جماعت اسلامی سود اور سعودی معیشت کے خاتمے کے لیے
حکومتوں پر ہمیشہ سے عوامی دبائے ڈالتی رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ عدالتوں میں
بھی یہ جنگ جاری رکھی۔ اﷲ کا شکر ہے کہ بلا آخر وفاقی شرعی عدالت نے سود کے
خلاف تفصیل سے دلائل سن کر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ جماعت اسلامی کے نائب
امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی یہ بھی درخواست منظور کی کہ27 رمضان کو
پاکستان بنا تھا اور پاکستان میں سود کے خاتمہ کا متوقع فیصلہ بھی 27 رمضان
کو ہی سنایا جائے جسے عدالت نے منظور کر لیا۔
ہم جانتے ہیں کہ پاکستان اﷲ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ تحریک پاکستان کے
دوران یہ نعرہ کہ پاکستان کا مطلب کیا ’’لا الہ الا اﷲ‘‘۔اسی نعرے کی وجہ
سے اﷲ تعالیٰ نے ہمیں پاکستان جو مثل مدینہ ریاست ہے تحفہ کے طور پر دی
تھی۔چاہیے تھا کہ پاکستان میں اﷲ کا نظام ہی نافذ ہونا تھا۔ اﷲ کے نظام میں
سب سے پہلا کام سود کا خاتمہ کرنا تھا۔ کیونکہ یہ اﷲ کے خلاف اعلانیہ جنگ
ہے۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے1948ء میں اسٹیٹ بنک کے افتتاح
کے موقعہ پر فرمایا تھا ’’ مغرب کے اقتصادی نظام نے انسانیت کو ناقابل
تلافی نقصان پہنچایا ہے۔کوئی معجزہ ہی اس اقتصادی نظام کو مکمل تباہی سے
بچا سکتا ہے۔میں اسٹیٹ بنک کے ماہرین معیشت اور ریسرچ اسکالر کے ذمہ لگا
رہا ہوں کہ وہ اسلامی معاشی نظام اور سود سے پاک معیشت اور بینکنگ کے لیے
کام کریں اس اس کی میں خود نگرانی کرونگا‘‘ اس کے علاوہ قرارداد مقاصد،31
علماء کرام کے22نکات ،1956ء اور1962 ء کا آئین، اسلامی مشاورتی کونسل کی
رپورٹ مجریہ1969ء میں سود کے خاتمے کو یقینی بنانے،1973 ء کے آئین میں
آرٹیکل 38؍ اے کے ذریعے سود کے مکمل خاتمہ کے سلسلہ میں ریاست کو جلد از
جلد ختم کرنے کا پابند بنایا گیا‘‘ کہ جتنی جلدی یعنی1980 ء تک سود کی ہر
شکل کو ختم کرنا تھا۔ مگر50 سال گزر گئے یہ کام نہ ہوا۔1990 ء میں وفاقی
شرعی عدالت میں جماعت اسلامی، بعض شہریوں اور دیگر جماعتوں نے یکم
دسمبر1990ء کو 23 سودی قوانین کے خلاف باقاعدہ پیٹیشن دائر کی گئی۔23 سودی
قوانین کے خلاف باقاعدہ سماعت شروع ہوئی۔ جماعت اسلامی کی طرف سے سید اسد
گیلانی،مولانا گوہر رحمان پیش ہوئے۔40 کے قریب وکلاء سودی معیشت کے خلاف
پیش ہوئے۔ اسٹیٹ بنک کے حسن صدیقی، الائیڈ بنک کے صدرخادم حسین ڈاکٹر محمد
عذیر سود کے خلاف دلائل دیے۔14؍ نومبر1991ء میں چیف جسٹس تنزیل الرحمان نے
سود کی ہر شکل کو خلاف شریعت قرار دیتے ہوئے سودی معیشت کو حرام قرار دیا
اور 23 سودی قوانین کو کالعدم قرار دے دیا اور حکومت کو متبادل قانون سازی
کے لیے6 ماہ کا وقت دیا۔ یہ بھی حکم دیا اگر حکومت نے مقررہ مدت تک یہ کام
نہ کیا تو سودی قوانین یکم جولائی1991 ء کو خود بخود کالعدم ہو جائیں گے۔
نواز شریف نے شرعی عدالت کے سود کے خاتمے کے فیصلہ کو سپریم کورٹ کی شریعت
اپیلٹ بنچ میں چلینج کر دیا۔ سپریم کورٹ سے حکم امتناعی ملنے پر سود کو ختم
کرنے کی بجائے نئی سودی اسکیمیں شروع کر دیں۔ اس میں ڈکٹیٹر مشرف بھی شامل
ہے۔ پھرجماعت اسلامی کی توجہ دلانے مارچ1999 ء سے باقاعدہ سماعت شروع ہوئی۔
بینچ کے چیف جسٹس خلیل الرحمان، جسٹس وجیہ الدین احمد، جسٹس منیر اے شیخ،
اور جسٹس ڈاکٹر معمود احمد غازی جیسے خدا کا خوف رکھنے والوں ججوں پر مشمل
تھا۔ اس بینچ کے سامنے پروفیسر خورشید احمد، مولانا گوہر رحمان ، محمد
اسماعیل قریشی، ڈاکٹر وقار مسعود، ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا اورحافظ
عبدالرحمان مدنی وغیرہ جیسے ماہر معیشت اور فاضلان علوم شریعہ پیش ہوئے۔
