کپتان کی اونچی اڑان‘ حکومت مشکل میں
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
کپتان کی اونچی اڑان‘ حکومت مشکل میں ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی نومولود حکومت جسے امپورٹڈ حکومت بھی کہا جارہا ہے بالکل اسی طرح جسے عمران خان کی حکومت کو سابقہ حزب اختلاف کے لوگ سیلیکٹد کہا کرتے تھے نے عمران مخالفت میں جوڑ توڑ کر کے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی، اتحادیوں نے حکومت کے حصول میں اخلاقیات کی تمام حدود کو بالائے طاق رکھا اور اس مشن پر گامزن رہے کہ بس اقتدار مل جائے، تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے وہ آج خفیہ طور پر لکھی جارہی ہے، جوں ہی نومولود حکومت بقول ڈاکٹر شاہد مسعود دھبڑ دھونس ہوئی تاریخ جھومتی ناچتی، ایک ایک کے پرخچے اڑاتی سامنے آجائے گی۔چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔میری یاد داشت میں فیلڈ مارشل ایوب خان صاحب کادور اقتدار ہے انہوں نے مارشل لا کے ذریعہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے اور رفتہ رفتہ سویلین صدر بھی بن گئے۔ کنوینشل مسلم لیگ جس کی باگ ڈور ایوب خان صاحب کے ہاتھ میں تھی۔ جب کے ان کا مقابلہ کمبائن اپوزیشن سے تھا جس نے محترمہ فاطمہ جناح کواپناصدارتی امیدوار نامذ کیا تھا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کو کس طرح شکست دی، تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لکھا جاچکا۔ محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان لالٹین اور ایوب خان کا گلاب کا پھول تھا۔ اسی طرح 7مارچ1977کو ہونے والے انتخابات میں ذوالفقارعلی بھٹو ایک معروف لیڈر ابھر کر سامنے آئے،یہ انتخابات صاف شفاف ہوئے، تاریخ میں یہی لکھا ہے۔ مَیں نے ان انتخابات میں پریذائیڈنگ آفیسر کی حیثیت سے لیاری کے ایک پولنگ اسٹیشن میں خدمات انجام دیں تھیں۔ میں از خود ان انتخابات کی شفافیت کی گواہی دے سکتا ہوں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے پورے ملک میں واضح اکثریت حاصل کی، لفظ ”جیئے بھٹو“ انہی انتخابات کی یاد گار ہے جو آج بھی بھٹو کے چاہنے والوں کے دلوں پر راج کررہا ہے۔ ایوب خان کے بعد بھٹو، پھر جنرل یحییٰ خان، جنرل مشرف، بے نظیر بھٹو، نواز شریف تمام کی حکومتیں کیسے ختم ہوئیں اور ان کا اختتام کیسے ہوا، تاریخ کے صفحات گواہ ہیں۔ اقتدار کسی کا رہا ہے نہ رہے گا۔ بڑے بڑے طاقت وروں کا سورج غروب ہوا ہے۔ عمران خان کو 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں حکومت ملی۔ عمران خان حکمرانی کی الف۔ ب سے بھی واقف نہیں تھا کچھ اس میں انا بھی بہت تھی، ٹیم جو ملی وہ نہ تجربہ کار، ادھر ادھر سے پکڑدھکڑ کے جنہیں ذمہ داریاں دیں انہوں نے بھی کچھ کر کے نہ دکھایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کے ملک کے معاشی حالات اور سیاسی حالات بد سے بد تر کی جانب رواں دوان رہے۔ اسی دوران کورونا نے بھی کپتان کی حکومت کو نقصان پہنچایا۔ دوسری جانب حزب اختلاف کی تمام جماعتیں جن کے پاس ایوان میں سیٹ تھی یا نہیں بغض عمران میں اکھٹی ہوتی رہیں اور پھر وہ دن آیا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی، عمران مخالف تمام قوتوں نے یہ سمجھا کہ عمران خان کو نکال کر پاکستان کو ترقی کی گاڑی پر بٹن دباتے گامزن کردیں گے۔ حکومت کو کیسے گرایا گیا،سب جانتے ہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ حزب اختلاف کا یہ عمل انہیں وقتی طور پر تو اقتدار کی کرسی پر بیٹھا گیا لیکن انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کے اس عمل سے عمران خان کتنی طاقت کے ساتھ، کس قوت اور عوام کی پسندیگی کے ساتھ سامنے آئے گا۔ عوام کا سمندر کپتان کو اپنی حمایت کا مکمل یقین کرارہا ہے۔ عمران کے سخت ناقدین بھی جیسے حفیظ اللہ نیازی جیسے تجزیہ نگار بھی بر ملا یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ سابقہ حزب اختلاف نے تحریک عدم اعدامات لا کر غلطی کی، عمران خان تو زیرو پرآچکا تھا، اگر وہ ڈیڑھ سال اور حکومت کر کے انتخابات میں جاتا تو مسلم لیگ نون اور دیگر جماعتوں کے پاس عمران کے خلاف بہت مواد ہوتا، اب صورت حال بدل گئی ہے۔ اب عمران خان کی ناقص کارکردگی، بیڈ گورننس، مہنگائی کا طوفان اور اس کی تمام تر خرابیوں کا ملبا حزاب اختلاف کی حکومت خاص طور پر نون لیگ پر پڑ تا دکھائی دے رہا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ 13 یا14جماعتوں کی حکومت، تنقید کا نشانہ صرف میاں شہباز شریف اور ن لیگ کو بنایا جارہا ہے، باقی سب جن کے پاس کئی کئی وزارتیں ہیں سرکاری سہولیات کے مزے لے رہے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کو گرانے میں بہت سے عناصر رہے، ان میں حکومت یعنی عمران خان کے اتحادیوں کا پلٹ جانا، تحریک انصاف کے منتخب اراکین کا لوٹا بن جانا، امریکہ فیکٹر کی نفی نہیں کی جاسکتی، امریکہ بہادر جب دنیا کے دیگر ممالک میں رجیم چینج کراسکتا ہے تو پاکستان اس کے لیے کوئی مقدس گائیں تھوڑی ہے۔ جو حکمران اسے پسند نہیں آئے گا اسے سین سے غائب کروادینا اس کے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔ ماضی میں خان لیاقت علی خان،ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، بے نظیر بھٹوکو کس طرح اقتدار سے ہٹایا سب جانتے ہیں۔ اگر عمران خان اپنی جان کے بارے میں کہہ رہا ہے تو غلط نہیں۔ عدالتی فیصلہ اور عدالت کا رات گئے عدالت لگانا بھی عمران کی حکومت گرانے میں ایک فیکڑ رہا اور کپتان کی حکومت کا دھڑام تختہ ہوگیا۔ میاں شہباز شریف وزیر اعظم بنے جن کے کاندھو ں پر ملک کو چلانے کا تمام تر بوجھ ڈال دیا گیا۔ دوسری جانب عمران خان عوام میں چلے گئے پہلے ہی دن جو عوام کی پذیرائی عمران خان کو حاصل ہوئی اس نے عمران کو ایک نئی سمت دکھائی، ایک نیا راستہ دکھایا، اسے حوصلہ ملا، سیاست میں ایک نئی زندگی ملی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے دھڑا دھڑا جلسے کرنا شروع کردیے۔ کپتان جلسوں میں عوام کی دلچسپی اور بڑے تعداد میں حاضری نے ایک جانب حکومت پر دباؤ کا باعث بنی دوسری جانب کپتان کے حوصلوں میں اضافہ کرتی رہی۔ منحرفین کے لیے عوامی دباؤ بڑھتا گیا، وہ جہاں کہیں بھی جاتے لوٹے لوٹے کے نعروں سے انہیں حزیمت کاسامنا اٹھانا پڑ رہا ہے،اب سپریم کورٹ نے فیصلہ یا رائے دی کہ منحرفین کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ اس فیصلہ پر اگر عدالت عمل در آمد کراتی ہے جس طرح تحریک عدم اعتماد پر عمل درآمد ہوا تو 13 یا 14 جماعتوں کی مخلوط حکومت کہا کھڑی ہوگی، پنجاب میں بیٹے کی حکومت کا کیا بنے گا۔ موجودہ سیاسی اور معاشی حالات کا حل جلد یا بدیر انتخابات ہی ہیں۔ یہ جس قدر جلد ہوں گے اتنا ہی جلد ملک عدم استحکام سے باہر آسکے گا۔ ٹیکنوکریٹ کی عارضی حکومت زیادہ بہتر انداز سے حالات کو سنبھال سکے گی۔دونوں فریقین یعنی میاں نواز شریف اور کپتان کو پاکستان کے سیاسی اور ابتر معاشی حالات کے پیش نظر وہ فیصلے کرنے چاہیے جو ملک اور ملک کے عوام کے مفاد میں ہوں۔اقتدار آنی جانیچیز ہے، ملک ہے تو ہم ہیں،اللہ نہ کرے اگر ملک کو کچھ ہوگیا تو کیسا اقتدار،کہاں کی کرسی، کیسی کرسی سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ خد ا را دونوں فریق ملک کے مفاد کو مقدم رکھیں۔ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔ (19مئی 2022ء)
|