#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالدُخان ، اٰیت 51 تا 59
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ان
المتقین فی
مقام امین 51
فی جنٰت و عیون
52 یلبسون من سندس
واستبرق متقٰبلین 53 کذٰلک
وزوجنٰہم بحور عین 54 یدعون
فیہا بکل فاکھة اٰمنین 55 لایذوقون
فیہاالموت الا الموتة الاولٰی ووقٰھم عذاب
الجحیم 56 فضلا من ربک ذٰلک ھوالفوز العظیم
57 فانما یسرنٰه بلسانک لعلھم یتذکرون 58 فارتقب
انھم مرتقبون 59
اے ہمارے رسُول ! زمان و مکان کی ہر ایک تحقیق سے اِس اَمر کی بھی تصدیق ہو
چکی ہے کہ جہنم میں جانے والے مُنحرفینِ قُرآن لوگوں کے برعکس جب مُتبعینِ
قُرآن لوگ ہماری اِس دُنیا کی آخری موت کے بعد ہماری اُس دُنیا کی پہلی
حیات میں داخل ہوں گے تو اُن کے لیۓ ہماری اُس پُر بہار حیات میں سایہ دار
پات و ثمر بار باغات اور سرد آگین اور سرُود آفرین آبی چشمے ہوں گے جہاں پر
اِس طرح اُن کی وہ پہلی مہمان داری ہوگی کہ اُس پہلی حیات کے اُس پہلے
مہمان خانے میں پُہنچ کر وہ ایک دبیز ریشمی پہناوا پہن کر آمنے سامنے آئیں
گے اور آمنے سامنے سجی ہوئی مَسندوں پر بیٹھ کر ایک دُوسرے کے ساتھ اپنا
اپنا تعارف کرائیں گے اور آمنے سامنے کی اُن جنتوں کے اُن اَفراد اور اُن
جماعتوں کے وہ جوڑے ایک دُوسرے کی اُس حیاتِ جنت کا حیران نظروں کے ساتھ
معائنہ بھی کریں گے جس حیاتِ جنت میں اُن کو کھانے کے لیۓ پھلوں کی صورت
میں وہ خوراک دی جاۓ گی جو خوراک اُن کے اُن جنت مکانی جسموں کو پہلے سے
زیادہ پُر ایمان و پُر اَمن بنا دے گی اور اُن لوگوں پر اِس دُنیا میں جو
آخری موت وارد ہو چکی ہوگی اُس موت کے بعد اُن کی اُس پہلی حیات میں اُن پر
کبھی بھی کوئی اور موت وارد نہیں ہو گی اِس لیۓ وہ اِہلِ جنت اِس بات پر
پُھولے نہیں سمائیں گے کہ اللہ نے اُن کو اپنی دوزخ کے ایک دائمی رَنج سے
بچالیا ہے اور اپنی جنت کی دائمی راحتوں کا حق دار بنا دیا ہے اور ہم نے آپ
کو اپنی اُس جنت کے بارے میں قُرآن کا یہ بیان ایک آسان زبان میں سُنا دیا
ہے تاکہ آپ اہلِ ایمان کے اُس جنت میں جانے کا اور ہم اہلِ ایمان کے اُس
جنت میں آنے کا انتظار کریں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
انسان پر اِس دُنیا میں آنے والی آخری موت کے بعد آخرت میں ملنے والی جس
پہلی حیات کا اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں ذکر ہوا ہے اُس مفہوم کی مزید
تفہیم کے لیۓ مَتنِ اٰیات میں آنے والے جن تین الفاظ کی لُغوی توضیح ضروری
ہے اُن میں پہلا لفظ زوج ہے جس کا قُرآنِ کریم نے 77 بار اُن مُختلف صیغ و
ضمائر کے ساتھ ذکر کیا ہے جن مُختلف صیغ و ضمائر میں لفظِ زوج کے وہ سارے
