سیمابؔ اکبرآبادی کا شمار بیسویں صدی کے اوائل کے ان شعراء میں ہوتا ہے
جنہوں نے مختلف اصناف سخن مثلاً غزل، نظم، قصیدہ ، رباعی، مثنوی، مرثیہ،
سلام ، نوحہ اور نعت وغیرہ میں فکری و فنّی التزام کے ساتھ کامیاب اور صحت
مند تجربے کرکے ایوان اردو شاعری میں اپنا مخصوص مقام بنایاہے۔
سیماب اکبرآبادی کا اصل نام عاشق حسین اور سیماب تخلص تھا ۔ ان کی
ولادت5؍جون 1880ء کو اکبر آباد ،موجودہ آگرہ میں ہوئی تھی ۔ ان کے والد کا
نام مولوی محمد حسین تھا ۔سیماب کی احوال پر ایک نظر دالی جائے تو اندازہ
ہوگا کہ انھوں نے ادب کو اپنی زندگی سے تعبیر اور تعمیر کر لیا تھا ۔ جس کے
اثرات ان کی تین نسلوں تک دیکھنے کو ملی ۔ ’’شاعر ‘‘ وہ ادبی رسالہ ہے جس
نے طویل مدت تک اردو زبان و ادب کی آبیاری کی اور جو خدمات انجام دی ہے ،وہ
اردو زبان و ادب کی تاریخ کا اہم اور باوقار حصہ ہے ۔جس کا اعتراف بڑی بڑی
قدآور ادبی شخصیات نے کیا ہے ۔ ویسے توسیماب نے کلیم عجم میں ’’شعر
الحیات‘‘ کے تحت اپنی تصنیفات و تالیفات کی تعداد284 لکھی ہے۔لیکن میرے علم
میں جو ان کا قیمتی اثاثہ سامنے آیا ہے ۔وہ اس طرح ہے ۔(1) ساز و آہنگ
(نظمیں1941ء)(۲) سدرۃ المنتہیٰ(غزلیں 1946ء)(۳)شعر انقلاب(نظمیں1947ء)(۴)
عالم آشوب(تاریخی رباعیاں1943)(۵) کارامروز(نظموں کا اوّل مجموعہ1934ء)(۶)
کلیم عجم (غزلوں کا اوّل دیوان1936ء)(۷) لوح محفوظ (غزلوں کا تیسرا
دیوان1979ء)(۸) نیستاں (نظمیں 1925ء)(۹) دستور الاصلاح(فن اصلاح پر
کتاب1940ء)(۱۰) راز عروض (عروض پر اہم کتاب1923ء)۔ سیماب کی یہ ساری کتابیں
اس بات کی غمّاز ہیں کہ سیماب نے اردو شاعری کے دامن کو وسیع کرنے میں اپنی
صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے اردو شاعری کو اپنے دور میں حسن و
معیار بخشنے میں کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس لئے ان کا جائزہ ہمیشہ اس وقت
اور دور کے تقاضوں کے مطابق ہی ہوگا ۔یوں تو سیماب نے اردو شاعری کی کئی
اہم اصناف پر طبع آزمائی ہے اور خود اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ
میخانۂ سخن کا گدائے قدیم ہوں ہر رنگ کی شراب پیالے میں ہے مرے
لیکن سیمابؔ غزل کے سلسلے میں ہمیشہ تذبذب کے شکار رہے ۔ اس کی وجہ میرے
خیال میں اس وقت ایک جانب غزل کی مقبولیت اور دوسری طرف حالیؔ وغیرہ کی
مخالفت تھی جس کی بنا پر سیمابؔ کہتے نظر آتے ہیں کہ․․․
’’ ایک غزل کی جامعیت بعض اوقات ہزاروں نظموں سے بڑھ جاتی ہے۔‘‘
(کلیم عجم۔ خطبات ،2)
دوسری طرف سیماب ؔ کا یہ خیال بھی ملتا ہے کہ___
میں غزل میں پاکیزہ تغزل کا مخالف نہیں ، لیکن شاعری کو محض تغزل تک محدود
