علامہ اقبال ؒ کا فلسفۂ غم

 حیاتِ انسانی دو متضاد احساسات غم اور مسرت سے عبارت ہے۔ان دو حالتوں سے انسان کو ضرور بضرور واسطہ پڑتا ہے۔عمومی طور پر مسرت اورخوشی ایک انسان کے لئے پسندیدہ احساس ہے جس کا وہ ہر وقت متلاشی رہتاہے۔ اور یوں ہی غموں سے دامن بچا کے رکھنا بھی اس کی سعیٔ مسلسل قرار پائی ہے۔اسی لحاظ ہر فردِ بشر دنیا میں غم و الم کی پرچھائیوں سے بھی دور بھاگتا ہے۔لیکن اس حقیقت یعنی غم سے دنیائے بشریت کو مفر ممکن نہیں کیونکہ غم زندگی کا جزوِ لاینفک ہے ۔اور اس کو زندگی سے الگ کرنا غیر ممکن ہے۔دراصل جس دنیا میں انسان زندگی بسر کرتا ہے جب وہی غموں اور مصائب وآلام کی آماجگاہ ہو۔تو پھر انسان کس طرح ان مصائب و مشکلات اور غم و الم سے دامن کش رہ سکتا ہے۔دنیا میں رہ کر غموں سے دامن بچانا ایسا ہی ہے کہ جسیے کوئی دریا میں غوطہ ہو کر خود کو پانی کی چھینٹوں سے بچانے کی سعی کرے۔ اس لئے جب تک انسان اس دنیا میں زندگی بسر کرے اسے غموں سے واسطہ پڑتا رہے گا۔ بقولِ غالبؔ
غم اگر چہ جاں گسل ہے پر کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق اگر نہ ہوتا غمِ روزگار ہوتا
غمِ زندگی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

یہی وجہ ہے کہ جہاں انسان نے فنونِ لطیفہ کواپنے پُرمسرت احساسات و جذبات کے لئے وسیلہ ٔ اظہار قرار دیا ۔ وہاں اس نے ظاہری و باطنی درد و کرب کوبھی ان ہی فنون کے ذریعے زبا ن دی۔اظہار ِ غم تو اظہارِ مسرت سے بھی زیادہ شدت رکھتا ہے اور ادب چونکہ زندگی کا آئینہ ہے نیز یہ دنیاوی زندگی گوناگوں رنج و آلام سے عبارت ہے ۔اس لئے ادب میں غمِ زندگی کا عکس ہمیں جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے۔ دنیائے ادب میں حزنیہ تخلیقات کو نکال باہر کیا جائے تو نہ صرف کمیت کے اعتبار سے بلکہ کیفیت کے اعتبار سے بھی یہ دنیا ایک عظیم ادبی سرمایہ سے محروم ہو جائے گی ۔اور یہ دنیا حزنیہ ادب کے بغیر بے ر ونق اور سونی سونی ہو جائے گی۔کیونکہ حزنیہ ادب ہی ہے جو ادبی دنیا کی جان ہے۔ در اصل سوز و گداز اور احساس ِ کرب اہلِ فن کے لئے ایک صفتِ لازمی ہے کہ جس کے بغیر ایک قابلِ اعتنا فن پارے کو وجود بخشنا ناممکن ہے۔اگر ہم گہرائی میں جاکر تلاش کریں تو طربیہ فن پاروں کی تہہ میں بھی فن کار کا ذاتی درد و کرب اور دوسروں کے تئیں احساسِ ہمدردی دیکھنے کو ملے گا۔اردو ادب کو بھی اگر کھنگالا جائے تو درد و الم کے انبار نظر آئیں گے۔شعرائے مقدمین نے پیکرِ شعر میں حزن و ملال کی روح کچھ اس انداز سے داخل کر دی کہ اس پیکر سے ایک عرصے تک بین و ماتم کی صدائیں بلند ہوتی رہیں۔ چند ایک شعرا ء نے بھی اپنی حقیقی زندگی کے درد و کرب کو شاعری میں منعکس کیا ۔اور جس کی زندگی میں غم والم کا پہلو غالب نہ رہا اس نے کسی نہ کسی بہانے اپنی شاعری میں غم آفرینی اور اشک ریزی کو شیوہ بنایا۔قریب قریب تمام شعرا نے اپنے درد و کرب کو شاعری کے سانچے میں پیش کیا ۔ تمام کے تمام حزنیہ کلام کو جمع کرنا اور اس پر تنقیدی نگاہ ڈالنا ایک دقت طلب کام ہے اگر فقط عظیم اور صف ِ اول کے شعرا ء کے کلام پر سرسری نظر دوڑائی جائے تو ان میں بھی ایک درد و کسک قدر مشترک کے طور دکھائی دے گا۔قدرتی امر ہے کہ لاثانی شاعری کے لئے ایک شاعر کا صاحبِ دل ہونا لاز می ہے اور صاحبِ دل ہونے کا لابدی نتیجہ صاحب ِ درد ہونا ہے۔ کیونکہ جس سینے میں ایک حساس دل ہو گا اس میں ضرور بضرور دردو کرب ہوگا۔ البتہ فکر ی اختلاف کے مطابق ان کا ہم و غم میں بھی مختلف ہو سکتا ہے۔ ان نمائندہ شعرا ء میں بھی میر تقی میرؔ ،میر انیس ؔ، مرزا غالبؔ اور علامہ اقبا ل کو اردو ادب میں مرجعیت اور مجتہدانہ مقام حاصل ہے ۔میر انیس نے کربلا کو اپنے فکر و فن کی جولانگاہ بنایا۔اور غمِ حسین ؑ کو اپنی شاعری کا بنیادی مرکز و محور قرار دیا۔ انہوں نے آلِ پیغمبر ؐکے مصائب و آلام کے سوا کسی بھی موضوع کو موضوعِ سخن بنایا۔اور دیگر موضوعات کو اپنے فکرو فن کے شایان ِ شان نہیں سمجھا۔ایسا لگتا ہے کہ میر انیس ؔ کا قلم جب تک چلتا رہا ،روشنائی کے بدلے صفحہ ہائے قرطاس پرآنسوبکھیرتا رہا۔
رونے سے فراغ اب کسی روز نہیں
ہے غم کوئی دم جانِ غم اندوز نہیں
جز درد نہیں کوئی ہمارا ہمدرد
جز داغ کوئی اپنا جگر سوز نہیں

