محمد خالد اختر ۔ تحریروں سے اقتباسات اور کچھ نادر تصاویر

image
لڑکپن کی ایک تصویر۔بشکریہ منصور و ہارون خالد(پسران: محمدخالد اختر)

اگر سرائے کے اندر کا دروازہ اور باہر والا سلاخوں کا دروازہ دونوں کھلے ہوتے تو پھر گھر کے کسی پنجرے میں رہنے کا احساس ہوتااور مجھے تو کئی بار محسوس ہوا کہ اپنی سرخ ٹائی، سبز ہیٹ اور بی اے کی ڈگری کے باوجود میں کوئی بہتر قسم کا لنگورہوںجو کھڑکی میں سے نیچے اسٹیشن کے سامنے بیٹھے ہوئے بندروں کو پہچان کر بھائی بندی کے جذبے کے تحت مسکرا رہا ہے۔
کھویا ہوا افق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستری مہتاب دین کی بیوی حکیم علی علم ، مشہور موجد سرمہ کی تیسری بیٹی تھی۔ حکیم صاحب کا دعویٰ تھا کہ جو کوئی بھی ان کا سرمہ استعمال کرے گا، وہ دن کو تارے دیکھنے لگے گا۔ چناچہ شہر لاہور میں اب تک ایسے لوگ موجود ہیں جن کو دن کے وقت صرف تارے ہی نظر آتے ہیں اور وہ حکیم صاحب مرحوم کی روح کو دعائیں دیتے ہیں۔
لالٹین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

image
بشکریہ منصور و ہارون خالد۔(پسران: محمدخالد اختر)

تصویریں چچا عبدالباقی کے گھر پر میرے خرچے سے کھینچی گئیں اور اپنی تصویر میں چچا نے اپنے گھر کے افراد کو بھی شامل کرلیا۔ میری تصویر میں چچا اپنے بیٹے عبدالرحمن کو میری گود میں بٹھانا چاہتا تھا مگر میں نے انکار کرکے پہلی بار اپنے کردار کی پختگی کا ثبوت دیا۔ عبدالرحمن نکلے ہوئے کانوں والا ایک شوخ لڑکا ہے۔ وہ میرا حد درجے مشتاق ہورہا تھا ، پل بھر کے لیے بھی مجھے تنہا نہ چھوڑتااور میں سرد آہیں بھر کر اکثر اس بات پر تعجب کرتا تھا کہ بعض انسان دوسرے انسانوں کے اس قدر مشاق کیونکر ہوجاتے ہیں۔
ماہنامہ الو کا اجراء(چچا عبدالباقی کہانی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب میں نارتھ ویسٹرن ریلوے کی گرد اور سیاہی میں ملفوف گھر پہنچا تو بوڑھا آدمی (والد) برآمدے میں بیٹھا اپنی داڑھی کو وسمہ لگا رہا تھا۔ ایک اور چھوٹا سا دبلا شخص ، جو قدرے ایک بھیگی ہوئی چڑیا کی طرح تھا، سامنے کرسی پر ٹانگ رکھے بیٹھا ایک پلیٹ میں سے چلغوزے کھا رہا تھا۔ کسی چیز نے مجھے بتایا کہ یہی وہ ریٹائرڈ ایکسائز انسپکٹر ہے یعنی میرا ہونے ولا سسر۔ میرا دل بوٹوں تک ڈوب گیا۔ ہونے والے خسروں کا ہمیشہ مجھ پر یہی اثر ہوتا ہے۔ ہم خلجی قدرے نروس ہیں۔
زیبرا اسکیم(چچا عبدالباقی کہانی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

image
دوحہ میں ۔مجلس فروغ اردو ادب ایوارڈ کے موقع پر۔بشکریہ منصور و ہارون خالد(پسران: محمدخالد اختر)


