ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال ؒبیسویں صدی کے معروف
شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں
سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی وجہ شہرت
ہیں۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ علامہ
اقبالؒ کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے
نمایاں کارنامہ نظریہ ء پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ
آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد
میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو
اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل
ہے۔ 21 اپریل 1938ء ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال ؒکا یوم وفات ہے ۔آپ کے والد
شیخ نور محمدکا تعلق کشمیر سے تھا۔اور آپ کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ میں
محلہ کھیتیاں میں آکر آباد ہوگئے تھے۔شیخ نور محمد دیندار آدمی تھے۔ بیٹے
کے لیے دینی تعلیم ہی کافی سمجھتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اقبال ؒ کواستاد
میر حسن کے سپرد کر دیا۔جہاں انہوں نے اردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع
کیا۔ مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ تو انہیں ورثے میں ملا مگر میر حسن کی
تربیت نے اس جذبے کو علمی اور عملی سمت دی۔ اقبالؒ سمجھ بوجھ اور ذہانت میں
اپنے ہم عمر بچوں سے کہیں آگے تھے۔ بچپن ہی سے ان کے اندر وہ انہماک اور
استغراق موجود تھا جو بڑے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ 16 برس کی عمر میں6 مئی
1893ء میں انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ فرسٹ ڈویژن آئی،تمغہ اور
وظیفہ ملا۔
1895ء میں ایف اے کیا اور مزید تعلیم کے لیے لاہور آ گئے۔ 1898ء میں بی اے
پاس کیا اور ایم اے (فلسفہ) میں داخلہ لے لیا۔ یہاں پروفیسر ٹی ڈبلیوآرنلڈ
کا تعلق میسّر آیا۔ جنھوں نے آگے چل کران کی علمی اور فکری زندگی کا ایک
حتمی رْخ متعین کر دیا۔مارچ 1899ء میں ایم اے کا امتحان دیا اور پنجاب بھر
میں اوّل آئے۔ اس دوران میں شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا، مگر مشاعروں میں
نہ جاتے تھے۔ نومبر 1899ء کی شام حکیم امین الدین کے مکان پرمنعقدہ محفلِ
مشاعرہ میں انہوں نے غزل پڑھنی شروع کی، جب اس شعر پر پہنچے کہ :
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چْن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
تونامی گرامی استاد اْچھل پڑے،بے اختیار ہو کر داد دینے لگے۔ یہاں سے
اقبالؒ کی بحیثیت شاعر شہرت کا آغاز ہوا۔ مشاعروں میں باصرار بْلائے جانے
لگے۔ اسی زمانے میں انجمن حمایتِ اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر تک قائم
رہا۔ اس کے ملّی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کلام سناتے اور لوگوں میں ایک
سماں باندھ دیتے۔ اقبال کی مقبولیت نے انجمن کے بہت سارے کاموں کو آسان کر
دیا۔ کم از کم پنجاب کے مسلمانوں میں سماجی سطح پر دینی وحدت کا شعور پیدا
ہونا شروع ہو گیا جس میں اقبال کی شاعری نے بنیادی کردار ادا کیا۔
25 دسمبر 1905ء کو اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے، ایم اے کے بعد
اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے۔ وکالت کے ساتھ ساتھ
شعر و شاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکوں میں بھی حصہ لیا۔ 1922ء میں
حکومت کی طرف سے’’ سر‘‘ کا خطاب ملا۔وہ انجمن حمایت اسلام کے اعزازی صدر
بھی رہے۔
30 مارچ 1923ء کو انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اقبال نے اپنی معروف نظم
’’طلوع اسلام‘‘ پڑھی۔ یہ نظم یونانیوں پر ترکوں کی فتح کے واقعے پر لکھی
گئی تھی۔ نظم کیا ہے، مسلمانوں کے روشن مستقبل کا پیغام ہے:
دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دورِ گراں خوابی
برّصغیر میں جب مسلم سیاسی جماعتیں سخت انتشار اور افتراق میں مبتلا
تھیں،مسلمانوں کے قومی مستقبل کا مسئلہ عملاً فراموش کیا جا چکا تھا۔ قائد
اعظمؒ مایوس ہو کر لندن جا چکے تھے، لیکن قدرت کو مسلمانوں کی بہتری منظور
تھی، اقبالؒ اور دیگر افرادکے اصرار پر قائداعظمؒ ہندوستان واپس آ گئے اور
4 مارچ 1934ء کو مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔
6 مئی 1936ء کو حضرت قائد اعظم ؒسے انہیں مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ
کا رکن بنا دیا جو انہوں نے علالت کے باوجود بخوشی قبول کر لیا۔12 مئی1936ء
کو اقبال دوبارہ پنجاب مسلم لیگ کے صدر مقرر ہوئے۔ آپ کی تعلیمات اور قائد
اعظمؒ کی شبانہ روز کوششوں کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔جنوبی
ایشیا کے اردو اور ہندی بولنے والے لوگ آپ کو ’’شاعرِ مشرق‘‘ کے طور پہ
جانتے ہیں۔آپ حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری ،زندہ شاعری ہے جو
ہمیشہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کلامِ
اقبالؒایران اور ترکی سمیت دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانان
برصغیر اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے اور ان کے فلسفے کو سمجھتے
ہیں۔ اقبالؒ نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر
کیا۔ ان کی کئی کتب کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری
زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ جس سے بیرون ملک بھی لوگ آپ کے معترف ہیں۔
بلامبالغہ علامہ اقبالؒ ایک عظیم مفکر مانے جاتے ہیں۔
شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ کا یوم وفات گذشتہ کچھ عرصے سے حکومتی سطح پر قومی
بے حسی کی نذر ہوجاتا ہے ۔یہ دن حکومت، اپوزیشن ،سیاسی و سماجی تنظیموں
،تعلیمی اداروں اور من حیث القوم اس انداز میں منایا جاتا ہے کہ جیسے
اقبالؒ کبھی تھے ہی نہیں۔اسی طرح ان کا سیالکوٹ میں واقع میوزیم جہاں ان کے
استعمال کی اشیاء اور دیگر معلومات کا ذخیرہ موجود ہے وہ بھی ویرانی کا
منظر پیش کرتا نظر آتا ہے۔ جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔اقبال ؒ کا کلام نوجوانوں
کے لئے ایک ایسا پیغام ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔اس میں تسخیرکائنات اور
آسمان کی بلندیوں کو چھونے کادرس دیا گیا ہے کہ جس پرعمل کرکے ہم قوموں کی
برادری میں ایک خوددار اور باوقار قوم کی طرح اپنا مقام پیدا کر سکتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|