میر تقی میرؔکے کلام کو پر تاثیر بنانے میں ان مشکلات و آلام کا کافی عمل دخل ہے جن کا انہوں نے اپنی پوری زندگی میں سامنا کیا ۔میرؔ نے ذاتی زندگی کے خار زاروں میں جس چبھن اور کسک کو محسوس کیا اس کو نہایت ہی چابکدستی سے جامۂ شعر میں پیش کیا۔انہیں غمِ زندگی سے آخری دم تک فراغ نصیب نہ ہوا ۔ میرؔ کے دم میں جب تک دم رہا اس کا غم سے کسی نہ کسی طور واسطہ رہا۔یہی وجہ ہے کہ دیوانِ میر سوز وگداز اور درد کسک کا ایک خزینہ ہے۔ ان کا یہ کہنا بجا ہے ؂
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوا ن کیا

میرؔ کے یہاں نالہ و شیون اور بین و ماتم نہیں ملتا کہ عام و خام ان کی آہوں اور فریادوں سے واقف ہو۔ بلکہ وہ گوشہ نشینی میں کسی درد آشنا کو اپنادکھ درد سر گوشی کے ذریعے گوش گزار کرانا چاہتے ہیں۔ ؂
سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

غالب ؔجیسا زندہ دل شاعر اور’’ حیوا ن ِ ظریف‘‘ بھی زندگی کے غم والم سے بچ نہ پایا ۔ انہوں نے غم کو ایک ناگزیر حقیقت کے طور گلے لگایا۔ وہ کسی مثالیت پسند (idealistic)شخص کی طرح رنج و حزن کا منکر نہیں ہے ۔وہ زندگی کی اس کیفیت کے حوالے سے بھی ایک حقیقت پسندانہ رویہ رکھتے ہیں ؂
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
قید ِ حیات بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

