اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے۔ اسکے اصول سادہ اور
آسان فہم ہیں۔ اور بنی نوع انسان کو رشدو ہدایت کا سبق دیتے ہیں یہ ایک
ایسا مذہب ہے جو خدا اور بندے کے درمیان براہ راست تعلق پیدا کرتا ہے کہ
بندہ جب بھی ایک عاجز و لاچار مخلوق ہونے کی حیثیت سے اس شہنشاہ مطلق کے
حضور عرض گزار ہوتا ہے۔ اس کی طرف سے بندہ کی پکار کا فوراً جواب دیا جاتا
ہے۔ اس کی حاجت برآری کی جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ) ’’مجھ سے
دعا کرو میں قبول کرونگا‘‘ اور فرمایا اے نبی! جب آپ سے میرے بندے میرے
متعلق سوال کریں (کہ میں کہاں ہوں) تو میں تو ان کے قریب ہوں جواب دیتا ہوں
پکارنے والے کی پکار کا جب بھی وہ مجھے پکارے پس انہیں بھی چاہیے کہ وہ
میری بات کا جواب دیں۔ مجھ پر ایمان لائیں تاکہ فلاح پائیں (البقرہ: 186)۔
یہ دنیا دار التکلیف اور آزمائش کا گھر ہے یہاں انسان کو ہر قسم کے اچھے
برے حالات سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ لہٰذا زندگی کے نشیب و فراز انقلاب زمانہ
ناکامیوں سے اور مایوسیوں سے گھبرا جانا ایک فطری امر ہے۔ بقول غالب ۔
کیوں گردش مدام سے گھبرانہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
مگر ایسے دل گرفتہ حالات میں خدا نے انسان کو دعا کا سہارا دیا ہے کہ وہ جب
کسی مصیبت کے عالم میں خدا کو پکارتا ہے تو اسے سکون مل جاتا ہے۔ کیوں کہ
خدا تعالیٰ انسان کا سچا دوست ہے جو ہر لمحہ اس کی مدد کرتا ہے۔ (چنانچہ
فرمایا (ترجمہ) ’’قائم رکھو نماز اور دیتے رہو زکوٰۃ اور مضبوط پکڑو اﷲ کو
وہ تمہارا دوست ہے تو کیا ہی اچھا دوست اور کیا ہی اچھا مددگار ہے‘‘سرور
کائنات ا کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’خدا سے دعا کرو اس حال میں کہ تمہیں اس کے
قبول ہونے کا یقین ہو‘‘ (احمد ابو داؤد نسائی)فرمایا کہ‘‘ جو شخص خدا کے
حضور دست سوال دراز نہیں کرتا تو وہ اس سے ناراض ہوتے ہیں ․․․․
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے کوئی راہ رو منزل ہی نہیں
مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دعائیں تو لوگ خدا سے مانگتے ہی رہتے ہیں بلکہ
نہایت خشوع خضوع اور گڑ گڑا گر دعا مانگتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ اکثر
لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں اور وہ اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہتے
ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصولی طور پر دعا کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں
مگر اس کی کچھ شرائط ہیں اور کچھ صورتیں ہیں جو علماء نے تحریر کی ہیں کہ
دعا کس صورت میں قبول ہوتی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔
قبولیت دعا کی اہم شرط یہ ہے کہ صاحب دعا رزق حلال کماتا ہوا حکام شرع کا
پابند ہو اور حقوق العباد کا خیال رکھتا ہو حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک
شخص خدا سے دعا کرتا ہے مگر اس کا کھانا حرام ہے اور لباس حرام کی کمائی سے
بنا ہوا ہے اور وہ کہتا ہے․․․․․․․․یا اﷲ یا اﷲ تو اس کی دعا کیسے قبول سکتی
ہے؟ تاوقتیکہ وہ حرام کھانے سے توبہ نہ کرے اور دوسری شرط یہ ہے کہ دعا
کرنے سے پہلے خدا تعالیٰ سے توبہ و استغفار کیا جائے اپنے گناہوں پر نادم
ہو اور دوبارہ انہیں نہ کرنے کا عہدہ کیا جائے۔ آنحضرت ا کا فرمان ہے کہ
میں روزانہ اپنے رب سے سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں‘‘ (صحیح بخاری)اور دعا کی
قبولیت اس طرح ہوتی ہے کہ کبھی تو بعینہ وہی چیز عنایت کر دی جاتی ہے جس کے
لئے دعا کی گئی ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ اگر باری تعالیٰ اپنے علم محیط
کی رو سے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہی چیز دے دی جائے جو مانگی گئی ہے تو یہ
صاحب دعا کے لئے نقصان دہ ہے۔ تو اس چیز کے بدلہ میں کوئی اور چیز دے دی
جاتی ہے۔ جو اس سے بہتر ہوتی ہے۔اور تیسری صورت یہ ہے کہ اس دعا کو آخرت
میں ذخیرہ کر دیا جاتا ہے کہ اس کا ثواب آخرت میں عطا کیا جائے گا اور
قبولیت دعا کی تیسری صورت یہ ہے کہ اس دعا کے بدلہ میں آدمی کے گناہ محو ہو
جاتے ہیں یا اس کے درجات بلند کر دیئے جاتے ہیں یا کوئی بلا اور مصیبت جو
اس شخص پر آنے والی تھی ٹال دی جاتی ہے بہرحال دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی
کیوں کہ خدا تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور مسبب الاسباب ہے اور اس نے خود
ہی فرمایا کہ ’’مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا‘‘ (شرح عقائد از علامہ
تفتازانی)۔
واضح رہے کہ دعا کی جو شرائط تحریر میں لائی گئی ہیں ان سے لازم نہیں آتا
کہ گناہ گار شخص خدا سے دعا ہی نہیں کر سکتا کہ ایک شخص دن رات گناہوں میں
غرق ہے وہ یہ سوچ کر میں تو گناہ گار ہوں پتہ نہیں خدا تعالیٰ میری سنتے
بھی ہیں کہ نہیں وہ خدا سے دعا ہی نہیں کرتا یہ بات غلط ہے گناہ گار کی طرف
تو خدا کی رحمت اور بھی زیادہ متوجہ ہوتی ہے بشرطیکہ وہ صدق دل سے دعا کرے
حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اگر ابن آدم مجھے اس حال میں ملے کہ
اس کے گناہ زمین و آسمان درمیانی فاصلے کو پر کرتے ہوں تو میں اسے بخش
دونگا بشرطیکہ اس نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو۔ (المشکوٰۃ المصابیح)ہر حال
خدا کی رحمت گناہ گار کی طرف بھی ایسے ہی متوجہ ہوتی ہے جیسے کسی صالح آدمی
کی طرف البتہ دعا کے جملہ آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے ورنہ یہ تو اسی کی
ذات والا صفات کی بے پایاں رحمت و جود و سخا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے عاصی کو
بھی اپنی آغوش رحمت میں لے لیتا ہے۔
|