پاکستان کی 74 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے قیام
پاکستان کے وقت سے ہی سازشیں شروع کررکھی ہیں اور وہ ہمیں نقصان پہنچانے کا
کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور ہمارے ازلی دشمن نے ایک سازش کے تحت
بلوچستان میں شورش برپا کر رکھی ہے ۔ جس کا واضح ثبوت بھارتی وزیر اعظم
نریندر مودی کی چھوڑی گئی درفنطنی تھی کہ ’’بلوچستان اور پاکستان کے
زیرِانتظام کشمیر (آزاد کشمیر) اور گلگت کے عوام نے اپنے لئے آواز اٹھانے
پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے‘‘۔ نریندر مودی کی اس ہرزہ سرائی سے پاکستان کی
سالمیت کیخلاف اس کے جنونی عزائم اجاگر ہونے میں اب کوئی کسر باقی نہیں رہ
گئی۔ بلوچستان اور کراچی کو غیر مستحکم کرنا بھارت کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔
مودی کی طرف سے یہ بیان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت بلوچستان کے حالات
خراب کرنے کا ذمہ دار ہے۔ پاکستان ایک عرصہ سے دنیا کو یہ بتا رہا ہے کہ
بھارت بلوچستان میں گڑ بڑ میں ملوث ہے ۔ جبکہ اگرچہ قدرتی وسائل سے مالا
مال یہ صوبہ معیشت کی شہ رگ بن سکتا ہے۔ لیکن غیر ملکی عناصر بالخصوص ’ را‘
کی دہشت گردانہ سرگرمیوں نے صوبے کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائے ۔اس امر
میں کوئی شبہ نہیں کہ دہشت گردی کا وہ وائرس جو نائن الیون کی وجہ سے قومی
سیاست ،معیشت اور سیاست و خارجہ پالیسی کی رگوں کو زہر آب کرگیا اس نے
بلوچستان کو بھی سخت مصائب سے دوچار کیا۔ بلوچستان بلاشبہ اپنے معدنی وسائل
اور جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے عالمی قوتوں کی ریشہ دوانیوں اور
حریصانہ نگاہوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ جدوجہد آزادی میں بلوچستان کا کردار
پاکستان کے کسی بھی دوسرے خطے سے کم نہیں ہے۔ حصولِ پاکستان کیلئے بلوچستان
کے مشاہیر کی خدمات نے تاریخ پر انمٹ نقوش ثبت کئے۔ تقسیم ہند کے وقت
قلات‘لسبیلہ اور مکران کے حکمرانوں نے انگریز حکومت کی طرف سے آزاد رہنے کی
پیش کش کو اپنے پاؤں کی ٹھوکر مار دی اور قائداعظم کی آواز پر لبیک کہتے
ہوئے پاکستان سے الحاق کرلیا۔ قائداعظم جب خان آف قلات سے ملنے گئے تو خان
معظم نے انہیں سونے میں اور مادرِ ملت کو چاندی میں تولا اور اپنی ریاست کے
وسائل اور فوج کو قائداعظم کے استعمال میں دینے کی پیش کش کی۔خان معظم
میراحمد یار خان‘ خان آف قلات کو قائداعظم اور پاکستان سے اتنا لگاؤ تھا کہ
اْنہوں نے قائداعظم سے کہا کہ’’ اگر خدانخواستہ پاکستان نہ بن پایا تو آپ
بے شک قلات کا نام پاکستان رکھ دیجئے گا‘‘۔ اگرچہ بلوچستان میں مختلف ادوار
میں مختلف تحریکیں چلتی رہی ہیں تاہم پاکستان سے محبت اور عقیدت رکھنے والے
لوگ ہمیشہ سر بلند رہے ہیں اور انشاء اﷲ آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔بلوچستان
جغرافیائی لحاظ سے چونکہ انتہائی اہم نوعیت کا حامل ہے لہٰذا امریکی سی آئی
اے، را اور موساد کا مشترکہ پلان طویل عرصہ سے اس علاقے کو ٹارگٹ کئے ہوئے
ہے۔ افغانستان کے زریعے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا سر گرم عمل منظم نیٹ
ورک صوبے میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث عناصر کو بھاری اسلحہ اور سرمایہ
کی فراہمی کے علاوہ بلوچستان کے علیحدگی پسند بلوچ نوجوانوں کو تربیت بھی
دیتا رہا ہے جوملک کی سلامتی کے لئے خطرے کا باعث ہیں۔ دراصل بلوچستان میں
علیحدگی کی آگ باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے تحت قیام پاکستان کے وقت سے ہی
سلگائی جا رہی ہے ۔ بلوچستان میں دہشت گرد کاروائیوں اور مداخلت کے تانے
بانے بھارت ، افغانستان سے ہوتے ہوئے امریکا اور اسرائیل تک ملتے ہیں ۔مودی
کے آنے کے بعد پاکستان کے خلاف بھارت کی مذموم کاروائیاں بڑھ چکی ہیں۔
بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے جو ملک دشمن سامراج کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے وجہ
صاف ظاہر ہے کہ سی پیک منصوبہ کی تکمیل اورگوادر کی ترقی یہود و نصاریٰ اور
