رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہوتے ہی بھکاری ہر شہر
کی طرح کلرسیداں میں بھی ٹولیوں کی شکل میں دکھائی دے رہے ہیں شہر کی اہم
جہگوں پر ڈیرے جما لیتے ہیں اس بار ایک خاص قسم کا گروہ جو اس سے قبل
کلرسیداں میں نہیں دیکھا گیا تھا بھی آ گیا ہے ایک ہی شکل کے چھوٹے بچے
جنہیں شاید ابھی تک صحیح تربیت نہیں دی گئی ہے کیوں کہ ان کو اگر تھوڑا سا
ڈرایا جائے تو وہ فورا تیزی سے بھاگ جاتے ہیں اس وقت ایک انداز ے کے مطابق
روات مانکیالہ ساگری شاہ باغ چوکپنڈوڑی اور کلر سیداں میں کم و بیش 500سو
کے قریب بھکاری موجود ہیں جن میں بزرگ عورتیں بچے بچیاں اور نوجوان لڑکیاں
شامل ہیں حتیٰ کہ چھوٹے معصوم بچے بھی بھیک مانگتے ہو ئے نظر آتے ہیں ان کی
آوازوں پر اگر تھوڑی سی توجہ کی جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان معصوموں
کو سکھانے کے لیے کوئی با قائدہ گروہ موجود ہے گدا گری ایک مکمل پیشہ بن
چکی ہے ان بھکاریوں کو صبح سویرے گاڑیوں پر بٹھاکر چوکوں میں اتارا جاتا ہے
اور شام کو واپس بھی لایا جاتا ہے ہمارے معاشرے کا یہ حال ہو چکا ہے کہ
نوجوان لڑکیوں کو پیشے کی صورت میں اس کام پر لگادیاگیاہے آپ کسی بھی سٹاپ
پر کھڑے ہوں ضرور کوئی نہ کوئی عورت آپ کے پاس مانگنے کے لیے آئے گی ان
عورتوں کی وجہ سے بعض اوقات شریف لوگوں کو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا
ہے یہ عورتیں جسمانی طور پر بالکل صیح سلامت ہوتی ہیں ان کو ٹریننگ دے کر
اتنا ڈھیٹ کر دیا جاتا ہے کہ بار بار کو سنے کے باوجود ان سے جان چھڑا نا
مشکل ہو جاتا ہے یہ بھکاری عورتیں شریف گھرانوں خواتین کے لیے بھی باعث
شرمندگی بن چکی ہیں یہ بھکاری عورتیں مسافر خوتیں سے لپٹ کربھیک مانگتی ہیں
خواتین یہ سمجھ کر ان کو پیسے دے دیتی ہیں کہ خدا کی راہ میں دیتے ہیں اگر
شریف گھریلو عورتیں ٹال مٹول سے کام لیں تو بھکاری عورتیں ان کو ذلیل کر کے
رکھ دیتی ہیں قارئین کرام آپ نے اکثر مشاہدہ کیا ہو گا کہ شہروں میں سڑکوں
پر خاص قسم کی عورتیں کھڑی ہوتی ہیں اور وہ صرف اس تاک میں لگی ہوئی ہوتی
ہیں کہ کوئی شریف آدمی نظر آئے تو اُس کو سائیڈپر کر لیتی ہیں اور کوئی من
گھڑت کہانی سناتی ہیں جس کی وجہ سے آپ نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ دینے
پر مجبور ہو جاتے ہیں اسی طرح یہ عورتیں ہزاروں کے حساب سے دیہاڑی لگالیتی
ہیں ان کو اگر کچھ دینے سے انکار کر دیا جائے تو یہ تھوڑی دورجاکر گالیاں
تک دینے لگ جاتی ہیں کسی مزار پر جائیں تو سب سے پہلے آپ کی ملاقا ت
بھکاریوں سے ہی ہو گی مسجد میں جائیں تو بھی گیٹ پر پہلی ملاقا ت ان لوگوں
سے ہی ہوگی جو نہی کسی گاڑی پر سوار ہوں تو گاڑی کی دروازیوں سے تین چار
بھکاری گھیر لتے ہیں جو اﷲ اور رسول کے واسطے دے کر آپ کو مجبور کر دیتے
ہیں یا بد عائیں اس قسم کی دینے لگ جاتے ہیں آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں میں
آپ منہ چھپائے پھریں گئے بعض بھکاری جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کی کوشش
کرتے ہیں ایک بھکاری جو پچھلے کئی سالوں سے کلرسیداں میں مانگ رہا ہے کچھ
عرصہ وہ نظر نہ آیا ایک دن وہ مجھے راجہ بازار میں مل گیا پوچھنے پر اس نے
بتایا کہ میں نے کلرسیداں والا ٹھیہ بیچ دیا ہے میں نے کہا کہ ٹھیہ کیا
ہوتا ہے اس نے کہا کہ یہ تمھاری سمجھ سے باہر ہے میں نے وہ ٹھیہ 25000=/میں
بیچا ہے تو یہ حالت ہو چکی ے کہ بھکاری بھی شہروں کی خرید و فروخت کرتے ہیں
ان کا یہ تمام سلسلہ مقامی انتظامیہ کے نوٹس میں ہوتا ہے حکومت کو چاہئے کہ
وہ اس سلسلے میں بنائے گئے قوانین پر عمل کروائے اور ہر مقامی انتظامیہ کو
ہدایات جاری کرے کہ وہ اس گھناؤنے کاروبار کو رو کے چونکہ رمضان المبارک کا
آخری عشرہ بھی شروع ہو چکا ہے اور بھکاریوں کی تعداد میں مزید اور بھی
اضافہ ہو چکا ہے حکومت کو اس سلسلے میں سخت اقدامات اُٹھانے چاہیں تا کہ
بھکاریوں سے عوام کی جان چھڑائی جاسکے
|