ملک بھر میں عام انتخابات کرانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا
ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کے مطالبے کو جس بیانیہ سے نتھی کیا گیا
، اس پرسوشل میڈیا میں ریاستی اداروں کے خلاف بعض عناصر مذموم مہم چلا رہے
ہیں ، بادی ٔ النظر یہی لگتا ہے کہ نہ جانے اس بد نصیب اور سو بخت قوم پر
کیا گذرے گی۔ اصل یہ ہے کہ جس قوم کی فکری صلاحیتوں کو سلب کردیا جائے ، اس
کا حشر ایسا ہی ہوا کرتا ہے ، وہ قوم ، قوم نہیں رہتی ،بھیڑ بکریوں کا گلہ
بن کر رہ جاتی ہے ، جسے ، جس کا جی چاہے ، جس قصاب کے ہاتھوں ، جس قیمت پر
چاہے فروخت کردے ۔ جہاں تک ان کا تعلق ہے جنہوں نے ملک میں تبدیلی کے سنہرے
خواب دکھائے تھے ، سر دست خواب پریشان بن چکا ہے۔ تبدیلی کے خواہش مندوں کی
ساری آرزوئیں ، سمٹ سمٹا کر اس نقطہ پر مرکوز ہوگئی ہیں کہ کسی طرح اب نئے
آنے والوں کو بھی فارغ کردیا جائے ، چاہے اس کے لیے انہیں بھی کچھ کیوں ہی
نہ کرنا پڑے۔
بات یہ ہے کہ غیر آئینی نظام میں طاقت کا سر چشمہ براہ راست عوام ہوتے ہیں
، وہ ہنگامہ آرائی اور ہلڑ بازی سے اپنی من مانی کرلیتے یا کرالیتے ہیں ،
لیکن آئینی نظام میں طاقت کا سر چشمہ قانون ہوتا ہے ، مثال کے طور پر اگر
کوئی ایک شخص کسی ایسے فعل کا مرتکب ہو جس کے جرم قرار دینے کے لیے کوئی
قانون موجود نہ ہو تو حکومت ، اپنی لا انتہا مادی قوتوں کے باوجود اس شخص
کا مواخذہ نہیں کرسکتی،خواہ پورے کے پورے عوام بھی اس مواخذہ کا مطالبہ
کیوں نہ کریں ، اس کے برعکس اگر کوئی شخص کسی ایسے فعل کا مرتکب ہوتا ہے جو
قانون کی رو سے جرم ہے تو حکومت اسے اپنی گرفت میں لیتی ہے اور جرم ثابت
ہونے کے بعد اسے سزا بھگتنی پڑتی ہے ، اگر ملک کے تمام عوام بھی مطالبہ
کریں کہ اس مجرم کو چھوڑ دیا جائے تو ان کی بات نہیں مانی جاسکتی ۔ ان
مثالوں سے واضح ہے کہ آئینی نظام میں طاقت کا سرچشمہ کوئی ایک فرد ، افراد
کا گروہ یا عوام نہیں ہوتے، طاقت کا سر چشمہ قانون ہوتا ہے ، اسی لیے
قانونی کی حکمرانی کو صحیح نظام سیاست قرار دیا جاتا ہے۔
اب ایک دوسرا سوال یہ ہے کہ دھاندلی کہتے کسے ہیں ؟۔ جو حرکت قاعدے کے خلاف
کی جائے وہ دھاندلی کہلاتی ہے ، غور طلب بات یہ ہے کہ اس دھاندلی کے ازالہ
کے لیے جو کچھ کیا جائے تو وہ کون سے قاعدے اور قانون کے مطابق ہوں۔ ملکی
قانون تو قطعاََ اجازت نہیں دیتا کہ کوئی فرد،یا جماعت قانون کو اپنے ہاتھ
میں لے کر فسادات برپا کرے ، ہنگامے کھڑے کرے ، جانوں کو ہلاک اور املاک کو
تباہ کرے ، لوگوں کو قانون شکنی کے لیے اکسائے ، ملک کا توکوئی قانون اس کی
اجازت ہی نہیں دیتا، لہٰذا ملکی قانون کی رو سے ایسے تمام اقدامات خود
دھاندلی کے زمرہ میں شمار ہوں گے ۔ اب جو یہ کہتے ہیں کہ ہم اصلاح کرنے
والوں میں سے ہیں ، فساد پیدا کرنے والے میں سے نہیں ، لیکن ایک طائرانہ
نظر دوڑائی جائے تو سمجھ میں آجاتا ہے کہ اصلاح کے نام پر جو کچھ کیا
جارہا ہے ، دراصل وہی فساد برپا کرنے والے ہیں ، یعنی اس بات کو نہیں