البتہ غالب ؔمصائب و آلام سے بد دل ہوئے نہ خوف زدہ ۔انہوں نے نہایت ہی خندہ پیشانی کے ساتھ تمام تر مشکلات کو نہ صرف قبول کیا بلکہ ان مشکلات کو ایک انوکھی جہت دے کر اپنی شاعری میں پیش کیا۔غالب ؔ نے غمِ زندگی کا اظہارہمیشہ ظریفانہ لب و لہجے میں کچھ اس طرح کیا کہ ایک قاری بیک وقت غالبؔ کے درد و کرب کو بھی محسوس کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی ظرافت کی مٹھاس سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے۔ اور یہی اندازِ بیاں نہ صرف غالبؔ کے کلام کی بلکہ اردو شاعری کی معراج ہے کہ دردوغم کو ہنس ہنسا کر یوں بیان کیا جائے کہ نہ غم کا احساس زائل ہو نے پائے اور نہ ہنسی مذاق کی چاشنی معدوم ہو جائے۔ ؂
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا کیجئے ہائے ہائے کیوں؟

المختصر اردو کے قریب قریب تمام عظیم شعرا نے اپنے فکرو نظر کے اعتبار سے حزنیہ احساسات کو شعری پیکر عطاکیا ہے اس سلسلے میں معروف ماہر اقبالیات خلیفہ عبد الحکیم نے اپنی معرکتہ الآرا کتاب ’’فکرِ اقبال‘‘میں ایک جگہ لکھا ہے کہ’’ ہمارے ہاں غم کی مداح سرائی سے شاعری بھر گئی اور اردو شاعری کے کمال میں مرثیہ پیدا ہوا۔ اکثر شاعروں کا تغزل بھی اپنی اپنی زندگی کا مرثیہ ہی ہے ۔ غم حقیقت میں نہ بھی ہو تو بھی غم کی مدح سرائی شاعری کا شیوہ بن گیا۔ غمِ روز گار نہ سہی غمِ عشق ہی سہی ، تمام زندگی غم کدہ بن گئی۔ ‘‘

غم انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہے اس کے بغیر کتابِ زندگی ادھوری ہے۔ اگر تصویرِ حیات میں درد و الم کی رنگ آمیزی نہ ہو تو یہ تصویر نہایت کی بودی اور پھیکی ہوگی۔علامہ اقبالؒ نے فلسفیانہ انداز میں غمِ زندگی کا انسانی زندگی کے ساتھ ایک گہرے ربط کوبیان فرمایا ہے اور ایک خوبصورت پیرایہ میں اس کی اہمیت و افادیت ظاہر کی ہے۔ان کے مجموعہ کلام ’’بانگِ در‘‘ا میں ایک نظم بعنوانِ’’ فلسفہ غم‘‘ شامل ہے۔ اس نظم میں غم ہمہ جہت پہلو اجاگر کئے گئے ہیں خاص طور سے غم کے مثبت پہلو کو یوں اجاگر کیا ہے کہ قاری کو غم و الم میں ایک عجیب قسم کی جاذبیت و کشش محسوس ہوتی ہے۔اور اس کیفیت کے حوالے سے ایک مختلف نقطۂ نگاہ سے وہ آشنا ہوتا ہے۔جس قدر ایک قاری علامہ اقبال کے فلسفہ غم سے واقف ہوتا جائے گا غم کے متعلق اس کی کراہت کم ہو تی جا ئے گی۔ اور پھر ایک منزل آئے گی جب وہ غم کو اپنا حریف نہیں بلکہ اپنا حلیف سمجھے گا۔او روہ غمِ زندگی کو اپنی زندگی کا قیمتی اثاثہ قرار دے گا۔علامہ اقبال ابتدائی بند میں فرماتے ہیں ؂
گو سراپا کیفِ عشرت ہے شرابِ زندگی اشک بھی رکھتا ہے دامن میں سحابِ زندگی
موجِ غم پر رقص کرتا ہے حبابِ زندگی ہے الم کا سورہ بھی جزوِ کتاب ِ زندگی

