طارق مرزا کی فطرت نگاری سحر انگیز ہے
(Tariq Mehmood Mirza, Australia)
شوکت علی ۔کوپن ہیگن، ڈنمارک
طارق محمود مرزا کا سفر نامہ ’’ملکوں ملکوں دیکھا چاند‘‘ شمال مغربی یورپ
کے ملک ڈنمارک، سویڈن اور ناروے کے ساتھ ساتھ قطرکے سفر کی سر گزشت ہے۔
اسکینڈے نیوین ممالک کا شمار دُنیا کے بہترین جمہوری ممالک میں ہوتا ہے۔
یوں اس کتاب کا مطالعہ اس لیے بھی اہم ہے کہ قاری جان سکے کہ حقیقی جمہوریت
عوام کے لیے کیسی فیوض و برکات کا باعث بنتی ہے۔ اس سفر میں مصنف کاپہلا
پڑاؤ ڈنمارک ہے جس کی عوام کو دُنیا کی سب سے خوش طبع قوم تسلیم کیا جاتا
ہے۔ گو کہ ڈنمارک کی تاریخ اپنے ہمسایہ ممالک سے جنگ و جدل کے ذکر سے بھری
پڑی ہے لیکن مصنف کو آج وہاں ہر ڈالی پر امن کی فاختہ چہچہاتی نظر آتی ہے۔
شاید یہ امن ہی اس خطے کے لوگوں کے خوش طبع ہونے کا راز ہے۔ ایک دوسری بات
جس کی طرف مصنف نے اشارہ کیا ہے وہ ڈینش تمدن کا مساوات کا نظریہ ہے جسے یہ
janteloven کہتے ہیں۔ جس کے مطابق کوئی بھی شخص اپنے آپ کو دوسرے سے برتر
سمجھنے کی غلطی نہ کرے اور اسی بات نے ہر ڈینش کو شخصی آزادی کے جذبے سے
سرشار کر دیا ہے۔ آج اس ملک کا شمار بہترین فلاحی ریاستوں میں سرفہرست ہے۔
شمالی یورپ میں موسم کی سختیاں ازل سے انسان کے دُو بدو رہی ہیں۔ بقول طارق
مرزا ’’اِس قوم نے ان سخت موسموں کے ساتھ نہ صرف جینا سیکھ لیا ہے بلکہ اسے
مسخر کر کے اپنے تابع کر لیا ہے۔ یہ موسم اْن کے کسی کام میں مخل نہیں ہوتے
اور عوام تعلیم، صحت، رسل و رسائل کے قابلِ رشک انتظام کی وجہ سے نہ صرف
خوش حال زندگی بسر کرتی ہے بلکہ دُنیا کی سب سے زیادہ خوش و خرم قوم بن کر
بتا رہی ہے کہ جینا ہے تو ہماری طرح جیو۔‘‘
طارق محمود مرزا کی تحریر کا انداز اکثر فکاہیہ ہوجاتا ہے مثلاً جب وہ ڈینش
قوم کی توہم پرستی کا ذکر کرتے ہیں کہ پرانے ڈینش اسٹاک ایکسچینج کی عمارت
کے مینارسے لپٹے ہوئے تین اژدھا یعنی ڈریگن جن کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے
کہ یہ اس عمارت کو بلاؤں سے محفوظ رکھتے ہیں یا پھر کراؤن بورگ قلعہ کے تہ
خانے میں سویا ہوا ہولگا ڈانسکا کا مجسمہ جس کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ
اگر ڈنمارک پرکوئی مصیبت آئی تو وہ بیدار ہوجائے گا اور ڈنمارک کو اس مصیبت
سے نجات دلا دے گا۔ طارق مرزا کے طنزیہ جملے کی کاٹ دیکھیے ’’ان سب کے
باوجود اہلِ مغرب ہم سے بہت پیچھے ہیں کیونکہ ہمارا تو نظام ہی فکر و عمل
پر نہیں بلکہ تعویذ، گنڈوں اورعملیات پر استوار ہے۔ حتیٰ کہ حکومت چلانے کے