ہندو بنیوں کو ایک نظر نہیں بھاتی اگر پاکستان چین کی لازوال دیرینہ دوستی
اور احسن تعلقات سے سی پیک منصوبہ کو مکمل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو
بڑے سامراج کی تو اس علاقہ سے مستقل چھٹی ہوجائے گی اور اس کابھارت کو
علاقائی تھانیدار بنانے کا خواب بھی شرمندہ تکمیل نہ ہوسکے گا۔بھارتی راء
اربوں روپے بلوچستان میں ملک دشمن عناصر پر خرچ کر رہی ہے اور اس کی طرف سے
فرقہ واریت و لسانیت پھیلانے کامذموم کام بھی زور شور سے جاری ہے آئے دن ہم
امام بارگاہوں ،مساجداور گرجا گھروں پر خود کش حملوں اور دھماکوں کی دلسوز
خبریں سنتے رہتے ہیں۔ افسوس سیاسی اشرافیہ اس کی تعمیر و ترقی کیلئے باتیں
تو بہت کرتی ہے لیکن عملی کاموں پر کسی حکومت نے اس پر اتنی توجہ نہیں دی
جتنی دینی چاہیے تھی۔ ایسے میں یہ پاک فوج ہی ہے جس نے نہ صرف یہاں بیرونی
قوتوں کے ایما پر ہونے والی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی بیخ کنی کی۔ بے
شک پاک فوج اور ایف سی صوبے میں امن و امان کے قیام اور استحکا م اور سی
پیک سمیت تعلیم و صحت دیگر ترقیاتی ترقی کے منصوبوں کی تکمیل اور انکی
حفاظت کیلئے کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ اس حوالے سے آرمی چیف جنرل قمر
جاوید باجوہ نے بالکل درست کہا کہ بلوچستان میں امن اور ترقی پاک فوج کی
اولین ترجیح ہے‘‘۔ بلاشبہ افواج پاکستان جہاں اندرونی وبیرونی سلامتی کو ہر
قیمت پر یقینی بنانے کے عزم کے ساتھ گامز ن ہیں اور دشوار راستوں اور کٹھن
حالات میں نہ صرف اپنے معمول کے فرائض انجام دے رہے ہیں بلکہ وہاں ترقیاتی
پروگراموں میں بھی پیش پیش ہیں۔ سڑکوں کا لامحدود جال بچھایا جا چکا ہے،
دوردراز علاقوں میں طبی سہولیات مہیا کی جارہی ہیں، سکولوں اور کالجوں کی
اپ گریڈیشن کیساتھ ساتھ پاک فوج کے بہت سے تعلیمی اداروں کا جال بچھاکر
وہاں کے طلبہ و طالبات کو ہر سہولت بہم پہنچائی جارہی ہے۔ فنی علوم پر خاص
توجہ دی جارہی ہے۔ اب تو بہت سے نوجوان اپنی تعلیم پوری کرکے صوبے اور ملک
کی ترقی میں براہ راست اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ سب سے اہم پیش رفت صوبے کے
نوجوانوں کی پاک فوج میں شمولیت ہے۔ پاک فوج کے بھرتی پروگرام نے خاص طور
پر بلو چستان کے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہوا ہے۔ کوئٹہ ، ژوب،
خضدار، سبی، سوئی، اور کشمور و دیگر اضلاع کے بہت سے نوجوان کامیابی سے
تربیتی امو ر مکمل کر کے پاک فوج میں شامل ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ
موجودہ سیاسی وعسکری قیادت بلوچستان کے مسائل حل کرنے کیلئے پرعزم ہے۔
پاکستان کا دفاع مضبوط اور خوشحال بلوچستان میں ہے، صوبے کی سماجی اورمعاشی
ترقی میں پاک فوج صوبائی حکومت کی معاونت کر رہی ہے۔چناچہ یہ خوش آئند ہے
کہ پاک فوج صوبے کے امن، استحکام اور خوشحالی کیلئے جس تیزی سے کام کر رہی
ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے توقع کی جا سکتی ہے کہ بلوچستان کی محرومیاں دور
ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پاکستان
نے دہشت گردی کے خلاف اقدامات جس میں’’ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی
پی)،عسکریت پسند گروپ،داعش اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے خلاف
انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں بھی شامل ہیں ‘‘ کسی بھی دوسرے ملک کی
امداد و اعانت کے بغیر کئے ہیں ۔ دہشت گردانہ کارروائیوں،انتہاء پسندی کی
روک تھام اور خطے میں قیام امن کیلئے مؤثر اقدامات کرنے کیلئے بلاشبہ حکومت
،پاک فوج اور سکیورٹی فورسز نے جو مربوط کوششیں کیں وہ یقیناًقابل تحسین
ہیں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان کی جانی و مالی
قربانیوں کا محض ’’زبانی جمع بندی ‘‘سے ہی نہیں بلکہ ایف اے ٹی ایف کی گرے
لسٹ سے اس کا نام نکلوا کر اعتراف کرنے کا عملی ثبوت دیں یہاں اقوام متحدہ
کو بھی چاہئے کہ بھارت اور داعش کے گٹھ جوڑ کا فوری نوٹس لے تاکہ خطے میں
قیام امن کے دی جانے والی قربانیوں کو زائل ہونے سے بچایا جا سکے۔
|