کیا یوگی پاکھنڈی سنتوں مہنتوں کی گرمی نکال پائیں گے ؟

راج ٹھاکرے نے تو خیر عید کے دن اپنا ہنومان چالیسا ملتوی کردیا مگر ایودھیا کے سنت پرم ہنس اچاریہ سے رہا نہیں گیا اور وہ اسی دن تاج محل جاکر شیوپوجا، بھومی پوجن(سنگ بنیاد) اور شدھی کرن( پاک کرنا) پر اڑ گئے۔ پولیس نے پہلے تو انہیں سمجھا بجھا کر لوٹنے کی درخواست کی مگر وہ نہیں مانے تو انہیں ایک ہندو نواز رہنما روی دوبے کی گاڑی میں بٹھایا۔ اس کے بعد حامیوں نے اصرار کیا تو انہیں ساتھ لے لیا ۔ آگے چل گاڑی کے مالک روی دوبے کو گاڑی سے اتار کر پولیس نےگھر بھیج تو پرم ہنس اچاریہ کے ہوش ٹھکانے آئے اور وہ تھر تھر کانپنے لگا ۔ پولیس اس کو کسی نامعلوم مقام پر لے گئی کیونکہ اس سے پہلے جب اسے روکا گیا تھا تو ناراض ہوکر اس نےپانچ مئی کو تاج محل کے شمالی دروازے پر شیوجی کا مجسمہ نصب کرکے سناتن دھرم سنسد کے انعقاد کا اعلان کیا تھا ۔ اب اس کو چاہیے تھا کہ پانچ کو تاج محل آتا لیکن وہ عید کے دن ہی ہنگامہ کرنے کے لیے پہنچ گیا ۔ اس کے بعد اب وہ کم ازکم تین دنوں تک سرکاری مہمان نوازی میں نظر بند رہے گا اور اس کے بعد ہی باہر کی ہوا کھائے گا ۔

یہ حسن اتفاق ہے کہ ایک طرف تو ایودھیا میں فساد بھڑکانے کی سازش رچی مگر اس سے قبل 30؍مارچ کو ایودھیا سے نکل پرم ہنس آچاریہ نےآگرہ کے اندر فرقہ واریت پھیلانے کی مذموم کوشش کی ۔ آگرہ میں ہندو راشٹر کے بہت بڑے حامی جگت گرو پرم ہنس آچاریہ کو تاج محل داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ پہلے تو انہیں روکنے کی وجہ ان کا بھگوا لباس بتایا گیا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اصل سبب ہاتھ میں برھم دنڈ یعنی لوہے کی سلاخ تھا ۔ اس کے معنیٰ یہیں ہیں کہ وہاں موجود اسٹاف کو اس بددماغ کے ذریعہ کسی توڑ پھوڑ کا اندیشہ تھا اس لیے روکا گیا ۔ یہ نام نہاد مہنت اگر اپنی سستی شہرت کے لیے ایسی کوئی حرکت کردیتا تو ساری دنیا میں ملک کی بہت بڑی بدنامی ہوتی اور تاج محل دیکھنے کی خاطر آنے والے سیاحوں کی تعداد پر بھی اس کا منفی اثر ہوتا اس لیے گوں ناگوں وجوہات کی بنیاد پر یہ کارروائی کی گئی۔ اس موقع پر پرم ہنس آچاریہ کے شاگرد نے تاج محل میں داخل ہونے کا ٹکٹ خرید رکھا تھا لیکن وہاں موجود سی آئی ایس ایف جوانوں نےبغیر سلاخ کےاندر جانے کی گزارش کی تو وہ اڑ گئے ۔ اس لیے ان کا ٹکٹ کسی سیاح کو دے کر پیسے لوٹا دیئے گئے اور انہیں بیرنگ واپس ہونا پڑا۔