لیے بھی وزیرِ با تدبیر کی بجائے پیر باتعویذ کا سہارا مقصود و مطلوب ہوتا
ہے۔‘‘
یہی طنز و مزاح سویڈن کے تحقیقی مرکز کیرولنسکا(Karolinska) کے ذکر میں بھی
نمایاں ہے ’’علم و تحقیق جیسا مغز ماری والا کام ہم نے گوروں کے لیے رکھ
چھوڑا ہے۔ ہم شاعری کے دیوان مرتب کرتے ہیں۔ سیاست سیاست کھیلتے ہیں۔ اُمت
میں افرادی اضافے کے لیے دن رات مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ ریستوران اور چائے
خانے خوب آباد رکھتے ہیں۔ موبائل اور سوشل میڈیا کے استعمال میں سب سے آگے
ہیں۔ دو نمبر اشیا بنانے اور اصلی بنا کر بیچنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔
بدعنوانی، ملاوٹ، دھوکہ دہی اور بے ایمانی میں ہمارا کوئی مقابلہ نہیں کر
سکتا۔ اتنی خوبیوں کے بعد اگر کتاب اور علم و تحقیق سے ہمارا ناتا ٹوٹ گیا
تو کیا غم ہے۔ صدیوں سے ہم نے کوئی چیز ایجاد نہیں کی تو اس کا کیاافسوس۔
آخر ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں۔‘‘
یہ فکاہیہ انداز مصنف کے اس درد کی بھی نشاندھی کرتا ہے جو ا س کی اپنی قوم
کی فکری، علمی واخلاقی پسماندگی نے اس کے دل میں پیدا کیا ہے اور اس درد کا
اظہار تنقید سے نہیں، اصلاح کے جذبے سے پھوٹا ہے۔
طارق مرزا کی فطرت نگاری(Naturalism) سحر انگیز ہے۔ انہیں خود فطری مناظر
سے لگاؤ ہے اور قاری کا ہاتھ پکڑ کر اس منظر میں شامل کر لیتے ہیں۔ وہ عجیب
وغریب عجائب گھروں کی بجائے’’ اپنی سماعت و بصارت کے در وا کر کے مصورِ
حقیقی کی بنائی رنگین ترین، حسین ترین اور عظیم ترین تصویرکی جانب متوجہ
‘‘ہونا چاہتا ہے۔شمالی مغربی یورپ کے اس خطے کا ذکر کرتے ہوئے ایسی تصویر
کشی کرتے ہیں کہ بے اختیار انسان کا جی اس منظر کا حصہ بننے کو چاہتا
ہے۔کوپن ہیگن کی منظر کشی ملاحظہ فرمائیے ’’جہاں وادیاں پھولوں سے مہکتی
ہیں، جہاں روئی کے گالوں کی طرح برف گرتی ہے تو زمین کی سبز چادر سفیدی میں
ڈھل جاتی ہے۔ اشجار سفید پیرہن پہن لیتے ہیں۔ جہاں سمندروں کا نیلا پانی
شہروں کے اندر شاخ در شاخ پھیلا ہے۔جہاں سرِ شام گھروں کی چمنیوں سے دُھواں
اْٹھتا ہے۔ جہاں گھنے جنگل ہیں، رنگین وادیاں ہیں، سر سبز پہاڑ ہیں اور یخ
بستہ ہوائیں سیٹیاں بجاتی ہیں۔ ‘‘
ناروے کی سرزمین پر اُترتے وقت بھی فطری مناظر کی خوبصورتی اور انسانی
جذبات کی ہم آہنگی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں’’ شفاف پانی کے چشمے،
شیشے کی طرح چمکتی جھیلیں، تالاب، سبزے کی وسیع وعریض چادر، پیڑوں کے جھنڈ،
لہلہاتی فصلیں، اکلوتے مکانات، خوبصورت چراگاہیں، ان میں چلتے پھرتے صحت
