حضرت عبداﷲ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ حضوراکرم ﷺنے
مسلمانوں سے ہر غلام اور آزاد پر اور ہر مردو عورت پر اور ہر چھوٹے اور بڑے
پر صدقہ فطرلازم کیا ہے ۔ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو۔اور حکم دیا ہے کہ یہ
صدقہ فطر نمازِ عید کیلئے جانے سے پہلے اداکردیا جائے (صحیح بخاری وصحیح
مسلم )حدیث شریف میں ہے کہ صدقہ فطر روزہ دار کو لغو اور بے ہودہ باتوں سے
پاک کرتا ہے محتاجوں کی خوراک ہے ، صدقہ فطر کے تین فائدے ہیں (1) روزوں کا
قبول ہونا (2) جان کنی کی سختی سے محفوظ رہنا (3)عذاب قبر سے امن پانا ۔
صدقہ فطر کے احکام
جو مسلمان اتنا مالدار ہوکہ اس پر زکوٰۃ واجب ہو یا نہ ہو لیکن ضروری اسباب
سے زائد اتنی قیمت کا مال واسباب ہے جتنی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے یعنی
ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کا مال ا وراسباب ہے تو اس پر عیدالفطر کے
دن صدقہ فطر دینا واجب ہے چاہے مال تجارت ہو یا نہ ہواور اس پر سال گزر چکا
ہو یا نہ گزرا ہو ا صدقہ کو شریعت میں صدقہ فطر کہتے ہیں(درِ مختار)جسطرح
مالدار ہونے کی صورت میں مردوں پر صدقہ فطر واجب ہے اسی طرح اگر عورت کے
پاس کچھ مال اس کی ملکیت میں ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر
ہو مثلاً اسکے پاس زیور ہے جو اسکے والد کی طرف سے اس کو دیا گیا یا خاوند
نے زیور دے کر اس کو مالک بنا دیا ہے تو عورت پر بھی اپنی طرف سے صدقہ فطر
واجب ہے ۔
صدقہ فطر واجب ہونے کا وقت
عید کی صبح صادق کے وقت یہ صدقہ واجب ہوتا ہے اگر کوئی شخص فجر کا وقت آنے
سے پہلے فوت ہوگیا ہو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں ۔ جو بچہ عید کی صبح صادق
کے بعد پیدا ہوا ہو اس کا صدقہ فطر نہیں ہوگا۔(درِ مختار)مستحب یہ ہے کہ
عید کے دن نماز سے پہلے یہ صدقہ فطر دیا جائے عید سے پہلے بھی صدقہ فطر دیا
جاسکتا ہے ۔عید کے دن نہ دیا جائے تو معاف نہیں ہوااس کی قضا کرنی لازم
ہے۔جس شخص نے کسی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے نہیں رکھے اس پر بھی صدقہ
فطر واجب ہے (عالمگیری)ایک آدمی کا صدقہ فطر کئی محتاجوں کو اور زیادہ
آدمیوں کا ایک محتاج کو صدقہ فطر دینا جائز ہے ۔(درمختار)
صدقہ فطر کن لوگوں کو دینا چاہیے
(1)صدقہ فطر کے حقدار بھی وہی لوگ ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں یعنی ایسے
غریب لوگ جن کے پاس اتنا مال نہیں ہے جس پر صدقہ فطر واجب ہے (2)صدقہ فطر
دینے میں اپنے غریب رشتہ داروں اور دینی علم کے سیکھنے سکھانے والوں کو
مقدم رکھنا افضل ہے (درِمختار)ماں باپ، دادی دادا، نانی نانا، اور بیٹا
بیٹی ، پوتا پوتی، نواسہ نواسی کو صدقہ فطر نہیں دے سکتے ۔بیوی اپنے شوہر