سمجھتے کہ جو فساد اصلاح کی غرض سے بھی کیا جائے ، وہ بھی فساد ہی ہوتا ہے
، غلط کو اگر غلط کے ذریعے مٹایا جائے تو غلط پھر بھی باقی رہتا ہے ، آپ
تاریکی کو تاریکی کے ذریعے دور نہیں کرسکتے ، اس کے لیے روشنی کرنا ہوگی
کیونکہ اس سے ہی تاریکی دور ہوگی ۔
اب ہو یہ رہا ہے کہ سادہ لوح عوام کے نازک جذبات کو مشتعل کرکے ان سے قانون
کے خلاف عمل کرانے کی روش اپنائی جارہی ہے ، تشدد کے بڑھنے اور اخلاقیات کے
خاتمے کے بعد ملک کو ایک ایسی خانہ جنگی کی جانب دھکیلا جارہا ہے جس کے لیے
یہ جواز بھی گڑھ لیے جائیں گے کہ مظاہروں میں حصہ لینے والوں سے ہم تو نہیں
کہتے کہ وہ لوٹ مار کریں ، عمارات کو آگ لگائیں ، فسادات کریں ہجومی حملے
اور پر تشدد واقعات میں ملوث ہوں ، اس لیے اس کے ذمہ دار ہم نہیں ، لیکن ان
حضرات کو کون بتائے کہ جو مظاہرے آپ کراتے ہیں وہی تو ان تمام فسادات اور
قتل و غارت گری کا موجب بنتے ہیں اور اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ جو چیز
فساد کا ذریعہ بنتی ہے وہ خود فساد سے کم نہیں ہوتی، جرائم کے لیے ذرائع
مہیا کرنے والے بھی برابر کے مجرم ہوتے ہیں۔
اب اگر یہ سمجھا جائے کہ قبل از وقت انتخابات کرانے کے لیے، مطالبات منوانے
کے لیے اسی قسم کا طریق اختیار کرلیا جائے کہ جیسے ملک اور قوم کو یرغمال
بنا لیا گیا ہو۔ آئین اور قانون کے ساتھ جو کھلواڑ کھیلا جارہا ہے ، اس کے
مظاہر تادم تحریر اب بھی بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں ، جس کے بعد آئین اور
قانون کو اس وقت ہی تسلیم کیا جاتا ہے جب فیصلہ مرضی کے مطابق آئے ۔ ملک
ایک ایسی انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے کہ فوری انتخابات بھی اس کا حل نہیں
کیونکہ عدم برداشت کا جو رویہ سیاست میں متعارف کرادیا گیا ہے ، اس سے
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے انتخابات اگر ان حالات میں ہوئے تو
یقینی طور پر خون ریز ہوں گے، سیاسی کارکنان میں جو منفی رویہ سرایت کیا
جاچکا ہے اس میں نفرت کا زہر اس قدر ملا دیا گیا ہے کہ اسے نکالنے کے لیے
نہ جانے کتنا وقت درکار ہوگا ۔
رائج الوقت حکومت اپنے اقتدار کی مدت کو مکمل کرنے سے زیادہ ، اس امر کی
جانب توجہ دے کہ ایسی انتخابی اصلاحات باہمی اتفاق رائے سے منظور کرالی
جائیں کہ اس پر کسی بھی سیاسی جماعت کو اعتراض نہ ہو ۔ انتخابی اصلاحات
کرانا ہی موجودہ حکومت کا اولین ایجنڈا ہونا چاہیے کیونکہ عام انتخابات قبل
ازوقت کرانے کے مطالبات حکومتی اتحاد سے بھی آنے لگے ہیں۔ پھر جو کچھ وطن
عزیز میں ہوچکا اور جس بدتر حالات سے گذر رہا ہے ، اس کا بوجھ کوئی بھی
سیاسی جماعت اپنے کندھوں پر نہیں اٹھانا چاہے گی کہ کل کو جب عوام کے پاس
جائیں تو ان کے پاس، ان سے ووٹ مانگنے کے لیے ، کہنے کو کچھ بھی نہ ہو، ملک
کی حالت اس درجہ خراب ہوچکی ہے کہ اس میں تبدیلی پیدا کرنے کے لیے انتخابی
اصلاحات کے اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں۔
|