رکھنا بھی نہیں چاہتا ، میں جانتا ہوں کہ اردو شاعری میں غزل اس وقت ایک
مدقوق مریضہ کی حیثیت رکھتی ہے اور اندیشہ ہے کہ اگر اسے صحیح صورت میں
زندہ رکھنے کی کوشش نہیں کی گئی تو وہ ہمیشہ کے لئے فنا ہو جائے گی۔‘‘
اس کے بعد سیمابؔ اپنے خیال کو بھی ردّ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
’’ میں نظم کو غزل پر ترجیح دیتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ شعراء غزل سے زیادہ
نظم گوئی کی طرف متوجہ ہوں ۔ اس لئے کہ غز ل جس چیز کا نام ہے ، وہ اپنی
قدامت و کہنگی کی وجہ سے اب زیادہ کار آمد نہیں رہی۔ شعرا ء منتفر نہاس صنف
کو بہ تمام و کمال پامال اور ختم کرچکے ہیں___منتہیٰ شعراء کے لئے بھی غزل
میں اجتہاد ایجاد کی گنجائش بہت کم باقی ہے ۔مگر نظم کا میدان ہنوز وسیع
ہے۔اور یہ صنف سخن اردو شاعری کو کارآمد اور مفید بنا سکتی ہے اس لئے زیادہ
تر توجہ اس کی طرف ہونا چاہئے۔‘‘
سیمابؔ نظم کو غزل پر کیوں ترجیح دیتے ہیں اس کی وجہ سیمابؔ کے عہد کی
غزلوں کے مطالعہ سے واضح ہو جاتی ہے ۔ اور ان اسباب کا بھی پتا چلتا ہے ،
جن کے باعث سیمابؔ نے غزل کو قدامت پسند صنف سخن ٹھہرایا اور اس کی جانب
توجہ نہ دینے کی تلقین کی۔
سیمابؔ جس عہد میں سانس لے رہے تھے اس عہد اور اس زمانہ میں انسان مختلف
قسم کے مسائل سے دوچار تھا ۔غلامی کا طوق گلے میں تھا ۔ عزت وقار ، خاندانی
روایتیں اور قدریں دم توڑتی نظر آرہی تھیں ۔ روزی روٹی کا مسئلہ عفریت کی
طرح سامنے کھڑا تھا ۔ انقلابی طاقتیں بھی سر ابھار رہی تھیں ۔ان حالات میں
ہمارے شعراء جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وقت کا نباض ہوتا ہے ۔ وہ
حسن و عشق ، جام و صبواور شمع و پروانہ کی باتیں اپنی غزلوں میں کررہے تھے
۔ اس امر کو ایک حساس شاعر کیونکر برداشت کرسکتا تھا۔ اس لئے سیمابؔ یہ
کہنے پر مجبور ہوئے کہ ___
’’ ایک شاعر اگر اسے اپنے فرض کا احساس ہے اور وہ زمانہ کا نبض شناس ہے
توہزاروں نبرد آزما جوانوں سے بہتر ہے۔‘‘
سیمابؔ ہمیشہ شاعری میں صحت مند رویے کے پیرو کا ر رہے اور وہ چاہتے تھے کہ
وہ دوسرے شعراء خواہ وہ ان کے ہم عصر ہوں یا ان کے شاگرد ، شاعری میں حسن و
عشق ، گل و بلبل، شمع و پروانہ اور جام وصبو وغیرہ جیسے پرانے اور روایتی
موضوعات کو جگہ دے کر صرف تفریح کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ وقت کے اہم تقاضوں
کو سمجھیں اور بلند خیالی اور بلند نگاہی کے ساتھ ساتھ اپنے مشاہدے اور
مطالعے کا ثبوت دیتے ہوئے اول درجہ کی شاعری کا نمونہ پیش کریں اور شاعری