پولیس اہلکاروں نے تو اس موقع پر تحمل سے کام لیتے ہوئے بغیر تلخی کے معذرت کرتے ہوئے اپنا فرض نبھایا اور پرم ہنس کے ساتھ کوئی ناروا سلوک نہیں کیا اس کے باوجود ان کے عقیدتمند آگ بگولا ہوگئے اور ہنگامہ کھڑا کردیا ۔ ہندو تنظیم راشٹریہ ہندو پریشد کے صدر گووند پراشر احتجاج کرنے کی خاطر زعفرانی لباس پہن کر تاج محل میں داخل ہوئے اور اس معاملے میں قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اس دوران پولیس کی بڑی تعداد ان کے اردگرد موجود تھی اس لیے یہ لوگ کوئی نازیبا حرکت نہیں کرسکے ۔ پولیس کی پشت پناہی میں کام کرنے والے یہ سرکس کے شیرکچھ کرنا تو دور اپنے مائی باپ کی مخالفت کا خیال بھی اپنے دل میں نہیں لاتے ۔ تاج محل سے ناکام ہوکر ان لوگوں نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے دفتر کا رخ کیا اور وہاں پہنچ کراپنے غم غصے کا اظہار کرنے کی خاطر پتلا جلانے کی کوشش کی۔ ان کو وہاں بھی پولیس اہلکاروں نے روک دیا۔ اس کے بعد مرتا کیا نہ کرتا ان ہندتوانواز رہنماوں نے ایک محضر نامہ پیش کیا جس میں آچاریہ پرم ہنس داس معاملے میں قصورواروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا اور بے نیل و مرام لوٹ گئے ۔ سوال یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی یہ دوہری رسوائی کیوں کرائی ؟ یہ لوگ دراصل اپنے گرو کی پیروی کررہے تھے ۔ ان کو بھی اس کا شوق ہے۔

اپنے آپ کو جگت گرو کہنے والے پرم ہنس آچاریہ اس طرح کی نوٹنکی کرتے رہے ہیں ۔ اس سے پہلے انہوں نے ذرائع ابلاغ کی سرخیاں بٹورنے کی خاطر ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ خیر وطن عزیز میں ہندوتوا نوازوں کو ہر طرح کے مطالبات کی کھلی چھوٹ ہے اس کا فائدہ اٹھا کر موہن بھاگوت جیسے لوگ اکھنڈ بھارت تک کے خواب دیکھنے لگے ہیں لیکن پرم ہنس نے اپنے بیان میں تنوع پیدا کرنے کی خاطر حکومت کو الٹی میٹم دینے کا شوشہ چھوڑ دیا ۔ انہوں نے پچھلے سال کہا تھا کہ حکومت ہند اگر 2؍ اکتوبر یعنی گاندھی جینتی تک ملک کو ہندو راشٹر قرار نہیں دیتی تو وہ ’جل سمادھی‘ لے لیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سریو ندی میں ڈوب مریں گے ۔ ملک میں فی الحال خودکشی خلاف قانون ہے اس لیے ان کو آخری وقت میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جانا چاہیے تھا ۔ ویسے اگر ان کی آخری خواہش کا احترام کرتے ہوئے اپنے ارمان نکالنے کا موقع دے دیا جاتا تب بھی ملک و قوم کا خسارہ نہیں بلکہ فائدہ ہی ہوتا ۔ وہ خود تاج محل کی تازہ رسوائی سے بچ جاتے اور آگے جو گل کھلانے والے ہیں ان سے بھی قوم کونجات مل جاتی ۔

ایودھیا اور آگرہ کے علاوہ ہاشم پورہ میں تو کوئی سخت گیر ہندو تنظیم نہیں بلکہ خود بی جے پی شرارت پر آمادہ ہے۔ اس کے رہنما کمل دت شرما عید کے موقع پر جاگرن کے معاملے میں پولیس افسر سے دھمکی آمیز انداز میں کہتےہیں کہ ہمیں مذہبی پروگرام منعقد کرنے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اسے عام بات قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ہم نے ماضی میں ایسی تقریبات کا انعقاد کیا ہے۔ ان کے مطابق ہاشم پورہ میں 10,000 کی مسلم آبادی میں تقریباً 25 ہندو خاندان رہتے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندو مذہبی تقریبات نہیں کر سکتے؟ اس خطے پر مسلمانوں کا غلبہ ہے یا ہندو؟ اس سے کیا فرق پڑتا ہےکیونکہ دونوں ہندوستانی ہیں۔ شرما جی نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ہم یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کے دوران ہندو رسومات ادا نہیں کر سکتے تو کب کر سکیں گے؟ اس کے جواب میں پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) سٹی، ونیت بھٹناگر نے کہا کہ اجازت کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ اس بابت واضح رہنما خطوط ہیں جس کے مطابق نئی روایت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