درج بالا بند کے ابتدائی شعر میں علامہ اقبال نے’’ کیفِ عشرت ‘‘اور ’’اشکِ غم ‘‘جیسی اصطلاحات کو استعمال کر کے دراصل زندگی کی دوایسی متضادکیفیات کا ذکر کیا ہے کہ جونہ صرف حیاتِ انسانی کے لئے نہایت ہی ضروری ہے بلکہ ان کا وجود ایک دوسرے پر موقوف ہے۔چنانچہ کہا جاتاہے ’’تعرف الاشیاء باضدادہا۔ یعنی چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے ۔‘‘اور یہ کلیہ رنج و مسرت جیسی کیفیات پر بھی صادق آتا ہے اگر غم و الم کی سیاہ رات نہ ہو تو خوشی و انبساط کا آفتابِ جہاں تاب طلوع ہو سکتا ہے نہ غروب۔لہٰذا رنج اور راحت و مسرت میں وہی تعلق ہے جو روز و شب، سیاہ و سفید،آگ اور پانی،پست و بالا نشیب و فراز کے مابین ہے۔بالفرض اس دنیا میں خوشی ہی خوشی ہو اور غم کا کہیں نام و نشان بھی ہو تو کیا کسی بھی فرد ِ بشر کو خوشی کا خوشگوار احساس ہوگا؟کیونکہ پیاس سے ہی پانی کی قدرو قیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔جب موسم خزاں میں چاروں اور مردنی چھا جاتی ہے تو بہار کی آمد اور اس کے طفیل زندگیٔ نو کی طلب ہر جمال پسند فرد کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے۔قانونِ قدرت کے مطابق ـ’’قدرِ نعمت بعدِ زوالِ نعمت ‘‘ہی ہوا کرتی ہے۔ بڑھاپے میں ہی جوانی کی قدرو قیمت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ بالفرض موت نہ ہو تو زندگی کتنی بے قیمت ہو گی۔ کیونکہ یہ موت ہی ہے جو زندگی کو گراں بہا بنا دیتی ہے۔ غرض ہر وہ بظاہر منفی کیفیت ہر مثبت کیفیت کے لئے پس منظر کی حیثیت رکھتی ہے ۔ قرآنِ کریم کی ایک صریح آیت بھی اسی قسم کے مفاہیم کی تائیدکرتی ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ ان مع لعسر یسرا یعنی بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بالفاظِ دیگر مشکل اور آسا ئش کے مابین چولی دامن کا ساتھ ہے۔

نقل شدہ بند کے دوسرے شعرمیں نہایت ہی چابکدستی کے ساتھ علامہ اقبال ؒنے پانی کی موج،بلبلہ ، سورہ الم ،اور کتاب کو بطور استعارہ استعمال کیا ہے۔ علامہ اقبا ل اس شعر میں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اس دنیاوی زندگی میں سمندر کی مانند ہمیشہ مد جزر رہتا ہے۔ جسے زندگی کے سمندر میں ایک حرکت پیدا ہوتی ہے ۔ کشمکش ِ زندگی میں جو اتار چڑھاؤنہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔مولانا غلام رسول مہر اس شعرکی تشریح میں رقمطراز ہیں کہ’’ زندگی کو بلبلا اس لئے کہا کہ وہ بہت ناپائیدار ہے پھر بلبلا پانی میں اسی جگہ پایا جاتاہے جہاں موجیں اٹھیں۔لہٰذا فرمایا کہ زندگی کا بلبلا غم کی موج پر رقص کرتی ہے‘‘شعر کے دوسرے مصرعے میں کتابِ مبین یعنی قرآنِ مجیدکی ایک کے چند ایک حروف ِ مقطعات کو مستعار لے کر ایک لفظِ الم مرتب کیا گیا ہے۔اور یہ بتایا گیا ہے کہ جس طرح سورہ الم قرآنِ مجید کا جزوِ لاینفک ہے اس طرح الم یعنی غم کا سورہ بھی زندگی کی کتاب کا بھی ایک لازمی جز ہے۔

