ہے۔

امت کا درد رکھنے والے بعض نا درست ترتیب پیش کرتے ہیں کہ پہلے سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کی جائے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی و سائنس, تعلیم, ابلاغیات میں ترقی, سماجی و عائلی حقوق کا تحفظ و بہتری یہ سب حکومت اسلامی کے outcomes ہیں۔۔۔۔ابھی تو ہم نے کسی نے اعلان رسالت (ذمہ داری اٹھانے کا اعلان) ہی نہیں کیا ہے!!! اس کے بعد مکی مرحلہ پھر مدنی مرحلے کی باری آتی ہے۔۔۔۔یہ مدنی مرحلہ ہے ٹیکنالوجی و فلسفے و معیشت و دفاع کی ترقی کا، مدنی مرحلہ ہے جس میں ظاہری نظاموں کو تشکیل دیا جاتا ہے اور سماجی نظم و ضبط کو قائم کیا جاتا ہے اور معاشرے کا ہر فرد مکی مرحلے میں انجام دی گئی پریکٹسز کا عملی نمونہ مدنی مرحلے میں دیکھتا ہے۔۔۔ مکی مرحلہ انتھائی کٹھن اور دشوار ہوتا ہے اس میں دینی سیاست کی فکری تربیت ہوتی ہے، دین اور دنیا کا نظریاتی، علمی فکری ڈھانچہ مضبوط کیا جاتا ہے تاکہ مدنی مرحلے پر پہنچنے تک وجود کا ڈھانچہ ڈھے نہ جائے۔۔۔۔ لہذا outcomes کو outcomes آنے تک انتظار کریں اور ابتدائی مراحل کی تکمیل کیلئے کوشش کریں۔ مسلمان کیلئے کامیابی کے مراحل اورہیں اور مشرک کیلئے اور۔۔۔۔ مشرک صرف اس وقت فائدہ میں رہتا ہے جب مسلمان کوتاہی کرتا ہے لہذا مسلمان مشرک کی نام نہاد کامیابی سے مرعوب نہ ہو بلکہ خدا نے جو اھداف مسلمان کیلئے معین کیے ہیں ان کی تمنا کرے، اس کے حصول کی نیت کرے اور اس کیلئے عمل کرے۔ جس دن اسلامی حکومت قائم ہوگئی اس دن دنیا سے غیر فطری طبقاتی نظام اختتام پاکر اتنا ہی رہ جائے گا جتنا کسی بھی سماج کی محنت, ہمت تقاضا کرتی ہے۔ سودی کاروبار کے سرپرست سرمایہ دار صنعتکار آرام طلبی, خود غرضی کاہلی کے جس حرام رزق پر پل رہے ہیں پھر اپنی جائز کمائی کھائیں گے۔پھر جو محنت کرے گا اسے اتنا ہی ملے گا جتنا اس کا حق ہوگا۔ انشاءاللہ

پروردگار! ہم جو کچھ بھول جائیں یا ہم سے غلطی ہوجائے اس کا ہم سے مواخذہ نہ کرنا . خدایا ہم پر ویسا بوجھ نہ ڈالنا جیسا پہلے والی امتوں پر ڈالا گیا ہے پروردگار ! ہم پر وہ بار نہ ڈالنا جس کی ہم میں طاقت نہ ہو . ہمیں معاف کردیناً ہمیں بخش دیناً ہم پر رحم کرنا توہمارا مولا اور مالک ہے اب کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما

 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 68 Articles with 57792 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.