image
لوح قبر۔ محمد خالد اختر۔راقم نے ۹۲ جولائی ۱۱۰۲ کو محفوظ کی

ہیلو ! ہیلو ! پرائم منسٹر کی کوٹھی۔۔ہیلو سیکرٹری صاحب۔ کیوں بھئی اُدھوانا صاحب ہیں۔۔مصروف ہیں ؟ کیا کہا کوئی کانفرنس ہورہی ہے ؟ ۔۔۔ بھئی ان کو ذرا فون پر بھیجو۔۔میں بول رہا ہوں۔۔آنریبل وڈیرا رسول بخش ملنگی آف واٹر ورکس ۔۔۔ اُدھوانا صاحب ہیں ! آیا ۔۔سنائیے۔قبلہ یہ کیا اکیلے اکیلے کانفرنسیں ہورہی ہیں۔۔میں بھی پرسوں ہی ہیلی کاپٹر میں سیلاب زدہ علاقے کا دورہ کرکے لوٹا ہوں۔۔۔جی ہاں۔۔۔اس سے سیلاب تھم گیا ہے !

آنریبل ملنگی کا حسرتناک انجام ۔(چچا عبدالباقی کہانی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیاہ گاؤن اور چوکور ٹوپی جو رسم اسناد کے موقع پر تم نے اچھے سمجھدار سنجیدہ آدمیوں کو (جو عام حالات میں کبھی ایسی حرکت کے مرتکب نہیں ہوسکتے) پہنے ہوئے دیکھا ہوگا۔ (جن میں وہ کچھ کچھ پرندے سے لگتے ہیں۔پہاڑی کوؤں سے مشابہہ)۔یہ سیاہ گاؤن اور چوکور پھندنے والی ٹوپی میرے پاس تھے۔ یہ درست نہیں ہے کہ میں نے یہ بی اے کی ڈگری کے موقع پر بنوائے تھے۔ جب میں ان کو اپنے ایک خالوسے ادھار مانگ سکتا تھا تو بھلا مجھے ان کے سلوانے اور خاص طور پر بنوانے کی کیا ضرورت تھی۔ میرا خالو مولوی محمد باقر ایک مقامی کالج میں پینسٹھ روپے ماہوار پر عربی کا پروفیسر تھااور اس جامعہ میں جہاں سے اس نے فاضل اجل یا اسی قسم کی ڈگری لی تھی۔

چاکیواڑہ میں وصال ۔(ناول)

پارٹیوں کی فہرست اپنی نامکمل صورت میں کچھ اس طرح تھی:

پارٹی ------ لیڈر سربراہ وغیرہ
رکابی پارٹی --- حاجی شناسی
چودھری گارڈن پارٹی --- چودھری سوہن میاں
فصلانہ گارڈن پارٹی --- نواب نیک محمد فصلانہ
خانان گارڈن پارٹی ---- خان مسیتا خان صاحب
بانگلا جنتا پارٹی ----- غیظ الرحمن بندو
گھیراؤ جلاؤ پارٹی ---- مولانا طوفانی
گھونپ پارٹی ---- علی قلی خان
لوک پارٹی ---- رعد علی بدلو
جمیعت فقیہان نکاغ خوان مولانا عرفانی قہرمانی
وغیرہ وغیرہ
الیکشن ٹکٹ ۔(چچا عبدالباقی کہانی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

image
 آرام گاہ۔محمد خالد اختر۔راقم نے ۹۲ جولائی ۱۱۰۲ کو محفوظ کی

جب میز پر سب پلیٹیں صاف ہوگئیں اور دودھ کے گلاس خالی ہوگئے، پروفیسر شاہسوار خاں نے ایک زبردست ڈکار لی۔ شاید زبردست ترین ڈکار جو اس الاٹ کے ریسٹوران میں کسی نے نہ لی ہوگی اور جس نے اس کمرے میں بیٹھے ہوئے سب بوژواؤں کی نظر پروفیسر کی طرف مرکوز کردی۔ میں نے ایک بوژوا عورت کو ، جو ایک پھولدار غرارہ پہنے ہوئی تھی ، ڈر کر اپنی چائے کی پیالی کو نیچے فرش پر گراتے سنا۔ اس نے غالبا سمجھا تھا کہ کوئی مرکھنا درندہ شاہزان میں گھس آیا ہے۔ پروفیسر اس ہلچل سے جو اس نے پیدا کردی تھی، قطعا بے پرواہ اور غیر متاثر تھا۔
چاکیواڑہ میں وصال ۔(ناول)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

