(محمد ساجد)
کچھ شخصیات گلاب کے پھول کی طرح ہوتی ہیں ۔ان کی گل وگلزار شخصیت سے کافور
کی سی خوشبوآتی ہے باتوں سے پھول جھڑتے ہیں چہرہ پر روحانیت کی سی کشش ہوتی
ہے ۔اپنی سادہ دلی اور مہمان نوازی سے دل جیتنے کا فن جانتے ہیں ۔حاجی محمد
لطیف کھوکھر کا شمار ایسی ہی شخصیات میں ہوتا ہے۔پہلی بار ان کا غائبانہ
تعارف بابا فقیر اثر انصاری کے منہ سے سنا تھا پھر 2021میں بھیل انٹرنیشنل
ادبی سنگت صدر حاجی زاہد اقبال بھیل کے سالانہ تقسیم ایوارڈ ز پروگرام میں
ان سے ہلکی پھلکی سی ملاقات ہوئی تھی موہنی روڈ رکاردار پارک ،زبیر عرف
جھارا پہلوان کے اکھاڑے کے نواح میں انکی رہائش گاہ پر پہلی ملاقات ہوئی
ادبی بارٹر سسٹم کے کتابوں کا تبادلہ ہوا ان کی شخصیت ،خاندانی پس منظر ،آباء،کاروبار
،ادبی سرگرمیاں ،ادبی وشعری ،کتب اور مجلات کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو
ہوئی ان ایک ملاقات یاداشتوں کو میں اس صفحہ قرطاس پر قلم بند کررہا ہوں ۔حاجی
محمد لطیف کھوکھر6فروری 1950کو ضلع شیخوپورہ گرمولہ چک نمبر 169میں پیدا
ہوئے ان کے والد کا نام سیٹھ محمد دین کھوکھراور والدہ کا نام اﷲ رکھی تھا
ان کی پہلی درس گاہ ان کی والدہ کی گود تھی جس میں بیٹھ کر حاجی محمد لطیف
کھوکھر نے معرفت الٰہی ،عشق مصطفیؐ ،محبت اہل بیت واصحاب ،عقیدت صوفیا ء
اور مخلوق خدا کی خدمت کو اپنا شعار بنایا ۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد
فکر ِ معاش نے ان کو حوادث روزگار کی گرم چکی دھکیل دیا۔حاجی محمد لطیف
کھوکھرمنہ میں سونے کاچمچ لیکر پیدا نہیں ہوئے تھے اپنے قوت بازواور محنت
شاقہ کی بدولت اپنا کاروبار کھڑا کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔حیات زیست کے کئی
گرم وسرد موسموں کا نظارہ کیا۔انکے ایک برادراکبر اقبال راحت نامی گرامی
شاعر تھے ۔نوعمری میں انکے فن شاعری سے متاثر ہوئے اور شعر کہنا شروع کیے
بزرگی میں قلم کسی سرپٹ گھوڑے کی طرح دوڑانے لگے۔زمانے کے گرم وسرد اور تلخ
وشریں یادوں کے دیار میں سیرکرتے رہے اور کتابیں تخلیق ہوتی رہیں ۔سفرنامہ
،حج مبرور،سیرت مصطفیؐ،اردو اور پنجابی شاعری ،ادبی ڈائریکٹری ،قصے اور
کہانیاں ،بچوں کا ادب غرض ایک گلدستے میں رنگا رنگ کے پھول مہکنے لگے ۔حاجی
محمد لطیف کھوکھرکی پہلی افسانوی تخلیق ’’دوشہیدوں کی وارث‘‘ہے۔یہ کتاب
2010ء میں شائع ہوئی ۔اس میں کل چودہ افسانے ہیں اس میں معاشرتی ناہموار
طبقاتی تقسیم ،حب الوطنی ،رواداری ،محنت کی عظمت ،وطن سے محبت جیسے
موضوعاتی افسانے لکھے گئے ہیں۔انکی دوسری افسانوی کتاب ’’من پسند
کہانیاں‘‘کے نام سے اشاعت پذیر یہ کہانیاں بچوں کے ادب کے حوالہ سے اپنی
مثال آپ تھیں ۔اس کتاب پر حاجی محمد لطیف کھوکھرکو بہت سراہا گیا ۔تمام
کہانیاں اخلاقیات کے سبق آموز موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں ہرکہانی میں بچوں
کے لیے کوئی نہ کوئی نصیحت موجود ہے۔ہر دوکتب کی وجہ سے حاجی محمد لطیف نے
ادبی حلقوں میں بطور کہانی کار اپنی پہچان بنالی تھی۔2013میں حاجی محمد
لطیف کھوکھرکی تصنیف ’’حج مبرور ‘‘تھی یہ کتاب دینی نقطہ نظر سے تحریر کی