مند مویشی، پھلوں اور پھلوں سے لدے باغات، صاف و شفاف نیلا آسمان اور روشن
آفتاب ہمارے دائرہ نظر میں تھے جنھیں دیکھ کر انسان کا اندر بھی مہک اٹھتا
ہے‘‘
شمال مغربی یورپ کے ان ممالک کی تاریخ اور بادشاہوں کا ذکر کرتے ہوئے طارق
محمود مرزا ایک سیاح سے اچانک سیاسی دانشور کا رُوپ اختیار کر لیتے
ہیں۔شاہی محلات اور بادشاہوں کی طرزِ حیات دیکھ کر انھیں یوں لگتا
ہے’’تاریخ صرف بادشاہوں کی حالاتِ زندگی کا نام ہے۔ اس کے سواکچھ نہیں۔
تاریخ میں عوام کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ سوائے اس تعداد کے جو ان بادشاہوں
کی بادشاہت قائم رکھنے کے لیے جنگوں میں مرتے تھے۔‘‘جبکہ عوام کی کہانی
’’وہی حالات ہیں فقیروں کے‘‘کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ اس طرح کے تبصروں پر طارق
محمود مرزا کو ایک ترقی پسندسیاح قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
سویڈن میں شہر کی سیر کے لیے مخصوص بس میں سفر کرتے ہوئے مصنف ساؤتھ افریقہ
سے آئی خاتون سیاح ’’جولی ‘‘سے گفتگو کرتے ہیں جو ایک بے باک اور آزاد خیال
عورت تھی مگراس کا ’’ظاہر و باطن یکساں اور کھلی کتاب کی طرح تھا‘‘ ۔ جبکہ
مصنف کو ایک فرنچ عورت یاد آتی جس سے وہ پیرس میں ملے تھے، جس نے چار
پاکستانی بھائیوں سے یکے بعد دیگرے شادی کی۔ چاروں نے اس کے ذریعے فرانس
میں مستقل سکونت حاصل کی اور چاروں اس عورت کو طلاق دے کر باری باری دیسی
بیویاں بیاہ لائے۔یسی کہانیاں ہماری کیمونٹی میں بکھری ہیں۔مصنف اپنے
مشاہدے اور فن کہانی نویسی سے ایسی متعدد کہانیاں کا گلدستہ ’’ ملکوں ملکوں
دیکھا چاند ‘‘ میں سجا دیتے ہیں ۔ یوں ان کے اندر کا کہانی کار بھی تسکینِ
فن حاصل کرلیتا ہے ۔
ناروے کی آبادی اور شرح پیدائش کے متعلق مصنف کی معلومات فکر انگیز ہیں۔
ناروے کی آبادی میں1970ء سے2020 ء تک صرف دس لاکھ افراد کا اضافہ ہوا
ہے،جبکہ اسی عرصے کے دوران میں پاکستان کی آبادی میں سترہ کروڑ کا اضافہ
ہوا ہے۔ یہ اعداد و شمار بتانے کے بعد مصنف نے لکھا ’’ آبادی کے اس عظیم
فرق کے ساتھ پاکستان اور ناروے میں جو غربت اور امارت کا فرق ہے، اس کی وجہ
بھی سمجھ میں آتی ہے۔ کہاں تریپن لاکھ اور کہاں بائیس کروڑ۔ اگر پاکستان کے
وسائل یہی رہیں اور آبادی ترپن لاکھ ہو تو ملک میں کوئی غریب نہیں ہو گا۔
‘‘
شمال مغربی یورپ کے ان ممالک کی سیر کے بعد مصنف کا اگلا اور آخری پڑاؤ
مشرقِ وسطیٰ میں ایک بالکل مختلف تہذیب کا حامل ملک قطر تھا۔ مصنف کو
انتہائی خوشگوار تجربے سے گزرنا پڑا جب ہوٹل پہنچنے پر وہاں یورپ کی طرح