image
دائیں سے: جناب ہارون خالد اور جناب منصور خالد۔پسران محمد خالد اختر
 
تقریباً ہر شخص میں قدرت نے ہیرو پرستی کا مادہ ودیعت کیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہر شخص کے اپنے خاص ہیرو ہوتے ہیں جنہیں وہ ایک زریں سی دھند میں اپنے سے اوپر اولمپیا کی بلندیوں پر بیٹھے دیکھتا ہے۔ مثلا میرے ایک دوست کا (جو امپورٹ کنٹرول میں ایک معمولی کلرک ہے) ہیرو اس کے دفتر کا سپرنٹنڈنٹ ہے جو ۔ کئی بار اس کے ساتھ شام کو پررونق صدر میں گزرتے ہوئے اور منور دکانوں میں حسین چہروں کو تاکتے ہوئے مودبانہ لہجے میں سامنے بشرٹ میں ایک گنجے بطخ نما انسان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے : ” یہ چوہدری عبدالکریم ہے، ہمارا سپرنٹنڈنٹ، ساڑھے آٹھ سو تنخواہ پاتا ہے“۔ میرا دوست یہ کہتے وقت ایک بچے کی طرح خوش اور مغرور ہوتا ہے جیسے کہ اس نے مجھے دنیا کاایک آٹھواں عجوبہ دکھادیا ہو۔ ایک عجوبہ جسے اس نے خود اپنے ہاتھوں سے ایجاد کیا ہو۔ چوہدری عبدالکریم میرے دوست کے لیے ا ولمپیا کا دیوتا ہے۔ اس کے نزدیک چوہدری عبدالکریم انسانی ترقی کی ایسی معراج پر پہنچ چکا ہے جہاں اس جیسے شخص کبھی پہنچنے کا خواب تک نہیں دیکھ سکتے۔عموما ہمارے ہیرو ایسے شخص ہوتے ہیں جو کچھ بن چکے ہیں جو ہم بننا چاہتے تھے مگر جانتے ہیں کہ کبھی بھی نہ بن سکیں گے۔
چاکیواڑہ میں وصال ۔(ناول)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” بس کے اڈے کے پاس ایک لکڑی کے بجلی کے پول سے ٹیک لگائے ایک بوڑھا خانہ بدوش جوڑا بیٹھا تھا۔ گول ٹوکری میں گھر کا سار سامان تھا۔ گدھا پول سے بندھا تھا۔ سفید پریشان داڑھی والے منگول خد و خال کے بوڑھے چہرے پر بے بسی اور بوکھلاہٹ تھی۔ اس کی بیوی پچپن سال کی ، کھچڑی رنگت کے بالوں والی، سکڑی ہوئی بوڑھی عورت تھی۔بیس پچیس سال پہلے وہ ایک پہاڑی ہیلن ہوگی۔ اب بھی اس نے اپنے اعضا کی مناسبت ، اپنے تیکھے نقوش کی حساسیت نہ کھوئی تھی۔ خانہ بدوشوں کی گہری عیاری اس کی نیلی آنکھوں میں تھی۔ تم کہہ سکتے ہو کہ وہ ناقابل ملامت کردار کی مالک نہ تھی اور آنکھ بچا کر چھوٹی موٹی چیزیں چرا لینا اس سے بعید نہ تھا، مگر وہ اپنے بوڑھے کی وفادار تھی۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے وہ اب پہاڑی سے نیچے اپنے سفر کے آخر کو پہنچ رہے تھے۔ بوڑھے جوڑوں کی رفاقت اور ایک دوسرے پر سہارے میں کوئی بڑی خوبصورت چیز ہوتی ہے۔، اور اسی لیے شادی کا جوا کھیلنے سے نوجوان کو بچنا نہیں چاہیے۔ ایک اکیلی، سونی ، خودغرضانہ زندگی بلاشبہ ایک خوفناک چیز ہے۔ “

