میں اگر خاموش رہتا تو گنہگار ہوتا

 ( مدیحہ گل)

سابق ایرانی وزیر اعظم مصدق مرحوم کے اس جملے میں پنہان تاریخ آج پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ رب جلیل ہمیں اس دکھ کی گھڑیوں سے بچا لے جو ایران نے دیکھی۔ ڈاکٹر مصدق ۔۔ایسا انسان جسے تمام مسلم ممالک نے عزت بخشی۔ایسا رہنما جسے امریکہ نے ایک ایجنٹ کریمٹ روز ویلٹ کے ہاتھوں صرف چھ ماہ میں اپنے عبرتناک انجام تک پہنچا دیا کیونکہ اس نے ایران کی تقدیر بدلنا چاہی تھی۔جس پر سامراجی طاقتوں نے آپریشن AJAXکے نام پر پانی کی طرح رقم خرچ کی اور مرگ بر مصدق کا نعرہ ایران میں گونجنے لگا۔افسوس ایرانیوں نے اپنے ہیرو کی قدر نہ کی۔ جب وہ فوجی عدالت میں کھڑا تھا تو اس نے کہا تھا "میں اگر خاموش رہتا تو گنہگار ہوتا" ۔

اہل وطن ہمیں مصدق مرحوم کی حیات زندگی ضرور پڑھنی چاہیے تاکہ حالات حاضرہ پاکستان کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔مصدق نے کہا تھا "جس زمین پر ہم چلتے ہیں وہ ہماری ہے، اور اس میں جو کچھ پیدا ہوتا ہے وہ بھی ہمارا ہے، کوئی ہم سے ہماری زمین، ہمارا سرمایہ نہیں چھین سکتا۔"

ان خیالات کی بنا پر مصدق کے ساتھ جو ہوا وہ تمام دنیا کے لیے سبق ہے۔ ایران میں مافیاز کو مضبوط کیا گیا۔ تاجروں اور منڈیوں کے بیوپاریوں کے ذریعہ مہنگائی کروائی گی۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ لوگوں کی زندگی وبال ہو گئی۔ یہ مصنوعی مہنگائی کنٹرول کرنے میں مصدق حکومت کی انتظامیہ ناکام بنا دی گئی۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ تہران کی گلیوں میں "مرگ بر مصدق" کے نعرے گونجنے لگے۔ عوامی اکثریت مصدق کو چاہتی تھی مگر دارلحکومت تہران میں حالات بدل چکے تھے۔ شاہ نے مصدق کو گرفتار کر لیا۔ سزا کے ابتدائی تین برس قید تنہائی میں گزرے اور اس کے بعد آخری سانس تک وہ اپنے آبائی گھر میں نظر بند رہا۔ کسی کو اس سے ملنے یا اس کے گھر میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔مارچ 1967 میں جب وفات ہوئی تواس کے پاس کوئی اپنا نہ تھا۔ اس کی مقبولیت کے خوف سے شاہ نے اس کا جنازہ نہیں اٹھنے دیا۔ نہ نماز جنازہ پڑھی گئی نہ وہ کسی قبرستان میں دفن ہوا۔ گھر میں ایک کمرے کا فرش کھودا گیا اور ایران کا عظیم دانشور اور کھرا سیاست دان خاک کے سپرد کردیا گیا۔ کیا مصدق کو بیرونی سازش اور سامراجی طاقتوں نے ناکام کیا۔؟ہرگز نہیں اگر ایرانی عوام نہ چاہتے تو کبھی بیرونی روابط صورتحال کا فائدہ نہ اٹھا سکتے۔

ملک اندر سے کھوکھلا ہو تو اسے کسی تباہی کے لیئے بیرونی روابط کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ترقی پذیرممالک کو مافیاز کے ذریعہ کنٹرول کیا جاتا ہے، انہی کے ذریعہ حکومتیں بدلی جاتی ہیں۔ آج ہم رجیم چینج کی بازگشت سن رہے ہیں۔ قریباً ستر سال قبل ایران میں جو ہوا پاکستان میں دہرایا جا رہا ہے۔ یہ مناظر ہمارے بزرگ دیکھ چکے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ جمہوریت میں بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا ۔اس کا مظاہرہ ہم کر رہے ہیں۔ آج وطن عزیز میں جمہوریت بہترین انتقام بن کر ابھری ہے۔ دیکھا جائے تو گزشتہ چند روز قبل جو ہوا وہ سب آئینی تھا مگر حیران کن تھا۔ درخت سے پھل پکنے سے قبل اتار لیا جائے یا دودھ کو جوش دینے کے بعد چولہے پر رہنے دیا جائے نقصان کا باعث بنتاہے۔ اہمیت وقت کی ہوتی ہے۔قومی حکومت یا گیارہ جماعتوں کا اتحاد آئیڈیل ہے مگر وقت مناسب نہیں ہے۔ یہ اتحاد اگر 2018 کے الیکشن کے بعد مل کر حکومت بناتا یا 2023 میں تو قابل قبول ہوسکتا تھا ۔ نہ وفاداریاں تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی نہ اتحادیوں کو ساتھ چھوڑ جانےکی شرمندگی اٹھانا پڑتی۔ عوام بھی اس تبدیلی یا پرانے پاکستان کو قبول کر لیتی۔ نہ مداخلت نہ سازش کا بیانیہ زور پکڑتا۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جنگیں ہمیشہ حکمتِ عملی سے جیتی جاتی ہیں اور کامیابی کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ ہر جنگ کے لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مصدق ہو یا مرسی یا اب ج وغیرہ ہر کسی کے ساتھ ایک ہی طریقہ کار اپنانا ہر بار فوائد نہیں دے سکتا۔ بے ضمیر افراد کو ساتھ ملا کر وقتی فتح ضرور حاصل ہو جاتی ہے پر دائمی کامیابی ممکن نہیں۔ گیارہ جماعتوں کے لیڈروں میں کوئی نہیں جو اپنے حریف کی مانند نڈر اور ڈٹ کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہو سکے۔

Noor Ul Huda
About the Author: Noor Ul Huda Read More Articles by Noor Ul Huda: 85 Articles with 83139 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.