ہی مُرادی مطالب و مفاہیم آجاتے ہیں جو اِس لفظِ زوج سے مُراد ہوتے یا
مُراد ہو سکتے ہیں لیکن زوج کا پہلا لُغوی مفہوم قُدرت کا بنایا ہوا ایساہی
ایک قُدرتی جوڑا ہوتا ہے جیسا زمین کا قُدرتی جوڑا آسمان ، مشرق کا قُدرتی
جوڑا مغرب ، جنُوب کا قُدرتی جوڑا شمال ، بلندی کا قُدرتی جوڑا پستی ،
نیستی کا جوڑا ہستی ، فرد کا قُدرتی جوڑا جماعت ، مرد کا قُدرتی جوڑا عورت
اور عورت کا قُدرتی جوڑا ایک مرد ہوتا ہے لیکن اہلِ روایت چونکہ ہر ایک جگہ
پر زوج کا معنٰی مرد و زن کا عقدِ نکاح کرتے ہیں اِس لیۓ اٰیاتِ بالا میں
بھی اُنہوں نے اِس لفظِ زوج کا معنٰی جنت میں جانے والے مردوں کا جنت میں
رہنے والی بڑی بڑی آنکھوں والی اُن عورتوں کے ساتھ عقدِ نکاح ہی کیا ہے جن
عورتوں کو وہ اپنی اُن خانہ ساز روایات کے مطابق حُور کہتے ہیں لیکن اِن
اہلِ روایت نے اٰیاتِ بالا میں لفظِ زوج کا یہ معنٰی مُتعین کرتے وقت اِس
حقیقت کو یَکسر نظر انداز کردیا ہے کہ قُرآنِ کریم میں جہاں بھی نوعِ
انسانی کے اَفراد کے طور پر مردوں کو جنت میں ملنے والے کسی خُدائی انعام
کا ذکر کرتا ہے تو اِس ذکر میں انسانی نوع کے فردِ ثانی کے طور پر عورتیں
بھی شاملِ ذکر اور شاملِ انعام ہوتی ہیں اِس لیۓ اگر قُرآنِ کریم کے اِس
قانونی ضابطے کی موجودگی میں اگر اہلِ روایت کا یہ روایتی مفہوم درست مان
لیا جاۓ تو اُن کا یہ روایتی مفہوم عقلی و مَنطقی طور پر اِس اَمر کا بھی
متقاضی ہو گا کہ اگر دُنیا سے جنت میں جانے والے مردوں کا نکاح جنت میں
رہنے والی حوروں کے ساتھ ہوگا تو دُنیا سے جنت میں جانے والی عورتوں کا
نکاح بھی جنت میں رہنے والے اُن مردوں کے ساتھ ہو گا جن مردوں کو اہلِ
روایت غلمان کہتے ہیں لیکن یہ بات غالباً اہلِ روایت کے نزدیک بھی غلط ہی
متصور ہوگی کیونکہ اِس بات کو درست ماننے کا قُدرتی طور پر مطلب یہی ایک
لایعنی مطلب ہوگا کہ جنت کا تو شاید مقصد ہی مرد و زن کی شہوت رانی کو فروغ
کے لیۓ اِس دُنیا اور اُس عُقبٰی کے مرد و زن کے درمیان مرد و زن کا ایک
جنسی و جسمانی تبادلہ کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ ایسا احمقانہ مفہوم ہے جو
قُرآن کے اِس دینِ فطرت کے اجتماعی تصور ہی کے خلاف ہے ، اٰیاتِ بالا میں
آنے والا دُوسرا وضاحت طلب لفظ اسمِ جمع حُور ہے جس کا اسمِ واحد مذکر
اَحور اور اسمِ واحد مؤنث حوراء ہے اور اِن سارے اسماء کے سارے مُشتقات کا
معنٰی کسی شئی کا صاف اور شفاف ہونا ہے ، قُرآنِ کریم نے ابنِ مریم کے
اعوان و انصار کا حواری کے طور پر جو ذکر کیا ہے وہ ذکر بھی اِس حوالے کے
لیۓ کیا ہے کہ وہ پیشے کے اعتبار سے کپڑے دھونے والے وہ دھوبی تھے جو اپنی