دو سفر۔ ( پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے کیے جانے والے دو سفر )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے اپنے ہیرو۔۔۔میرے حقیقی ہیرو ۔۔وہ لوگ ہیں جو کتابیں لکھتے ہیں۔میں ان ادیبوں کو ترجیع دیتا ہوں جو ادیب شہیر یا مصور جذبات بن چکے ہیں۔مگر ان ادبی شیروں کے علاوہ ہر وہ شخص جس نے کوئی کتاب لکھی ہو، خواہ وہ ’ پکی روٹی‘ کا مصنف ہی کیوں نہ ہو، میرا ہیرو ہے۔۔میرا اپنا سگا بھائی ہے۔۔ میں ادبی لوگوں کو اس طرح جمع کرتا ہوں جس طرح بعض لوگ ٹکٹ جمع کرتے ہیں۔ میری آٹو گراف کتاب پر شیخ اے ڈی کھوکھر (مصنف ُہن میں پتلون پاواں گی تے ڈانس گھراں وچ جاواں گی) سے لے کر چوہدری نرگس بغدادی (مصنف مشہور اسلامی ناول دغا باز شیر) تک کے آٹو گراف، ان کے اپنے ہاتھوں سے(اگرچہ میرے فونٹین پین کی سیاہی سے ) رقم زدہ موجود ہیں۔

چاکیواڑہ میں وصال ۔(ناول)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناول کے آخری باب میں مسٹر منظور کی ہیروئن سے شادی اور اس کے باغ حسن کی گل چینی اور دوسرے لذیذ امور کا ایسے مشرح انداز میں ذکر کرکے ناول کو اختتام تک لایا جاتا ہے کہ پڑھنے والے کی نیند کا قطعی حرام ہوجانا یقینی ہوجاتا ہے۔ سب سے آخر میں یہ فقرہ ” پیارے قارئین! پھر ملیں گے اگر خدا لایا“ ہوتا ہے۔ شیخ قربان علی کٹار کے معاملے میں خدا یہ ہر دو ماہ کے بعد کرتا یعنی اپنے پیارے قارئین سے ملانے کے لیے لاتا۔

چاکیواڑہ میں وصال ۔(ناول)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” میں جانتا ہوں، ایسے لوگ موجود ہیں جن کے لیے سفر کا بہترین لمحہ وہ ہوتا ہے جب وہ واپس اپنے گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں۔ میں ان سے سراسر مختلف ہوں۔ چھت کے نیچے میرا سانس گھٹتا ہے اور میں کبھی اتنا خوش نہیں ہوتا جتنا گھر سے دور کھلے سڑک پر، اور چھٹکے ہوئے تاروں کے نیچے۔ میں اپنے دل میں ایک خانہ بدوش ہوں، اور اپنے گھر اور دفتر کی مہذب رسمی زندگی مجھے زنداں کی ُپر اذیت قید لگتی ہے۔ میں جانتا ہوں اس زندگی نے بہت سوں کو مار دیا ہے اور ہمارے گونجتے ہوئے شہر ان رینگتی ہوئی لاشوں سے ُپر ہیں ۔ میں خود کو باغی سمجھنا پسند کرتا ہوں اور شاید حقیقیت میں محض ایک بزدل شخص ہوں جو دنیا کی حقیقتوں سے بھاگتے رہنے میں اپنی عافیت دیکھتا ہے۔“

دو سفر۔ ( پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے کیے جانے والے دو سفر )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے جنگلوں سے ڈھنپے ہوئے چٹانی نشیبوں اور بلندیوں کے درمیان ایک زریں دھند کے میدان میں سیف الملوک جھیل یاقوت کے نگینے کی طرح جڑی ہوئی تھی۔ سفید برف کے تودے اس کی صاف سطح پر تیر رہے تھے۔ ان میں سے چند اپنے خاص زاویے کی وجہ سے سورج کی روشنی میں خون سا چھلکا رہے تھے۔ جھیل کے مشرقی کونے سے کچھ دور ایک پرشکوہ، برف سا سفید پہاڑ اپنا مغرور سر اٹھائے ہوئے کھڑا تھا۔ وہ ترشا ہوا بلور تھا اور اسی لیے اسے شیشہ پہاڑی کہتے ہیں۔ اس آسمانی منظر کو دیکھ کر ہمارہ سب تھکاوٹ گویا جادو کے اثر سے اتر گئی۔