کو اور شوہر اپنی بیوی کو صدقہ فطر نہیں دے سکتا (درمختار)بھائی ،بہن
بھتیجا بھتیجی بھانجا بھانجی چچا چچی پوپھا پھوپھی خالہ خالو ماموں ممانی
ساس خسر سالہ بہنوئی سوتیلی ماں سوتیلا باپ ان سب کو صدقہ فطر دینا درست ہے
(شامی )صدقہ فطر سے مسجد ،مدرسہ ، سکول ، غسل خانہ، کنواں ، نلکا ،مسافر
خانہ ،سڑک غرضیکہ کسی طرح کی عمارت بنانا یا کسی میت کے کفن دفن میں خرچ
کرنا یا میت کی طرف سے قرضہ ادا کرنا درست نہیں ہے (درِمختار)کسی نوکر
،خدمتگار امام مسجد وغیرہ کو ان کی خدمت کے عوض تنخواہ کے حساب میں صدقہ
دینا درست نہیں ہے۔جب تک کسی شخص کے صدقہ فطر کے مستحق ہونے کی تحقیق
ہوجائے اس وقت تک اس کو صدقہ نہیں دینا چاہیے اگر بے تحقیق دے دیا پھر
معلوم ہوا کہ وہ غریب ہی ہے تب تو ادا ہوگیا ورنہ دیکھو کہ دل کیا گواہی
دیتا ہے اگر دل مطمئن نہ ہو تو پھر سے ادا کرے (شامی )
عید گناہوں کی بخشش کا دن ہے
حدیث پاک میں ہے کہ جو شخص ماہِ رمضان المبارک میں دن کو روزہ رکھے اور رات
کونوافل ادا کرے اور عید کے دن صدقہ فطر ادا کرکے عیدگاہ میں جائے تو عید
گاہ سے واپس ہونے تک اس کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ عید الفطر تو
رمضان المبارک کی عبادات فاضلہ صوم وصلوٰۃ وغیرہ کی انجام دہی کیلئے توفیق
الٰہی کے عطاہونے پراظہار تشکر ومسرت کے طور پر منائی جاتی ہے یہ ایک دینی
خوشی ہے اور اسکے اظہار کا طریقہ بھی دینی ہی ہونا چاہیے اور اسلامی طریقہ
یہ قرار پایا کہ اﷲ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجا لایا جائے ۔اور بطور شکر
کے عیدالفطر کے دن صدقہ فطر ادا کیا جائے اپنے خالق کی کبریائی بیان کرتے
ہوئے توحید کے ترانے گاتے ہوئے عید گاہ میں جمع ہوکر اجتماعی طور پر سجدہ
ریز ہوجائے اس اسلامی طریقہ پر عید منانے کا طبعی اثر یہ ہونا چاہیے کہ
مسلمان اپنی خوشی کے اظہار میں بے لگام ہوکر نفسانی خواہشات کے تابع پڑنے
سے باز رہے اور دوسری قوموں کی طرح بیہودگی ،بے حیائی اور عیش وعشرت ، لذت
وسرور، انجوائے منٹ اور انٹرٹینمنٹ سے پرہیز واجتناب کرے ۔تفریحی پارکوں
میں تفریح اور عید کے تہوار کے نام پر بے حیائی بے پردگی کا مظاہرہ کرنا یہ
عید منانے کااسلامی طریقہ اور تہوار ہر گز نہیں یہ یہود ہنود کی رسم ضرور
ہے اس سے اجتناب بہت ضروری ہے ۔حضرت سیدہ اماں عائشہؓ،حضرت سیدہ خدیجہ ؓ ،
حضرت سیدہ زینب ؓ حضرت سیدہ ام کلثومؓ، حضرت رقیہؓ اورحضرت سیدہ فاطمہؓ کی
روحانی بیٹیاں تفریح گاہوں اور پارکوں میں بے پردہ ہوکر عید کے مقدس تہوار
کو منانے کا تصور بھی نہیں کرسکتیں،بلکہ وہ اسے اسلامی طریقہ سے منانے کی
پابند ہیں، اسلامی شریعت نے اس عیدالفطر کو عبادت کے طور پرمقرر فرمایا ہے
