سال 2001ء اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا تھا ۔دسمبر کی یخ
بستہ ہوائیں خون منجمد کر رہی تھیں ۔درختوں کی شاخیں بے برگ و بار تھیں اور
ہر طرف خزاں رسیدگی اور سمے کے سم کے ثمر نے یاس و ہراس کی مسموم فضا پیدا
کر دی تھی۔ رات کا پہلا پہر تھا ، ۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی ، کسی نے
اضطراب سے کہا: کہ پروفیسر عظمت اللہ خان انتقال کر گئے ہیں۔"
پروفیسر عظمت اللہ خان کے نہ ہونے کی ہونی کے بارے میں سُن کر میرا دِل دہل
گیا اس سانحے نے مضطرب روح کو زخم زخم اور دِلِ حزیں کو کِرچی کِرچی کر
دیا۔یاس و ہراس اور رنج و الم کے عالم میں آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا
گیا اور کچھ ہوش نہ رہا۔ پروفیسر عظمت اللہ خان تو جاتے جاتے سب سلسلے ہی
توڑ گیا اور دائمی مفارقت ہمارا مقدر بن گیا۔آہ! عظمت اللّه خان تم نے چُپ
چاپ جس عجلت سے عدم کے کُوچ کے لیے رخت ِ سفر باندھ لیا اسے دیکھ کر میرے
دِل میں ایک ہُوک سی اُٹھی اور آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہو گئی۔
خان عظمت اللہ خان کی آنکھیں مُند گئیں اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے عدم کی بے
کراں وادیوں کی جانب چل دیا اور ہماری پتھرائی ہوئی آنکھیں دیکھتی کی
دیکھتی ہی رہ گئیں۔ میں اپنی پُرنم آنکھوں سے ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق
گردانی کرنے لگا۔ماضی کے جھروکوں سے دیکھا تو دھندلی سی سب تصویریں آنکھوں
کے سامنے گھومنے لگیں۔ وہ ایک پڑھے لکھے خاندان کا چشم و چراغ تھا وہ 28
دسمبر 2001 کو دار فانی سے دار بقا کی طرف چل دیے ۔ان دنوں وہ شعبہ اردو
گورنمنٹ کالج سمن آباد فیصل آباد میں استاد تھے ۔ یکم جنوری 2002 کو ان کی
ریٹائرمنٹ تھی۔اس طرح اپنی ریٹائرمنٹ سے تین دن قبل داعی اجل کو لبیک کہہ
گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
پروفیسر عظمت اللہ خان 29 جنوری 1931 کو جالندھر میں ڈی ایس پی پولیس خان
شوکت اللہ خان کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ اپنے بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے
۔آپ کے بڑے بھائی پروفیسر عصمت اللہ خان جو گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں
بطور لیکچرار ہوئے اور 38 سال سروس مکمل کرنے کے بعد بطور پرنسپل اسی ادارے
سے ریٹائر ہوئے اور 9 جولائی 2012 کو انتقال کر گئے ۔آپ کی چھوٹے بھائی
حشمت اللہ خان پرنسپل گورنمنٹ کالج آف کامرس کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے اور
22 نومبر 2020 کو انتقال فرما گئے ۔آپ کے سب سے چھوٹے بھائی شہادت اللہ خان
ڈسٹرکٹ پاپولیشن پلاننگ ڈیپارٹمنٹ میں ملازم تھے اب بھی تم سال قبل انتقال
فرما گئے ہیں ۔آپ کیسی رام تیرا محترمہ جو اردو کے پروفیسر تھی وہ بھی پانچ
سال قبل انتقال فرما دیں ہیں ۔اس طرح سب بہن بھائی اللہ کے حضور پیش ہو چکے
ہیں ۔
جنگ بازار فیصل آباد میں ان کی رہائش گاہ کے باہر جو نیم پلیٹ لگی ہوئی تھی
وہ خاص توجہ کا مرکز تھیں اوپر والد صاحب کا نام اور نیچے ان سب بیٹوں کے
نام ہر ایک کے اگے ایم اے اردو کی تعلیم ۔بڑا حسین امتزاج تھا اور منفرد
اتفاق ۔سارے بہن بھائی اردو ادبیات میں ماسٹرز تھے اور تین بھائی کالجز میں
اردو ادبیات کے استاد ٹھرے اور اپنے آپ کو اردو زبان و ادبیات میں نہ صرف
مقامی سطح پر منوایا بلکہ ملکی سطح کے علم و ادب پر بھی اس خاندان کی گہری
چھاپ رہی ۔۔۔ دو بھائی تو پاکستان کے مانچسٹر فیصل آباد کے دو اہم کالجز کے
پرنسپل بن کر ریٹائرمنٹ تک پہنچے ۔۔تیسرے عظمت اللہ صاحب تھے جو اپنی
ریٹائرمنٹ سے قبل ایسوسی ایٹ پروفیسر کے منصب پر فائز تھے ۔۔جو اپنی
ریٹائرمنٹ سے تین دن قبل اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔۔۔۔ گزشتہ پانچ عشروں