گویا اس انسان کی زندگی ادھوری ہے جسے غم سے پالا نہ پڑا ہو۔اور انسانی شخصیت کے تکامل میں مصائب و مشکلات اور درد و تکلیف کا ایک اہم عمل دخل ہے ۔بلکہ جو جس قدر کامل تر شخصیت ہوگی اس نے اتنی ہی آزمائشیں اور آلام و مصائب جھیلے ہوں گے۔تاریخِ انسانیت اس حقیقت کی گواہ ہے کہ اکثر و بیشتر عظیم اور برگزیدہ انسان گوناگوں مشکلوں اور سختیوں سے نبرد آزما ہوئے۔انہیں کافی ستایا گیا۔اور اس لحاظ سے انہیں زندگی بھر غم سے ایک گہرا تعلق رہا۔اور انہوں نے اس غم کو متاعِ زندگی سمجھ کر سینے سے لگا کر رکھا۔کیونکہ اس کے بغیر ان کی کاملیت ناممکن تھی۔
ایک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں
جو خزاں نادیدہ ہو بلبل وہ بلبل ہی نہیں۔

آرزو کے خون سے رنگین ہے دل کی داستان
نغمۂ انسانیت کامل نہیں غیر از فغاں
حادثاتِ غم سے ہے انسان کی فطرت کو کمال
غازہ ہے آئینہ ٔ دل کے لئے گردِ ملال

انسان کی زندگی کا ایک اہم اورسنہرا دور جوانی کا دور ہوتا ہے ۔ دورِ شباب ہی وہ تقدیر ساز دور ہے جس میں لوحِ حیات پر ایک انسان اپنی کامیابی یا ناکامی کا عنوان لکھ دیتا ہے۔عمومی نظریہ کے مطابق جوانی مستی ومسرت اور عیش و عشرت کی زندہ علامت ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ جب اس دورِ میں کیف و سرور کی چاشنی سے ایک فردِ بشرلطف اندوز نہ ہوجائے تو پھر اس کا جینا بے کار ہے۔ مگر علامہ اقبال یہاں بھی عمومی نظریہ سے ہٹ کر ایک خاص اندازِ فکر رکھتے ہیں۔ وہ عیش کوشی اور تن آسانی کو جوانوں کے لئے جواں مرگی کے مترادف قرار دیتے ہیں۔علامہ’’ شکوہ ِ خسروی‘‘ کے بجائے ’’زورِ حیدریؑ‘‘ اور استغنائے سلمانی‘‘جیسی صفات سے قوم کے جوانوں کو متصف دیکھنا چاہتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے یہ صفتیں لذت اندوزی سے نہیں بلکہ ’’سحرا نوردی‘‘ اور’’ سخت کوشی ‘‘ کی راہ میں گامزن ہو کر ہی حاصل ہوتی ہیں۔اس لئے علامہ اقبال ؒ ملت کے نوجوان کے متعلق ہر خاص و عام کی طرح بارگاہِ خداوندی میں دست بدعا ہو کر یہ دعا نہیں مانگتے کہ پروردگار انہیں ہر قسم کے غم و الم اور مشکل و مصیبت سے دور رکھے۔ بلکہ اقبالؒ اسے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں۔

کیونکہ عیش و طرب ایک نوجواں کو فکرِ دوش و فرداسے غافل کر دیتا ہے۔اور نتیجتاً دور اندیشی کا ملکہ ماند پڑھ جاتا ہے ۔ سنجیدگی و متانت رخصت ہوتی ہے۔کچھ کر گزرنے کی چاہ آہستہ آہستہ معدوم ہو جاتی ہے۔ہمدردی اور دلسوزی کے جذبے کو عیش کوشی سر ابھارنے نہیں دیتی۔جذبۂ ایثار خود غرضی کے ہاتھوں شکست فاش سے دوچار ہوجاتا ہے۔نفس پرستی ،خداجوئی کی راہ میں سدِ راہ بن جاتی ہے۔اسی لئے لازمی ہے کہ ایک نو جوان کسی نہ کسی صورت غم و الم سے دو بدو ہو ؂
غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطفِ خواب سے ساز یہ بیدار ہوتا ہے اسی مضراب سے
طائرِ دل کے لئے غم شہپرِ پرواز ہے راز ہے انساں کا دل ،غم انکشافِ راز ہے
غم نہیں غم ، روح کا اک نغمۂ خاموش ہے
جو سرودِ بربطِ ہستی سے ہم آغوش ہے