۔اور اس میں اظہار خوشی کا طریقہ بھی عبادت کی صورت میں مقرر کیا گیا ہے اس
لیے مسلمانوں کو عیدالفطر کے متعلق اس کے خاص خاص احکامات وہدایات کے معلوم
کرنے کی ضرورت ہے ۔زیرِ نظر مضمون میں فقہ کی معتبر کتابوں سے عیدین کے
ضروری احکام کو اسی غرض سے پیش کیا جارہا ہے تاکہ ہم اس پر عمل بھی
کرسکیں،عید الفطر کی نماز کا وقت بقدر ایک نیزہ آفتاب بلند ہونے کے بعد
اشراق کی نماز کے وقت کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے اور زوال یعنی سورج کے
ڈھلنے تک رہتا ہے (درمختار) نماز عید سے پہلے اس روز کوئی نفلی نماز پڑھنا
مکروہ ہے
عید کے مسنون اعمال (یعنی عید کی سنتیں
عید کے دن تیرہ چیزیں سنت ہیں(1)شرع کے مطابق اپنی آرائش کرنا (2)غسل
کرنا(3)مسواک کرنا(4) حسب طاقت عمدہ کپڑے پہننا (5)خوشبو لگانا(6) صبح کو
جلد اٹھنا(7)عید گاہ میں جلد جانا (8) عیدالفطر میں صبح صادق کے بعد عیدگاہ
میں جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا(9)عید الفطر میں عیدگاہ میں جانے سے
پہلے صدقہ فطر اداکرنا (10) عید کی نماز عید گاہ میں پڑھنا بغیر عذر شہر کی
مسجد میں نہ پڑھنا (11)ایک راستہ سے عید گاہ جانا اور دوسرے راستہ سے واپس
آنا (12)عید گاہ جاتے ہوئے راستہ میں اﷲ اکبر اﷲ اکبر لا الہ الااﷲ واﷲ
اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد آہستہ آہستہ کہتے ہوئے جانا(13)سواری کے بغیر پید ل
عیدگاہ میں جانا ۔
نماز عید پڑھنے کا طریقہ
نیت نمازعید:پہلے اس طرح نیت کرے کہ میں دو رکعت واجب نماز عید چھ واجب
تکبیروں کے ساتھ پڑھتاہوں اور مقتدی امام کی اقتدا کی بھی نیت کرے نیت کے
بعد تکبیر تحریمہ اﷲ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھا کر ناف
کے نیچے باندھے اور سبحٰنک اللھم آخر تک پڑھ کر تین مرتبہ امام اﷲ اکبر کہے
اور ہر مرتبہ تکبیر تحریمہ کیطرح دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائے اور دو
تکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑ دے تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لیں ہر تکبیر
کے بعد اتنی دیروقف کیا جائے کہ تین مرتبہ سبحان اﷲ کہا جاسکے ۔ ہاتھ
باندھنے کے بعدا مام اعوذ باﷲ ، بسم اﷲ پڑھ کے سورۃ فاتحہ اور کوئی سورۃ
پڑھے مقتدی خاموش رہے پھر رکوع سجد ہ کے بعد دوسری رکعت میں پہلے امام
فاتحہ اور سورۃ پڑھے اس کے بعد رکوع سے پہلے (دوسری رکعت میں)تین مرتبہ
تکبیر اﷲ اکبر کہی جائے اور تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ باندھے پھر ہاتھ
اٹھائے اور چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع کیا جائے مقتدی امام کے ساتھ ساتھ ہاتھ
اٹھا اٹھا کر تکبیر کہے اور باقی نماز دوسری نماز کی طرح پوری کی جائے ۔
(مراقی الفلاح)
|