عمران خان نے بنی گالہ میں ایک اعلی سطحی اجلاس کی
صدارت کرتے ہوئے فرمایا کہ پی ٹی آئی عید الفطر سے پانچ دن پہلے پاکستان کے
دس بڑے شہروں کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ ملک گیر سطح پر شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی
کرے گی ۔ شہروں کو صبح دس بجے سے شام دس بجے تک بند کیا جائے گا ۔ دوسرے
شیڈول کے مطابق باقی شہروں کو بھی بلاک کردیا جائے گا ۔پروگرام کے تحت
ٹریفک ، سکول، سمیت شٹر ڈاؤن کی احتجاجی کال بھی دی جائے گی ۔تیسرے شیڈول
کی روشنی میں ملک بھر کے شہروں کو ایک ساتھ لاک ڈاؤن کیا جائے گااور تمام
شہروں میں چلنے والی ٹریفک کو مکمل طور پر بند کردیا جائے گا۔18 اپریل
2022ء کے نوائے وقت میں شائع ہونے والی اس خبر نے میرے رونگٹھے کھڑے کردیئے
بلکہ خوف کی ایک لہر میرے پورے میں جسم میں سرایت کرگئی ۔ خدا خیر کرے ۔
عمران کس قدر خطرے ناک راستے پر چل پڑے ہیں۔اس لمحے مجھے ایم کیو ایم کے
نام نہاد قائد الطاف حسین کی وہ باتیں یاد آنے لگیں جو وہ کبھی کہا کرتے
تھے کہ میں جب چاہوں کراچی کو اس طرح بند کرسکتا ہوں ،بلکہ انہوں نے سابق
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو کراچی میں آنے سے کچھ اس طرح روکا کہ کتنی
ہی انسانی جانیں الطاف حسین کے حکم پر قربان ہو گئیں ۔ پھر وہ وقت بھی آیا
جب وہ لندن میں بیٹھ کر اپنے حامیوں سے خطاب کررہے تھے تو وہاں پاکستان کے
خلاف بھی نعرے گونجتے رہے ۔ پھر وہی ہوا جو ہونا چاہیئے تھا ، عدالتوں سمیت
ریاستی اداروں نے الطاف حسین کی نہ صرف تقریروں پر پابندی لگائی بلکہ ان کے
جانثار ساتھی بھی ان کا نام برملا لینے سے ڈرنے لگے ۔ عمران خان 2014ء کے
دھرنے میں بھی ریاستی اداروں میں بغاوت پر اکسانے میں پیش پیش رہے ، ان کی
قیادت میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اس بھی آگے بڑھ کر پارلیمنٹ ، ریڈیو
پاکستان بلکہ وزیراعظم سیکرٹریٹ پر بھی یلغار کردی اور سرکاری املاک کو
شدید نقصان پہنچایا ۔ کتنے ہی دن ججز صاحبان کو پیدل چل کر سپریم کورٹ
پہنچنا پڑا ۔جس پر دہشت گردی کی عدالت میں عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے
تمام سرکردہ رہنماؤں کے خلاف مقدمہ کئی سال تک چلتا رہا اور عمران سمیت
تمام لوگ پیشیاں بھگتتے رہے ۔چند ماہ پہلے ریاستی اداروں کی پیروی نہ ہونے
کی بنا پر عمران سمیت پی ٹی آئی کے تمام سرکردہ رہنما (جن میں موجودہ صد ر
بھی شامل ہیں )کو بری کردیا گیا ۔عمران کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ دہشت
گردی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اب بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کی
جا سکتی ہے ۔ یہ تو مسلم لیگ ن والوں کی مہربانی سمجھیں جنہوں نے عمران خان
کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے ۔ افسوس تواس بات کا ہے کہ عمران خان قومی اسمبلی
میں اکثریت کا اعتماد کھونے کے بعد جب اقتدار سے باہر نکلے انہیں اس بات کی
بھی سمجھ نہیں آرہی کہ عوامی جلسوں میں کیا کیا کہہ جاتے ہیں ۔ کسی نے کیا
خوب کہا ہے کہ خدا گنجے کو ناخن نہ دے ورنہ وہ اپنا ہی سر گجا گجا کر
لہولہان کرسکتا ہے ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پی ٹی آئی نے سپریم
کورٹ کے اس فیصلے کو بھی قبول کرنے سے صا ف انکار کردیا جس کے تحت قومی
اسمبلی میں تحریک عد م اعتماد کے حوالے سے اس نے دو ٹوک فیصلہ سنایا تھا ۔
رات بارہ بجے تک بے تکی تقریریں کی جاتی رہیں ۔ ٹھیک رات بارہ بجے سپیکر
قومی اسمبلی نے استعفی دے کر چلتے بنے لیکن سارا دن اجلاس چلتا رہا لیکن
ووٹنگ کرانے کی نوبت نہ آئی۔ یہ الگ بات ہے کہ رات بارہ بجے کے بعد ایاز
صادق نے سپیکر کی کرسی پر بیٹھ کر ووٹنگ کرائی اور عمران خان کو وزارت عظمی
سے فارغ کردیا ۔ تاریخ میں یہ بات بھی ضرور لکھی جائے گی کہ عمران خان اور
اس کے سیاسی جماعت کے سرکردہ لوگوں کی ڈھٹائی کی وجہ سے سپریم کورٹ کے چیف
جسٹس سمیت پانچ معزز جج صاحبان کو بھی رات بارہ بجے اپنے فیصلے پر عمل
درآمد کرانے کے لیے عدالت لگانی پڑی۔اب اس بات کا ذکروہ تمسخرانہ انداز میں
عوامی جلسوں میں کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ میں نے وہ کونسا جرم کرلیا تھا کہ
رات بارہ بجے عدالت لگانی پڑی ۔ عمران تقریر کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ
میڈیا کے ذریعے ان کی تمام باتوں کی گونج عدالتوں اور تمام ریاستی اداروں
تک بھی پہنچ جاتی ہے ۔ وہ جس غیرملکی سازش کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
امریکہ نے پاکستان میں میر جعفر کو وزیراعظم بنا دیا ہے ۔ایسی باتیں عوام
میں جوش و خروش تو پید ا کرسکتی ہیں لیکن اس کا خمیازہ حقیقت میں عمران خان
سمیت پاکستان کو بھی بھگتنا پڑسکتا ہے۔ جب آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل
نے دو ٹوک الفاظ میں اس بات کی تردید کردی ہے کہ عمران خان کی حکومت کو ختم
کرنے کے لیے کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی تو پھر بھی جلسوں میں اسی بات کی
تکرار کرنا ریاستی اداروں کی توہین قرار پاتی ہے ۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر عمران
اسی طرح بے تکی باتوں کو عوامی جلسوں میں کہتے رہے اورشہروں کو بلاک کرنے
اور شٹر ڈاؤن کرنے کی منصوبہ بندی کرتے رہے تو ان کا انجام بھی کہیں ایم
کیو ایم کے الطاف حسین جیسا نہ ہو اور پاکستانی سیاست سے انہیں ایسے نکال
باہر کر دیا جائے جیسے دودھ سے بال نکالا جاتا ہے ۔اسی لیے سیانے کہتے ہیں
پہلے تولو پھر بولو۔
|