پی ڈی ایم کی پونے چار سالہ طویل سیاسی جدوجہد کے نتیجہ
میں تحریک انصاف کی حکومت بالآخر رواں ماہ اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔
عمران خان حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کے خلاف تمام ممکنہ حربے استعمال کئے
انکے قائدین کو پابند سلاسل کئے رکھا۔ انکے خلاف ہر فورم پر کرپشن راگ
الاپے گئے مگر عمران خان حکومت عدالتوں میں اپوزیشن قائدین پر ایک روپے کی
کرپشن بھی ثابت نہ کرواسکی۔پی ٹی آئی حکومت نے معیشت کنٹرول کرنے کی بجائے
زیادہ زور اپوزیشن کنٹرول کرنے میں لگایا۔ تمام تر ریاستی جبروستم کے
باوجود عمران خان حکومت اپوزیشن جماعتوں خصوصا پاکستان مسلم لیگ ن کو توڑ
نہ سکی بلکہ خود تحریک انصاف پارٹی کا شیرازہ بکھر گیا۔ عمران خان حکومت
ناکامی کی سب سے بڑی وجہ مملکت میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام تھا۔ دنیا
جہاں کے پارلیمانی نظام حکومت میں حکومت اور اپوزیشن دونوں اہمیت کے حامل
ہوتے ہیں لیکن افسوس عمران خان نے اپنی حکومت پارلیمانی روایات کے برخلاف
شہنشاہیت کی طرز پر چلانے کی ناکام کوشش کی۔ جس کو چاہا جیل میں ڈلوا دیا
جس پر چاہا جھوٹا مقدمہ درج کروادیا۔ عمران خان حکومت نے پاکستان کے تمام
ریاستی اداروں خصوصا قومی احتساب بیورو پر اس قدر پریشر ڈالے رکھا کہ
اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کا جینا دوبھر کردیا گیا۔ کوئی چھ ماہ سلاخوں کے
پیچھے رہا تو کوئی سال تک۔ قومی احتساب بیورو پر عمران خان حکومت کے
اثرورسوخ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا تھا کہ عمران خان کے وزراء
ہفتہ پہلے ہی پریس کانفرس میں اعلان کردیا کرتے تھے کہ اپوزیشن کا فلاح
لیڈر نیب کی حراست میں جانے والا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کی اک تلخ حقیقت یہ
بھی تھی کہ عمران خان پارلیمانی روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے پارلیمنٹ کے
اہم ترین حصہ یعنی اپوزیشن سے بات چیت تو دور کی بات انکے قائدین سے ہاتھ
ملانا بھی اپنی توہین سمجھتے تھے۔ یقینی طور پر عمران خان کے اسی غروراور
تکبر نے انکی حکومت کو آج اس نوبت پر پہنچا دیا۔ عمران خان کس طرح مسند
اقتدار پر بیٹھے اور کس طرح انکو اقتدار میں لانے کیلئے راستے ہموار کئے
گئے اس پر بہت کچھ کہا اور لکھا جاچکا ہے، یہاں مزید لکھنے کی اب گنجائش
باقی نہیں۔ بہرحال عمران خان جن لوٹوں اور اتحادیوں کے سروں پر سوار ہوکر
مسند اقتدار پر پہنچے تھے، جیسے ہی ان افراد اوراتحادیوں نے عمران خان کو
جھنڈی کروائی عمران خان بے آسرا ہوکر اقتدار سے ہٹادیے گئے۔ بہرحال اپوزیشن
جماعتوں نے متفقہ طور پر پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو وزارت
عظمی کی مسند پر براجمان کروادیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی اک تاریخ رہی
ہے کہ اس جماعت کو اقتدار ہمیشہ ایسے وقت میں ملا ہے کہ جب ملکی معیشت ڈوب
چکی ہوتی ہے، داخلی و خارجی امور پر ریاست پاکستان کے معاملات زبوں حالی کا
شکار ہوچکے ہوتے ہیں۔ اور اس جماعت کی اس سے بھی زیادہ بدقسمتی رہی ہے کہ