بھٹناگر نے یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا کہ ’ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خطرے میں ڈالنے والی کسی بھی سرگرمی کی اجازت نہ دی جائے۔ اگر معاملات بڑھتے ہیں تو ہمارے پاس کارروائی کا حق ہے‘۔ اس جملے کو سن کر لوگوں کے لیے یقین کرنا مشکل ہوگیا کہ کیا یہ وہی پولیس ہے جس نے ابھی حال میں پورے اترپردیش کو سر پر اٹھا رکھا تھا ۔ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے ڈھائی سال قبل ملک بھر میں این آر سی اور سی اے اےکے خلاف مظاہروں کے بعد ایک تفتیشی ٹیم نے اترپردیش کا دورہ کیا تھا جس میں معروف سماجی جہد کارہرش مندر شامل تھے ۔ انہوں نے واپس آکر اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ اس سے پہلے پولیس جان بوجھ کر فسادیوں کے خلاف خاموش تماشائی بن جایا کرتی تھی اور جب طاقت کا استعمال یعنی فائرنگ کرتی تو وہ حملہ آوروں کے بجائے اقلیتوں کے خلاف بہت زیادہ ہوتا تھا۔ اس سے آگے بڑھ کر اس بار( یعنی دسمبر ، جنوری 2020) میں تو پولیس اپنی وردی میں فسادی بن گئی تھی ۔ اس نےفسادیوں کے لیے مختص شرپسندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسی پولیس کا نیا چہرہ دیکھ کر سمجھ میں آتا ہے کہ کیا یہ روبوٹ ہیں کہ جن کوان کا مالک جو بھی کرنے کے لیے کہتا ہے وہ بلا چوں چرا کرگزرتے ہیں ۔کیا ان کا اپنا کوئی ضمیر نہیں ہوتا؟ یا ہوتا ہے مگر ان کو ضمیر کی آواز کے مطابق چلنے کی اجازت نہیں ہے ؟ لیکن اگر اسے کسی سیاسی دباو کے بغیر غیر جانبدارانہ انداز اپنی ذمہ داری ادا کرنے موقع دیا جائے تو ممکن ہے ملک فرقہ وارانہ تشدد سے محفوظ ہوجائے۔ اس کے ساتھ اگر حکمراں اپنے فرضِ منصبی کو سمجھ کر انتظامیہ پر فسادات کو قابو میں رکھنے کے لیے دباو ڈالیں تب تو سونے پر سہاگہ ہوجائے۔

رام نومی اور ہنومان جینتی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ نام نہاد سنت سماج کا ایک طبقہ باولہ ہوگیا ہے۔ کھرگون میں جلوس نکالنے کے لیے کپل مشرا جیسے بدنام زمانہ فرد کو بلایا گیا ۔ ابتداء میں جلوس کے راستے کو لے کر بلوائی پولیس سے الجھ گئے اور اختتام مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر کے استعمال پر ہوا۔ اس کے بعد ریاست کے وزیر داخلہ نے غیر ذمہ دارانہ اشتعال انگیز بیانات دے کر ظلم و جبر کی کھلی حمایت کی۔ حکومت کے اس رویہ نے فسادیوں کے حوصلے بلند کردئیے ۔ ان کی سمجھ میں آگیا کہ انہیں تو صرف چنگاری لگانا ہے باقی آگ پھیلانے کا کام سرکاری بلڈوزر کرے گا۔ دہلی کے جہانگیر پوری میں مسجد پر حملہ کیا گیا اور جب اس ردعمل سامنے آیا تو ساراالزام مسلمانوں کے سر منڈھ کر بلڈوزر چلایا گیا۔ ابتداء میں تو ساری گرفتاریاں مسلمانوں کی ہی ہوئیں۔آگے چل کر بدنامی کے ڈر سے ہندووں کو بھی گرفتارکیا گیا مگر این ایس اے کی سعادت صرف مسلموں کے حصے میں آئی۔ اس جانبدارانہ رویہ نے بھی شرپسندوں کی حوصلہ افزائی کی اور اس آگ کو بڑے پیمانے پر اتر پردیش میں لگانے کی سعی شروع ہو گئی مگر غیر متوقع طور پر وہاں کھیل بگڑ گیا۔ سوال یہ ہے کہ جس طرح لوہا لوہے کو کاٹتا ہےکیا اسی طرح اگر یوگی ان پاکھنڈی سنتوں اور مہنتوں کی گرمی نکالنے میں کامیاب ہوں گے؟


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448873 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.