کے اہم واقعات،تلخ و شیریں یادوں اور کرداروں پر ابلقِ ایام کے سُموں کی جو
گرد پڑ چکی تھی اسے دیدۂ گِریاں کی نہر بہا لے گئی۔۔پروفیسر عظمت الله خان
مرحوم سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں ۔۔اردو اشعار کا مقابلہ ہوتا بیت بازی
ہوتی علمی مکالمہ ہوتا الفاظ کے تلفظ پر بحث ہوتی سب بہن بھائی ایک دوسرے
کی تعلیم و تدریس میں لگے رہتے۔۔ بڑا نستعلیق گھرانا تھا اردو لکھنوی لہجے
میں بولتے۔ لوگ انہیں بولتا ہوا سن کر اپنا تلفظ درست کرلیتے تھے ۔۔۔۔زمانہ
طالب علمی میں ان تینوں بھائیوں کی زبردست ٹیم بن گئی تھی پاکستان بھر کے
کل پاکستان بین الکلیاتی مقابلہ جات جیت لاتے ۔گردشی نشان ظفر بھی جیت لائے
۔ ٹرافیاں اور بے پناہ کپ جیت لائے ۔ ان کے گھر کی سب الماریاں ان کپوں اور
ٹرافیوں سے بھری پڑی ہوتی تھی ۔۔تینوں بھائی یہاں بھی جاتے ،میدان مار لیتے
۔کوئی ان سے جیت نہیں سکتا تھا ۔۔
ایک درویش منش شاعر ، کھرا اور صاف گو انسان ۔۔۔۔۔ منافقت زدہ ماحول کی
بہتری کی تدابیریں سوچنے والا ۔۔۔۔۔۔معصوم طبعیت ہونے کی وجہ سے ہر شخص کو
معصوم سمجھنا ۔۔۔۔۔اور بلا تفریق مسلک ، عہدہ اور سینارٹی ہر ایک کے لیے
ہمیشہ دیدہ و دل فرش راہ کیے رکھنے والا ۔۔۔۔۔۔انسان تو انسان ۔۔۔۔جانوروں
کو بھی محبّت سے رکھنے والا انسان ۔۔۔۔۔ہماری بزم سے چپکے سے ایسے غائب ہو
گیا جیسے اب وہ اس سماج کے مزید غم و الام برداشت کرنے کے قابل نہ رہا ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس گھٹن زدہ ماحول میں یہاں شعرا کرام اپنی سینارٹی کے چکر میں
الجھ جاتے ہیں ۔۔۔عمر میں بڑا ہونے پر اپنے آپ کو صدر مشاعرہ سے کم نہیں
سمجھتے یا کسی بھی پروگرام میں مشاعرہ کے شروع میں بلائے جانے پر اپنی بے
عزتی تک محسوس کرتے ہوں ۔۔۔۔وہ ایسی باتوں سے بے نیاز تھے ۔۔ایسے گھٹن زدہ
ماحول میں پروفیسر عظمت اللہ خان روشنی کا استعارہ تھے ۔۔۔۔۔۔۔ایک مینارہ
نور تھے ۔۔۔۔۔۔مہمان نوازی اور ادب و احترام کرنے میں وہ اجنبی اور کسی کی
عمر یا رتبہ کو نہیں دیکھتے تھے ۔۔۔۔۔۔انھیں کسی بھی آنے والے کو دیکھ کر
اس قدر خوشی ہوتی تھی جیسے کوئی گم شدہ خزانہ ہاتھ آ گیا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ
باتیں رسما نہیں بلکہ مبنی بر حقیقت ہیں ۔۔۔۔۔۔۔میں ایک بار اپنے چھوٹے
بھائی کے پریکٹیکل کے سلسلے میں گورنمنٹ کالج آف سائنس میں گیا تو مجھے
دیکھتے ہیں ان کو اس قدر خوشی ہوئی کہ دوڑ کر ایک کمرے میں گئے اور مٹھائی
سے بھرا ہوا ڈبہ ہم دونوں بھائیوں کے آگے لا کر رکھ دیا اور فورا چائے کے
لئے ایک آدمی کو کہہ دیا ۔۔۔۔پوچھنے پر کہنے لگے، آپ پریکٹیکل کی پریشانی
نہ لیں ۔۔۔۔۔دیر تک ہم دونوں بھائیوں سے محو گفتگو رہے اور ہماری حوصلہ
افزائی کرتے رہے ۔۔۔۔۔۔ایسے لوگ بہت خال خال نظر آتے ہیں ۔وہ دوسروں سے بے
لوث محبت کرتے ہیں ۔۔۔۔اس کے بعد بھی ان سے کئی بار ریز ہوٹل میں نششتیں
ہوتی رہیں ۔۔۔ہر کی بار انہوں نے اس قدر بھاری آرڈر دے دینا کہ میز کھانے
کی چیزوں سے سج جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔وہ اس قدر حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ ان سے
مل کر اپنے ہونے کا یقین ہوتا تھا ۔۔۔۔وہ واقعی خاندانی پٹھان تھے ۔۔۔۔۔۔ان
کی گفتگو ، مزاج اور مہمان نوازی ثابت کرتی تھی کہ وہ نسلی پٹھان ہیں ۔۔ ۔۔
ایسے لوگ کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے
اور ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قبر پر اپنی رحمتوں کا نزول جاری و
ساری رکھے۔۔۔۔۔۔
پروفیسر عظمت اللہ خان مرحوم ایک فقیر اور درویش منش انسان تھا ۔صبر و تحمل
،قناعت و استغنا اور عجز و انکسار کے اس پیکر نے فقیری کو اپنا طریقِ زندگی
بنا رکھا تھا ۔۔۔اللّه پاک ان کے درجات بلند کرے ۔۔۔۔۔آمین |