کے وقار اور عظمت کو بلند کریں ۔ گیا (بہار) میں منعقدہ 24؍ دسمبر1922ء کے
ایک مشاعرے میں اپنے پہلے خطبہ میں سیمابؔ نے ان ہی باتوں کی جانب اشارہ
کیا تھا۔
’’ اردو شاعری کی اجزائے ترکیبی جب تک صرف گل و بلبل ، شمع و پروانہ ، سرو
قمری اور شانہ و زلف سے وابستہ رہے ، شاعری کو صرف تفریح کی خاطر ایک ذریعۂ
مسرور سمجھی گئی ۔ لیکن قدرت نے لکھنؤ، دہلی اور پانی پت کے بعض فاضل
عمائدین کے دماغ کو انوار شاعری سے تجلی کرکے دنیائے سخن کی فضائے بسیط پر
رشد و ہدایت کی بجلیاں چمکائیں۔‘‘
لیکن ایسی بات بھی نہیں کہ ایسی شاعری جس کے سیمابؔ مخالف تھے ، صرف غزلوں
میں ہی پائی جاتی تھیں ۔ بلکہ اس زمانے کی نظموں میں بھی اسی طرح کے اظہار
جگہ پاتے تھے۔پھر بھی غزل کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی ۔جس وجہ کر سیمابؔ
اس سلسلے میں برابر تذبذب میں مبتلا رہے اور خود بھی خوب سے خوب تر غزلیں
کہتے رہے۔لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ
شگفتِ خاطر اے سیمابؔ تھی جو شاعری پہلے
طبیعت پر وہ اب اک بار سا معلوم ہوتی ہے
سیماب ؔکی غزلیں ’’کلیم عجم ‘‘ سدرۃ المنتہیٰ سے ’’لوح محفوظ‘‘ تک پہنچتے
پہنچتے ان کے فکرو خیال کی بلندی ، احساسات و جذبات کی رنگا رنگی ، حیات و
کائنات کی تنقید ، تفسیر اور تعبیر تمام تر فنی بالیدگیوں کے ساتھ نظر آنے
لگی تھیں اور اپنے مخصوص اور منفرد لب و لہجہ کی وجہ کر اپنے ہم عصر شعراء
میں بہت زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل کرچکی تھی ۔ جس سے ان کے ہم عصر شعرا
ء کو حسد کا موقع ملا ۔ خاص طور پر سیماب ؔ کی غزل کا ایک شعر
وہ سجدہ کیا رہے احساس جس میں سر اٹھانے کا
عبادت اور بقید ہوش توہین عبادت ہے
اس سے مخالفت بڑھی اور ان کے ہم عصروں کو موقع ملا کفر کا فتویٰ صادر کرنے
کا۔لیکن سیمابؔ نے کبھی ان سب باتوں کی پرواہ کی اور نہ ان فضولیات میں پڑے
۔بلکہ اپنے فکر و فن ،احساس و جذبات ، مطالعہ و مشاہدہ سے اردو شاعری کا
دامن بھرتے رہے۔
’’کلیم عجم‘‘ اور سدرۃ المنتہیٰ ‘‘ سے ’’لوح محفوظ‘‘ تک سیماب ؔاکبر آبادی
کی غزلیہ شاعری کا سفر خاصا طویل رہا ہے اور اس طویل سفر کا جائزہ لیا جائے
تو اندازہ ہوتا ہے کہ آج جو غزلوں کا مزاج اور معیار بدلا ہوا دیکھنے کو مل
رہا ہے اس کا کریڈٹ کسی حد تک سیمابؔ کو جاتا ہے کیونکہ سیمابؔ نے ہمیشہ
ایسی غزلوں کی مخالفت کی جو صرف تفریح طبع کے لئے کی جاتی رہیں اور عصری
مسائل اور عصری تقاضوں سے لا تعلق رہیں اس کے برعکس سیماب ؔنے اپنے ارد گرد
کے حالات کا بغور مطالعہ و مشاہدہ کیا۔ اور انہیں اپنی غزلوں میں ایک نئے
رنگ و آہنگ کے ساتھ پیش کیا ۔اسی لئے برسوں قبل کہے ہوئے سیمابؔ کے اشعار