میں نے اپنے ننھے گائیڈ کو تشکرکے جذبے سے دیکھ کر اسے اپنے راز میں شریک کیا: ” یہ پہاڑی پر برف کیسی ۔۔۔۔ کیسی “
میرے پاس اس پہاڑ کی برفوں کو بیان کرنے کے لیے کوئی الفاظ نہ تھا۔
میرا راہنما صحیح لفظ کی تلاش میں میری پریشانی پر مسکرایا۔ اس نے میری مدد کی اور سادگی سے کہا:
” سچی برف “
” سچی برف “ ! یہ اس برف کو بیان کرنے کے لیے واحدصحیح لفظ تھا جس کی مجھے تلاش تھی۔ اس کوہستانی لڑکے نے مجھے یہ لفظ دیا تھا۔۔وہ لڑکا جس نے کبھی اسکول کا منہ نہ دیکھا ہوگا۔
لڑکے میں ایک پیدائشی شاعرکی روح تھی۔ میرا ایک دوست شاید اس برف کو ’ سجری برف ‘ کہتا اور میں کچھ سوچ کر غالبا اس کے لیے ’ کنواری ‘ کا لفظ دریافت کرتا مگر ” سچی “ کا لفظ اس برف کو پوری طرح بیان کرتا ہے جو اس پہاڑ کو سرتاپا ایک براق لبادے کی طرح ڈھانپے تھی۔
جب ہم پہاڑ کی اترائیوں میں آئے تو ہم نے اونی بالاپوش میں ایک آدمی کو۔۔۔جو آدمی کے بجائے ایک غلیظ حیوان لگتا تھا، رسہ لیے بھاگتے دیکھا۔
ہزاروی نے کہا : ” یہ گوجر ہے “ ! اور اس سے پوچھا : ” تمہارے پاس دودھ ہوگا “ ؟
آدمی نے رک کر کہا: ” تم دودھ پیے گا ؟ اچھا تم نیچے جائے، میں ابھی بھینس کوپکڑ کر تمہارے لیے دودھ لاتا ہوں“
وہ ایک عجیب سی ہندوستانی بولتا تھا جو اردو کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔ یہ گجری زبان تھی۔ اسے تھوڑی سی توجہ دینے سے بخوبی سمجھا جاسکتا تھا۔ ہم نیچے اتر آئے اور چھوٹی چٹانوں کو پھلانگتے جھیل کی کی سمت چلنے لگے۔ ہمارا گوجر میزبان رسہ لیے چٹانوں اور پہاڑی راستوں پر ناقابل یقین پھرتی سے بھاگتا ہوا جنگلوں کی کوئی بوسیدہ مخلوق لگتا تھا۔ “

دو سفر۔ ( پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے کیے جانے والے دو سفر )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب میں اٹھا تو پو پھٹ رہی تھی۔ چاند کی سفید تکیہ اسی طرح چمک رہی تھی۔ ستارے بھی اسی طرح چمکیلے تھے۔ البتہ کبھی کبھی ان کی لو میں پھیکے پن کا سا گمان ہوتا تھا۔ اس کے باوجود میں نے طبعا محسوس کیا کہ میں آخر کار رات کو صبح کے ڈر سے دبے پاؤں بھاگتے ہوئے پکڑ لیا ہے۔ عناصر کی تمام کروٹوں میں سے یہی ایک کروٹ مجھے سب سے زیادہ دلاآویز اور خوبصورت معلوم ہوتی ہے۔ اس لمحے کی شیرنی صرف وہی لوگ محسوس کرسکتے ہیں جو گھر کی چاردیواریوں کے باہر کھلی فضاؤں میںراتیں بسر کرنے کا تجربہ حاصل کرچکے ہیں۔کیا کنجوس کروڑ پتی کا سارا سونا اس ایک پل کا بدل ہوسکتا ہے جب اشجار اور جھاڑیاں ایک نئی سانس لیتے ہیں اور کائنات ایک انگڑائی بن کر رہ جاتی ہے۔ اس لمحے کی تاثر آفرینی کو صرف شاعروں اور مصوروں، عاشقوں اور سیاحوں نے محسوس کیا ہے اور ہمارے ہندوستان میں جوش نے محسوس کیا ہے:
ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی

ڈیپلو سے نو کوٹ تک۔(سفرنامہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”بیتا ہوا زمانہ ہمیں سہانا لگتا ہے۔ ہمارے بچپن اور لڑکپن کے ایام میں سادگی تھی۔ محبت کرنے والے لوگ تھے۔ فراغت کا احساس تھا۔ انسان کی زندگی اتنی الجھی ہوئی، اتنی مشینی نہ تھی جتنی اب بن کر رہ گئی ہے۔ اب جس شخص سے ملو وہ جلدی میں ہوتا ہے۔ کسی جان لیوا مصیبت میں مبتلا۔ اگر زندگی میں گائیوں اور بھیڑوں کی طرح دیر تک خالی نظروں سے دیکھنے کا وقت نہ ہو اور آدمی ہر وقت تفکرات سے مغموم رہے تو اس زندگی کا کیا فائدہ ؟ ۔۔اس دور میں ہر کوئی اپنے خول میں سمٹ کر جیتا ہے۔ ہمارے معاشرتی اور سماجی رویوں میں کوئی خاطر خواہ یا خوشگوار تبدیلی نہیں آئی۔بے شک ہم نے سائنسی طور پر بڑی ترقی کرلی ہے۔ چاند کی تسخیر، سٹیلائٹ، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر وغیرہ اور ہم سہج سہج ایک نئی دنیا کے قیام کی طرف جارہے ہیں۔لیکن کیا اس دور کا آدمی پچھلے دور کے آدمی سے زیادہ خوش او ر مطمئین ہے ؟۔۔پھر بھی ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ہم آنکھوں پر کپڑا باندھے کوہلو کے بیل نہیں جو چکر کاٹتے رہتے ہیں اور ایک ہی راہ کو روندتے چلے جاتے ہیں۔میں رجائیت پسند ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم آگے کسی بہتر مستقبل کی طرف رواں دواں ہیں ۔ویسے آپ جانتے ہیں کہ مخلوقات میں انسان ہی سب سے زیادہ سفاک، چالاک اور خطرناک حیوان ہے۔ اور یہ دنیا جس میں ہم جیتے اور مرتے ہیں، پرفیکٹ دنیا نہیں۔ایسی دنیا جس میں روپے
پیسے کی راجدھانی ہو ، پرفیکٹ کیونکر ہوسکتی ہے۔“
محمد خالد اختر کے ایک مضمون سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”میں اب سب خواہشوں اور امنگوں سے آزاد ہوچکا ہوں۔ نہ علمی، نہ ادبی اور نہ عملی۔سورج غروب ہورہا ہے اور سائے لمبے ہورہے ہیں۔جلد، بہت جلد میں بھی اس دور دراز کے سفرپر چل نکلوں گا جو جلد یا بدیر ہم سب کو درپیش ہے۔ معمولی سا ٹیلنٹ یا صلاحیت مجھ میں تھی ، اس کو موافق جو کچھ مجھ سے ہوسکا، میں نے کرلیا۔ پچھتاوے بھی نہیں ہیں۔ایک خواہش البتہ ہے کہ جب اس دنیا سے جاؤں ، چلتا پھرتا جاؤں۔کسی کا محتاج ہوئے بغیر، کسی کو جوکھم میں ڈالے بغیر! “

محمد خالد اختر۔ ایک آخر آخر کی تحریر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

image
اس کمرے میں محمد خالد اختر نے ۲ فروری ۲۰۰۲ کو دن گیارہ بجے آخری سانسیں لیں
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300425 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.