5ماہ کی تفصیلی سماعت کے بعد 23 دسمبر1999 ء کو1100 ؍ صفحات پر مشتمل
تفصیلی فیصلہ میں شرعی عدالت کے فیصلہ کو برقرار رکھا۔ کہا کہ حکومت نے
متبادل قانون سازی نہ کی تو31؍ مارچ2001 ۱ء کو یہ قوانین خود بخود ختم ہو
جائیں گے۔ ڈکٹیٹر پرویزمشرف نے بھی اس فیصلہ کو قبول نہیں کیا۔ مشرف حکومت
پھر اپیل میں چلی گئی۔ اس وقت عدالت میں لبرل جج تھے۔ جماعت اسلامی کے طرف
سے شیخ خضر حیات، جسٹس سید معروف شاہ شیرازی اور اسماعیل قریشی پیش ہوئے۔
اس لبرل بینچ نے2002 ۲ء میں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ1991 ء اور سپریم
کورٹ اپیلٹ بنچ کا فیصلہ دسمبر1999 ء کو کالعدم قرار دیاتے ہوئے ایک دفعہ
پھر کیس ریمانڈ کر کے وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دیا۔ اس سے زیادہ اﷲ اور
رسولؐ کے ساتھ جنگ کا مقابلہ کرنے کا اور کیا معاملہ ہو سکتا ہے۔ کیس شٹل
کاک کی طرح ایک عدالت سے دوسرے عدالت کی طرف بھیجا جاتا رہا۔2013 ء میں
جماعت اسلامی ،تنظیم اسلامی اور بعض انفرادی درخواستوں پر اس کیس کی پھر
سماعت ہوئی۔موجودہ چیف جسٹس محمد نور مسکان زئی، ڈاکٹر محمد انور شاہ نے
کیس کی سپریم سماعت کی۔اس دوران اٹارنی جنرل انور منصور نے وفاقی عدالت
شرعی عدالت کے دائرہ سماعت پر حکومت کا موقف پیش کیا کہ عدالت کیس سن سکتی
ہے۔ مگرعمران خان حکومت نے انور منصور کو تبدیل کر دیا اور ان کی جگہ خالد
جاوید کو لگا دیا۔ اس نے عدالت میں بیان دیا کہ عدالت کیس نہیں سن سکتی۔اس
پر عدالت نے کہا کہ حکومت کا موقف پہلے سے آ چکا ہے اور عدالت کے ریکارڈ
میں موجود ہے۔ جماعت اسلامی کے وکیل قیصر امام کی بہترین تیاری کے ساتھ
عدالت میں پیش ہوئے۔امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق بھی عدالتی
کاروائی میں شریک ہوئے۔ 12؍اپریل 2022ء کو عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا
جو27 رمضان کو سنایا جائے گا۔
پنجاب اسمبلی میں سید احسان اﷲ وقاص اور حمیرا اویس شاہد کی کاوش سے
انفرادی سود پر پابندی کے سخت قوانین منظور ہوئے۔ خیبر پختونخواہ اسمبلی
میں بھی جماعت اسلامی کے مرد و خواتین اراکین نے باقاعدہ قانون منظور
کروایا۔ سینیٹ میں سراج الحق کا پیش کردہ پرائییویٹ ممبر بل پاس ہوا۔ قومی
اسمبلی میں جماعت اسلامی کے ممبر مولانا عبدالاکبر چترالی کاپیش کر دہ بل
سٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس ان کاوشوں کو قبول کرے۔
صاحبو! سود کے خاتمے کے خلاف شرعی عدالت کے فیصلہ کو نہ ماننے والے حکمران،
جس میں نواز شریف، ڈکٹیٹر پرویز مشرف اور آخر میں عمران خان بھی شامل ہیں
مکافات عمل کے تحت حق حکمرانی سے ہٹا دیے گئے ۔اقتدار کے نشے میں دھت ان
حکمرانوں کا دھیان اﷲ تعالیٰ کے مکافات عمل کی طرف نہیں جاتا۔ اب پھر
مرکزمیں نواز شریف کی حکومت قائم ہو گئی ہے۔ ان شاء اﷲ شرعی عدالت کا سود
اور سودی معیشت کے خاتمہ کا متوقع فیصلے آئے گا۔ اگر اس بار پھر اس فیصلے
کی خلاف وردی کی اور حکمرانوں نے اﷲ کے خلاف جنگ میں پھر شریک ہوئے تو پھر
مکافات عمل کاکوڑا بھی زیادہ سخت ہو گا۔
مسلمانوں سود سے نجات میں قوم کی حیات ہے سود اور سودی معیشت ،کرپشن اور بے
حیائی کے خلاف جماعت اسلامی ہمیشہ عوامی اور عدالتی محاذ پر سرگرم رہتی ہے
۔جماعت اسلامی کے امیر(مرحوم) قاضی محمد حسین احمدؒ نے بے حیائی کے خلاف
عدالت میں پیٹیشن داہر کی۔ سراج الحق نے آف شور کمپنیوں کے ۴۲۳ لوگوں کے
خلاف پیٹیشن داہر کی۔ کہا تھا کہ صرف ایک فرد یعنی نواز شریف ہی نہیں سب کو
قانون کے کہٹرے میں لایا جائے۔ سراج الحق نے سود کے خلاف جماعت اسلامی کی
پیٹیشن کی پیروی کی۔ اﷲ تعالیٰ جماعت اسلامی کی ان کاوشوں کو قبول
فرمائے۔آمین۔
|