کمپیوٹرز کی بجائے مہمان نواز عملہ استقبال کرتا ہے۔ سہولتوں سے آراستہ
کشادہ کمرا اور وہ بھی یورپ کی نسبت آدھے دام پر ۔بقول مصنف’’ اس فرق کی
وجہ قطر میں یورپ اور آسٹریلیا کی نسبت کہیں ارزانی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے
کہ یہاں خدمات اس لیے سستی اور وافر دستیاب ہیں کہ ملازمین کا معاوضہ یورپ
کی نسبت کم ہے۔‘‘
مصنف کا دوسرا رُوح پرور تجربہ ہوٹل سے ملحقہ مسجد میں مختلف ممالک سے تعلق
رکھنے والے نمازیوں کے ساتھ فجرکی نماز کی ادائیگی تھی جب اِمام کی قرأت
اور نماز کے بعد کی دُعائیں‘‘آسمان کا در کھٹکھٹا رہی’’ ہوتی ہیں۔ قطر کا
قدیم بازار ’’ سْوق الوقف ‘‘ صدیوں پرانا ہے جو اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔
لیکن اسے نئے سرے سے آباد کیا گیاہے اور ایسا کرتے وقت ’’ اس بات کا خاص
اہتمام کیا گیا کہ اس کے روایتی خدوخال و تاریخی ہئیت متاثر نہ ہو۔‘‘ اس
دلچسپ اوررنگا رنگ بازار کی سیر مصنف نے نہایت عمدہ انداز میں کرائی ہے
۔قطری قہوہ خانے میں بل کی ادائیگی کے وقت مصنف کے لیے یہ بات خوشگوار حیرت
کا باعث بنی کہ ایسے قہوہ خانوں میں قہوے اور کھجوروں سے شغل مفت ہے۔ یہ
روایت قطریوں کی مہمان نوازی کی عکاس ہے۔قطر میں گھر کی ملازمائیں ان
داشتائیں بھی ہوتی ہیں۔ایک سے زائد شادیاں کرنے کے لیے آدمی کا مالدار ہونا
ضروری ہے عمر کی کوئی قید نہیں۔ اُدھیڑ عمر کے مرد جن کے پاس دولت نہیں وہ
وٹے سٹے میں ایک دوسرے کو اپنی بیٹیاں دیتے ہیں۔ عرب دنیا کا یہ پہلو جدید
دنیا میں کسی قدیم قبائلی زندگی کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ایسی دلچسپ معلومات اس
کتاب کا حصہ ہیں۔
’’ملکوں ملکوں دیکھا چاند‘‘ شمالی یورپ میں ڈنمارک، سویڈن، ناروے اور اسکے
ساتھ ساتھ ایک انتہائی مختلف تہذیب و ثقافت رکھنے والے ملک قطر کی سیاحت کی
رُوداد ہے۔اسکینڈے نیوین ممالک کے اس سفر نامے میں طارق محمود مرزا نے ان
ممالک کے قدیم جنگجویانہ دور سے جدید پُرامن دور تک کا سفر دکھایا ہے۔ ان
واقعات کا مطالعہ فکر انگیز اور چشم کشا ہے۔ طارق محمود مرزا حالات و
واقعات کا عمیق مشاہدہ کرنے اور انھیں انتہائی سادہ الفاظ میں بیان کرنے پر
ملکہ رکھتے ہیں۔ ان کی فطرت نگاری، دلکش فطری مناظر سے ان کے دلی لگاؤ کی
مظہر ہے۔ یقینا جس چیز کی تصویر کشی دل سے کی جائے وہ ایسی سحر انگیز ہوتی
ہے کہ قاری کے قلب و ذہن پر بھی ویسا ہی اثر کرتی ہے۔
یہ سفر نامہ پڑھتے ہوئے قاری اکثر مقامات پر اس تجربے سے گزرتا ہے۔یوں یہ
سفرنامہ بیک وقت دل اور دماغ پر دستک دیتا ہے۔
|
|