محنت و مشقت سے کپڑوں کو دھو دھو کر صاف اور شفاف بنا دیا کرتے تھے تاہم
قُرآنِ کریم نے ابنِ مریم کے اُن حواریوں کو ابنِ مریم کے اعوان و انصار
ہونے کے حوالے سے اَنصار بھی کہا ہے جو پہلے مفہوم کی ضد نہیں ہے بلکہ اُن
کی پہلی صلاحیت پر اُن کی ایک دُوسری صلاحیت کا ایک اضافی حوالہ ہے ،
اٰیاتِ بالا کا تیسرا وضاحت طلب لفظ اسمِ جمع عیُون ہے جس کا اسمِ واحد عین
اور معنٰی پانی کا چشمہ ہے اور اہلِ عرب آنکھ کو بھی آنکھ کی اسی پُر آبی
کی بنا پر عین کہتے ہیں اور اٰیاتِ بالا میں بھی عیون سے مُراد وہی شفاف
آبی چشمے ہیں جن شفاف آبی چشموں سے اہلِ جنت کو پینے کے لیۓ شفاف پانی دیا
جاۓ گا اور اِس اَمر کی دلیل یہ ہے کہ قُرآنِ کریم نے اہلِ جنت کو پینے
کےلیۓ دیۓ جانے والے اِس ٹھنڈے پانی کا اہلِ جہنم کو پینے کے لیۓ دیۓ جانے
والے اُس کھولتے ہوۓ پانی کے مقابلے میں ذکر کیا ہے جس کھولتے ہوۓ پانی کا
اِس سُورت کی اٰیت 45 میں ذکر ہوا ہے اِس لیۓ اٰیاتِ بالا میں وارد ہونے
والے لفظِ عیُون سے مُراد اہلِ جنت کو ملنے والے ٹھنڈے پانی کے ٹھنڈے میٹھے
شفاف چشمے ہی ہیں ، بڑی بڑی آنکھوں والی وہ روایتی حوریں مُراد نہیں ہیں جو
اِن روایت پرستوں کے جنسی اَوہام نے اِن کے ذہن میں تیار کی ہوئی ہیں ،
مقصدیت و معنویت کے اعتبار سے زمین پر آخری موت کے بعد جنت میں جانے والی
اِس انسانی جماعت کے ہر فرد کی ذات ہمارے جسموں میں چُھپ کر رہنے والے اُس
انسان کی ماوراۓ خیال ہستی میں ڈھل جاتی ہے جس انسان کو ہم مَیں اور تُو یا
ہم اور تُم اور یا پھر یہ اور وہ کے طور پر جانتے اور بلاتے ہیں ، ہمارے
جسم اور ہماری جان میں رہ کر آزاد رہنے والا یہ انسان جب اپنے اِس خاکی
وجود سے نکل جاتا ہے تو اِس کے زمینی جسم کو اِس کی زمینی رُوح کی ، اِس کی
زمینی رُوح کو اِس کے زمینی جسم کی حاجت ہوتی ہے اور نہ ہی اِس کی رُوح و
جسم کو اہلِ زمین کی طرح سانس لینے کی کوئی طلب ہوتی ہے ، نہ ہی اِس کی ذات
کو دھُوپ اور چھاؤں کی کوئی ضروت ہوتی ہے اور نہ ہی اِس کی ہستی پر زمین کے
بدلتے ہوۓ موسموں کے تغیر و تبدل سے کوئی فرق پڑتا ہے کیونکہ زمینی موت سے
پہلی حیات میں اِس کی جو روزی اِس کی جان کے کماۓ ہوۓ مال سے جڑی ہوئی ہوتی
ہے زمینی موت کے بعد اِس کی وہی روزی اِس کی خواہش و خیال سے جوڑ دی جاتی
ہے اِس لیۓ جنت میں جاتے ہی اِس تربیت یافتہ ہستی کے دل میں جس چیز کا جو
خیال آتا ہے اُس چیز کا وہ خیال ہی اُس جنت میں ایک عملی حقیقت بن کر اُس
کے سامنے آجاتا ہے ، انسان کے اسی خیال و کمال کا نام وہ جنت ہے جس کی
نعمتوں کا قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا کے علاوہ بھی دُوسری بہت سی اٰیات
میں ذکر کیا ہے !!
|