آج کے شاعرانہ مزاج کی نمائندگی کررہے ہیں ۔اس ضمن میں چند اشعار ملاحظہ
فرمائیں
کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
دبا رکھا تھا جس کو ضبط نے غربت کے سینے میں
وہ شورش اب جہاں میں جابجا معلوم ہوتی ہے
٭
ہیں اب آزاد مثلِ نکہت و رنگ چمن ہم بھی
وطن کو چھوڑ کر سمجھے ہیں مفہوم وطن ہم بھی
٭
جسے نہ تجربہ ہو رنج نا رسائی کا
وہ کارواں ہیں میرے پیر کارواں نہ بنے
٭
کل کسی قافلے میں جن کا نہ تھا کوئی مقام
آج وہ قافلہ سالار نظر آتے ہیں
٭
تغیرات ہیں مجھ میں بھی زندگی کی طرح
کبھی کسی کی طرح ہوں ، کبھی کسی کی طرح
٭
بھلادوں کس طرح سیمابؔ صد سالہ تعلق کو
مرا سرمایۂ ماضی ابھی ہندوستان میں ہے
٭
کہاں ہے سیمابؔ کا وہ دل اب جو اس کے پہلو میں جستجو کی
گھٹا ہوا سا دھواں ملے گا ، اڑی ہوئی خاک میں ملے گی
٭
پھیلے تو یوں کہ چھاگئے کل کائنات پر
سمٹے تو اس قدر کہ اک جاں میں رہ گئے
٭
نہیں جس میں تحمل مشکلات راہ منزل کا
وہ پچھتائے گا اے سیمابؔ میرا ہم سفر ہوکر
٭
مجھے کیوں انقلاب حال پر سیمابؔ حیرت ہو
کہ ایسے انقلاب آتے رہتے ہیں ہر زمانے میں
٭
شعر یوں کہتا ہے بے فکر و تکلف سیمابؔ
جیسے اس شخص کو الہام ہوا کرتا ہے
بہت سارے ایسے اشعار سیمابؔ کی غزلوں میں ملتے ہیں جو انقلابیت، وطن دوستی
، ترک وطن کا کرب، وطن کی یاد، دوستوں کی رفاقت ، حیات و کائنات کے اسرار
ورموز ، خدا کی قدرت اور اس کی کرشمہ سازیاں وغیرہ جیسے اہم موضوعات میں
رومانیت و اشاریت کا حسین امتزاج موجود ہیں۔
سیماب ؔکی ابتدائی غزلوں میں رومانیت اور مناظرِ فطرت کی ایسی کیفیات پوری
شدت کے ساتھ ملتی ہیں ،جس میں جذباتیت بھی ہے اور احساس کی رنگینیاں بھی
۔لیکن عریانیت یا عامیانہ اور سطحی باتوں کا کہیں پر بھی دخل نہیں ہے۔ اس
سے سیمابؔ نے ہمیشہ پرہیز کیا۔
وقت تنہائی میں مشکل سے کٹے
تیرے وعدوں کا سہارا گر نہ ہو
٭
مطمح عشق کہاں حسن کم آویز کہاں
آپ کرتے ہیں وفا ، شرم مجھے آتی ہے
٭
حُسندنیا میں ہے جب تک باقی
ترک دنیا مری نیّت میں نہیں
جیسے جیسے سیمابؔ کا شعور بالیدہ ہوتا گیا ، وہ عصری تقاضوں اور سماجی،
سیاسی اور معاشی مسائل سے رشتہ جوڑنے لگے اور بھر پور اشعار زندگی کی
نزاکتوں اور لطافتوں کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ اس پیشکش میں نئی ترکیبوں ،
اصطلاحوں ، تشبیہوں اور استعاروں سے بھی کام لیا اور اشارے کنائے ، بامعنی
محاورے اور علامتوں کا استعمال کرکے ایوان غزل میں منفرد اور معتبر مقام
بنایا۔افسوس کہ سرمایۂ ماضی کو چھوڑ کر وہ کراچی گئے اور31؍ جنوری 1951ء
وہیں وفات پائی۔
٭٭٭٭٭
|