پنجاب میں حالیہ برسوں کے دوران عثمان بزدار کے ہاتھوں
پولیس کلچر سمیت صوبائی محکموں،سرکاری آفیسرز کی صلاحیتوں اورسرکاری وسائل
کی بربادی ہماری تاریخ کاایک سیاہ باب ہے۔پنجاب میں متعدد چیف سیکرٹری
اورآئی جی تبدیل کرنیوالے بزدار کی شرمناک تبدیلی اورعبرتناک رخصتی ہرکسی
نے دیکھی ،دعا ہے بزدار کے بعداقتدارمیں آنیوالے وزرائے اعلیٰ میں سے کوئی
اس کی غلطیاں نہ دہرائے ۔کپتان کی بیجاضد کے نتیجہ میں سیاسی طورپر"ناداں"
اور"ناتواں" بزدارساڑے تین برس تک تخت لاہور پر براجمان اورتخت اسلا م آباد
کودیمک کی طرح چاٹتا رہا ، اس نے "ہم توڈوبے ہیں صنم تم کوبھی لے ڈوبیں گے"
کے مصداق ڈوبنے سے قبل اپنے محسن کوبھی ڈبودیا۔عمران خان جہاں اپنے خلاف
واشنگٹن میں ہونیوالی بیرونی "ساز ش" اورنیب زدگان کی طرف سے "شورش
"کاتذکرہ کرتے ہیں وہاں انہیں بنی گالہ میں تیارکی جانیوالی اندرونی سازشوں
پربھی بات اوراپنی سیاسی غلطیوں پرقوم سے باضابطہ معذرت کرنا ہوگی ۔ جو
سیاسی پنڈٹ پنجاب کو بزدار سرکار سے نجات ملنے کامژداسنا رہے ہیں ، میں ان
سے متفق نہیں ہوں کیونکہ ہمارے ہاں ہر پرانے بزدار کے بعد نیابزدار آجاتا
ہے۔عنقریب اہلیان پنجاب کواس حقیقت کاادراک ہوجائے گا۔میں پھر کہتاہوں
پنجاب کو"بزدار " نہیں "بردبار" کی ضرورت ہے۔کوئی منتقم مزاج اچھا منتظم
نہیں ہوسکتا، یادرکھیں خودپسندحکمران حقیقت پسند نہیں ہوتے۔اگر ہماری ریاست
میں موروثیت کوفروغ دیاجاتا رہا تویہ مجرمانہ روش قومی سیاست کوبوجھ
اوربانجھ بنادے گی ۔اب پنجاب کے متعدد آفیسرز اپنے منصب یعنی اپنی تقرری سے
زیادہ اپنی عزت نفس بچانے کی سوچ میں غرق ہوں گے۔پنجاب پولیس کے ایک عزت
دار ڈی آئی جی نے پچھلے دنوں لاہور میں تقرری قبول کرنے سے معذرت کرلی تھی
،عزت داروں کے نزدیک تخت لاہور سے دوررہنا عافیت اور دانائی ہے۔باب العلم
حضرت علی ؓ کاایک قول ہے،"دولت ،طاقت اورحکومت ملنے سے انسان بدلتا نہیں
بلکہ بے نقاب ہوتا ہے"، لہٰذاء اب پنجاب میں کئی کرداروں کے چہروں سے نقاب
اتریں گے، ان کی انتظامی صلاحیت اورانتقامی روش کابھانڈا پھوٹ جائے گا۔
پاکستان کاسیاسی کلچر تبدیل ہو نہ ہولیکن ہرسیاستدان مسند اقتدار پربراجمان
ہونے کیلئے پولیس کلچر کی تبدیلی کادعویٰ ضرورکرتا ہے تاہم راقم نے اپنے
ہوش میں کسی منتظم اعلیٰ کو عوا م کیلئے "رنجیدہ"جبکہ پولیس اصلاحات کیلئے"
سنجیدہ" نہیں دیکھا۔زیادہ ترحکمرا ن عوام پر راج کرنے کیلئے پولیس
کو"استعمال ـ"اورپولیس کا"استحصال" کرتے ہیں۔جس وقت تک محکمہ پولیس منتقم
مزاج حکمرانوں،ان کے بدقماش حواریوں اورشرپسندعناصر کی سرپرستی کرنیوالے
سیاستدانوں کے رحم وکرم پرہے اُس وقت تک یہ پاک فوج کی طرح
خودمختاراورباوقار نہیں ہوسکتا۔میں نے متعدد آئی جی،سی سی پی او ، آر پی او
اورڈی پی او حضرات سمیت ان کے ماتحت پولیس آفیسرز کویہ شکوہ کرتے ہوئے سنا
ہے "شہری ہماری عزت نہیں کرتے"لیکن حقیقت یہ ہے جوآفیسرزشہریو ں کی عزت
اوراپنے منصب کے ساتھ انصاف کرتے ہیں شہری بھی ان کی دل وجان سے عزت کرتے