دردمندی اور غمخواری ایک ایسی صفت ہے کہ بیداری کی نشانی ہے ۔بالفاظ دیگر جو نوجوان دردمند نہ ہو گویا وہ خوابِ غفلت کا شکار ہے ۔ علامہ اقبال کے روحانی پیر و مرشد مولانا رومی نے اسی نکتے کو اپنے خاص لب و لہجے میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے
ہر کہ او بیدارتر پر دردتر

یعنی حقیقی بیداری انسان کو دیگر مخلوق ِ خدا کے تئیں ہمدردی عطا کرتی ہے۔اور اس بیدار کے لئے صاحبِ درد ہونا نہایت ہی لازمی ہے۔نیز صاحبِ درد وہی ہو سکتا ہے کہ جس نے دکھ اور درد کا مزہ چکھا ہو۔

زیرِ بحث نظم کے اگلے بند میں علامہ اقبال ؒ اس شخص کی حرمان نصیبی اور کم مائیگی کا برملا اظہار کرتے ہے کہ جو’’ شرابِ عیش و عشرت‘‘ پی کر ہمیشہ مست و مگن رہا۔ جس کے دل پر غم کی چوٹ نہ پڑ ی ہو۔ اس نے زندگی گزار کر بھی حقیقتاً زندگی کا مزہ چکھا ہی نہیں۔ دیدۂ گریاں ہی حقیقت میں دیدۂ انسان ہے ۔ وہ آنکھ کسی پتھر کے تراشے ہوئے بُت کی آنکھ سے بھی بد تر ہے جو کبھی آنسوؤ ں سے لبریز نہ ہوئی ہو۔

شام جس کی آشنائے نالۂ’’یارب‘‘ نہیں جلوہ پیرا جسکی شب میں اشک کے کوکب نہیں
جس کا جام ِ دل شکستِ غم سے ہے نا آشنا جو سدا مست ِ شرابِ عیش و عشرت ہی رہا
ہاتھ میں جس گلچیں کا ہے محفوظ نوکِ خار سے عشق جس کا بے خبر ہے ھجر کے آزار سے
کلفتِ غم گر چہ اس کے روزوشب سے دور ہے زندگی کا راز اس کی آنکھ سے مستور ہے
اے کہ نظمِ دہر کا ادراک ہے حاصل تجھے
کیوں نہ آساں ہو غم و اندہ کی منزل مجھے

حاصل کلام یہ کہ علامہ اقبال ؒ نہ صرف غم کوفطرت کے عینِ مطابق سمجھتے ہیں بلکہ اس کی اہمیت و افادیت کے بھی حد درجہ قائل ہیں۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جس طرح وہ حیات و کائنات کے حوالے سے اپنا ایک خاص فلسفہ رکھتے ہیں اسی طرح ان کا فلسفہ ٔ غم دیگر شعراء سے بہت حد تک مختلف ہیں۔ ان کے دل میں بھی حزن و ملال کی کیفیت مستقل سکونت رکھتی ہے ۔اور ان کی آنکھیں بھی اکثر و بیشتر اشکبار رہیں ۔ لیکن اس حزن و ملال اور اشک ریزی کی ایک مخصوص علت تھی ۔ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ ہر قسم کا رنج و غم آ کے دلِ اقبال میں ڈھیرا جمائے کیوں انہوں نے ہمیشہ اس غم کو گلے لگایا جو اس کی شخصیت اور مقصدیت کے شایانِ شان تھا ۔وہ خالق ِ رنج و مسرت سے مخاطب ہو کر دعا گو ہیں ؂
من از غم نمی ترسم ولیکن
مدہ آں غم کہ شایانِ دلی نیست

ترجمہ: میں غم سے خوف زدہ نہیں ہوں۔مگر وہ غم نہ دے جو دل کے شایانِ شان نہ ہو۔
 

Fida Hussain
About the Author: Fida Hussain Read More Articles by Fida Hussain: 55 Articles with 54479 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.