گئی ہے ،اس میں حج کی ادائیگی کے دوران پیش آنے والے مسائل کو شریعت کی
روشنی میں بڑی تحقیق کے بعد تحریر کیا گیا ہے۔2015میں انکی چوتھی کتاب
’’اعتبارکا قتل‘‘منظر عام پر آئی یہ اردوافسانوں پر مشتمل کتاب ہے اس میں
کل چودہ افسانے ہیں یہ افسانے حقیقت پسندی اور سماجی منافقت کو چاک کرتے
نظر آتے ہیں ،ان کے افسانوں میں اخلاقی درس کی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔بات
بہ بات پندھ ونصیحت کی پوٹلی سے کوئی نہ کوئی جملہ نکل کر قاری کو پیش
کردیتے ہیں ۔انکی ایک کتاب ’’جادوکی سرنگ ‘‘ہے اس میں بچوں کے لیے سولہ
کہانیاں ہیں ان کہانیوں میں بچوں کو اخلاقی اور اصلاحی تلقین کرتے نظر آتے
ہیں انکی کہانیاں پڑھتے ہوئے کہیں ڈپٹی نذیر احمد دہلوی اور کہیں منشی پریم
چند کا اسلوبی رنگ اور خیر وشر کا عنصر جھلکتا ہے 2017میں حاجی محمد لطیف
کی اردو،پنجابی شاعری کی تصنیف ’’ہتھ جوڑی‘‘شائع ہوئی کتاب کا سرنامہ کسی
پنجابی فلم سے مشہبہ تھا اس میں شاعری دوحصوں میں مشتمل ہے پہلا حصہ پنجابی
،دوسرا اردوشاعری پر مشتمل ہے ۔یہ ان کے احساس ،حساس ،کومل ،نرمل ،آمد،آورد
،جیسے کیفیتی محسوسات پر مشتمل شعری تصنیف ہے2018میں حاجی محمد لطیف کی
پہلی نعتیہ کتاب ’’نعتاں سرکاردیاں‘‘منظر عام پر آئی یہ ان کی پنجابی نعتیہ
شاعری پر مشتمل تصنیف تھی ،عشق مصطفیؐ کے آئینے میں تخلیق ہونے والی یہ
شاعری آقاپاکؐ سے محبت ،عقیدت ،الفت،چاہت ،خوشبو،مہک ،قلبی جذبات کا احاطہ
کرتی نظر آتی ہے۔اس کتاب پر ان کو 2019میں وفاقی وزارت مذہبی امور حکومت
پاکستان کی طرف سے ’’سیرت ایوارڈ‘‘سے بھی نوازا گیا۔2019میں ’’وفائے
پاکستان تقاضائے ایمان‘‘کے عنوان سے سیرت النبیؐ کے حوالے سے ان کی کتاب
شائع ہوئی ۔اس میں آقاپاکؐ کی حیات مبارکہ کے ہر حسین پہلوؤں پر خوشبو کے
موتی بکھیرے گئے ہیں۔2019میں ’’افواج پاکستان وفائے پاکستان‘‘کے نام سے وطن
کی محبت میں انہوں نے کتاب تحریر کی وطن سے محبت تقاضائے ایمان ہے۔حضور پاک
ؐ کو بھی اپنے وطن سے محبت تھی اس کتاب کو انہوں نے سات ابواب میں تقسیم
کیا ہے،عسکری پاکستان کی خدمات کو بہت خوبصورت پیرائے میں خراج تحسین پیش
کیا گیاہے اس کتاب کو پڑھنے کے بعد پاکستان اور افواج پاکستان سے قاری کی
محبت اور بڑھ جاتی ہے۔حاجی محمد لطیف کھوکھر کی ایک تصنیف ’’ضلع شیخوپورہ
کے ادبی ستارے ‘‘ہے یہ ایک تحقیقی نوعیت کی دستاویز ہے جو انہوں نے اپنی
جنم بھومی ضلع شیخوپورہ سے محبت کا اظہار کرنے کے لیے تحریر کی ہے اس تحقیق
میں حاجی فقیر اثر انصاری فیض پوری نے انکی بہت معاونت کی یہ کتاب ادبی
تاریخ کے حوالے سے ایک اہم دستاویز کا درجہ رکھتی ہے،جس میں ضلع شیخوپورہ
کے ادب کو ماضی اور حال کے آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے۔حاجی محمد لطیف
کھوکھر خوف خدا،عشق مصطفیؐ ،وطن سے محبت رکھنے والی شخصیت ہے ۔احساس
انسانیت اور درددل رکھنے والے اس درویش انسان کی حقیقی تصویر ان کی تحریروں
میں صاف جھلکتی ہے ۔رب تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی اخلاقی ،اصلاحی اور فلاحی
تحریریں نسل ِ نو کے کردار گفتگو کو سنوارنے کے لیے توشۂ خاص بن جائیں ۔
|