جب ریاست پاکستان کے حالات بہتری کی طرف گامزن ہوچکے ہوتے ہیں تمام تر
معاشی اشارے مثبت ہوچکے ہوتے ہیں تو کوئی نہ کوئی سازش اس جماعت کو مسند
اقتدار سے الگ کروادیتی ہے۔ اس وقت موجودہ حکومت کو بڑے چیلنجز میں مملکت
کے دوست اور بڑی معاشی طاقتوں کیساتھ خارجی تعلقات کو بحال کروانا، معیشت
کی بحالی، ڈالر کو نتھ ڈالنا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں استحکام/کمی
لیکر آنا، اشیاء ضروریات کی قیمتوں میں کمی لیکر آنا، بجلی و گیس کی قیمتوں
میں کمی لیکر آنا۔ رہی بات نئے میگا پراجیکٹس کی تو میگا پراجیکٹس اس گئی
گزری معیشت میں لیکر آنا انتہائی ناممکن ہوگا۔ عوام الناس عمران خان حکومت
کی مہنگائی کے ہاتھوں مفلوج ہو چکی ہے۔ راقم کی یہ رائے ہے کہ پاکستان مسلم
لیگ ن اور اتحادیوں کی موجودہ حکومت کو اک بہترین عوامی بجٹ پیش کرکے
اسمبلیوں کو تحلیل کردینا چاہئے اور نئے الیکشن کی طرف جانا چاہئے۔ کیونکہ
موجودہ حکومتی سیٹ اپ میں شامل بہت سی جماعتیں جن میں پاکستان مسلم لیگ ن،
جے یو آئی، پی پی پی اور دیگر پارٹیوں کا سب سے بڑا مطالبہ بھی نئے فی
الفور انتخابات رہا ہے اور اس وقت پی ٹی آئی بھی جلد ازجلد انتخابات چاہتی
ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو اپنے اقتدار کو طول دینے کی بجائے اور آنے
والے وقت میں ممکنہ طور پر کسی بھی سیاسی عدم استحکام سے بچنے کے لئے بجٹ
پیش کرنے کے بعد اسمبلیوں کو تحلیل کرکے نئے الیکشن کی طرف جانا چاہئے،
کیونکہ جو اتحادی جماعتیں اپنے مفاد کی خاطر کل تک عمران خان کیساتھ پونے
چار سال تک بیٹھی رہیں اور یکدم عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیا کیا شہباز شریف
انہی جماعتوں سے توقع کرسکتے ہیں کہ یہ جماعتیں انکا ساتھ کبھی نہیں چھوڑیں
گی۔ یاد رہے ماضی قریب میں پاکستان مسلم لیگ ن نے پی پی پی کے ہاتھوں
متعدمرتبہ دھوکہ کھایا ہے چاہے وہ جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کا معاملہ
ہویا پھر اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کا معاملہ یا پھر حال ہی میں سینٹ میں
بطور اپوزیشن لیڈر تعیناتی کا معاملہ۔ اس میں کچھ شک و شبہ نہیں ہے کہ پی
ڈی ایم جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت عین غیر فطری اتحاد ہے۔ پی ڈی ایم
جماعتیں عمران خان حکومت ہٹاؤ حکومت جیسے یک نکاتی ایجنڈا پر اکٹھی تو ضرور
ہوئی لیکن یہ لازم نہیں کہ یہی جماعتیں اقتدار میں بھی ہمیشہ اکٹھی رہیں۔
اتحادی حکومت میں شامل تمام جماعتوں کے منشور اور سیاسی اہداف ایک دوسرے سے
بہت حد تک مختلف ہیں۔اس لئے پاکستان مسلم لیگ ن کواگست 2023 تک اپنے اقتدار
کو طول دینے کی بجائے رواں سال ماہ جون میں پارلیمنٹ سے بجٹ منظور کرواکر
فی الفور اسمبلیوں کو تحلیل کردینا چاہئے اورنئے انتخابات میں اک نیا
مینڈیٹ لیکر مسند اقتدار تک پہنچے کی کوشش کرنی چاہئے۔تاکہ ایوان میں واضح
اکثریت کی حامل جماعت بہتر فیصلے کرنے کی حامل ہو۔یاد رہے اگر شہباز شریف
اس لولی لنگڑی حکومت کیساتھ معاشی حالات کنٹرول کرنے میں ناکام رہے تو
عمران خان حکومت کا پونے 4 سال کا گند بھی مسلم لیگ ن کے گلے پڑ جائے گا۔
|