ہیں مگرجو آفیسرز منصب ملنے پرپلیدیذید اور ملعون فرعون کے نقش قدم پر چلنا
شروع کردیتے ہیں ناکامی وبدنامی اورپسپائی و رسوائی ان کامقدر بن جاتی ہے
۔ہماری پولیس میں کچھ آفیسرزپروفیشنل اور" سمارٹ" جبکہ زیادہ تر خودساختہ
"سمراٹ" ہیں۔"سمارٹ" آفیسرز سائلین کو سنتے ،ان کی اشک شوئی کرتے اورانہیں
ریلیف دیتے ہیں جبکہ "سمراٹ" آفیسرز اپنے کمانڈر کے احکامات تودرکنار کوئی
نصیحت تک نہیں سنتے۔انہیں لگتا ہے اگر وہ آفس میں آنیوالے سائلین کے ساتھ
عزت سے پیش آئے یاانہوں نے شہریوں کافون سن لیا تو ان کی رعونت اورفرعونیت
کی موت ہو جائے گی۔"سمارٹ"آفیسر اپنے" بگ باس" کے ہاتھوں" بازپرس" کے ڈر سے
قانون کے دائرہ سے باہرنہیں نکلتا جبکہ" سمراٹ" شب وروز شباب وشراب کی
محفلیں سجاتے،قانون کی دھجیاں بکھیرتے،منفی ہتھکنڈوں سے پراپرٹیاں اورارباب
اقتدار کے ساتھ تعلقات بناتے ہیں۔بدقسمتی سے ان دنوں لاہورپولیس کے ایس ایس
پی ڈسپلن کا اہم ترین منصب ماضی کے ایک ایس ایچ او کے پاس ہے ،افسوس کئی
برسوں کی سروس کے باوجود یہ شخص انصاف کرنے کی صلاحیت اور توفیق سے محروم
ہے۔ا س طرح کے نااہل ،بددماغ اورکنددماغ آفیسر اپنے سفارشی کیلئے بھی گناہ
بے لذت کاسبب بن جاتے ہیں۔کچھ لوگ سفارش اورسازش کے بل پربڑے منصب
پرتوآجاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کاظرف بڑا نہیں ہوتا۔ اگر ایس ایس پی
ڈسپلن کے آفس میں ملزمان سیٹ پربراجمان ہوسکتے ہیں تو وہاں باوردی ایس ایچ
اوکیوں نہیں بیٹھ سکتا۔آمرانہ مزاج کے تحت ایس ایچ او ز کو کھڑارکھنا کہاں
کاڈسپلن ہے، خاص طورپروہ ایس ایچ اوجس کیخلاف کوئی درخواست بھی نہ ہو۔جوشخص
خودماضی میں ایس ایچ اورہا، افسوس وہ نام نہاد محکمانہ ترقی کے بعد اپنے
سرکاری آفس میں آنیوالے ایس ایچ اوز کی ہتک کرنااپناحق سمجھتا ہے ۔جس محکمہ
پولیس کے آفیسر ایک دوسرے کی عزت نہیں کرتے توپھر شہری ان کی عزت کیوں کریں
گے۔ہمارے ہاں حکمران محض ذاتی پسندناپسنداوراپنے سیاسی مفاد کی بنیاد پر
اپنی مرضیاں اور تقرریاں کرتے ہیں،میں نے1985ء سے اب تک زیادہ تر حکمرانوں
کوخوشامدپسند اورکانوں کا کچادیکھاہے ۔ ان کے زیادہ تر اقدامات "انتظامی"
نہیں "انتقامی "ہوتے ہیں۔پولیس کلچر تبدیل کرنے کیلئے ارباب اقتدار کواپنا
مائنڈسیٹ بدلنا ہوگا۔پولیس کو بیجاسیاسی مداخلت سے پاک کئے بغیر اسے
ڈیلیورکرنے کے قابل نہیں بنایاجاسکتا۔
پنجاب پولیس میں"سمار ٹ اورسمراٹ" کون ہے ، یہ ہمارے باخبر شہری اور سرکاری
محکمے بخوبی جانتے ہیں۔ان دنوں سوشل میڈیا پر پولیس آفیسرز کی ایک خودساختہ
اوربوگس فہرست زیر گردش ہے جوکرپشن میں ملوث بتائے جارہے ہیں۔سنجیدہ طبقات
کے نزدیک سوشل میڈیا شتر بے مہار اورناقابل اعتماد ہے ، سوشل میڈیا پربیٹھے
زیادہ تر بقراط اورسقراط کوئی بھی پوسٹ یامعلومات شیئرکرتے وقت" سچائی تک
رسائی "کی زحمت گوارہ نہیں کرتے ۔پولیس آفیسرز پرمبنی یہ فہرست محض ایک
فراڈ ہے کیونکہ اس میں موجود متعدد کرداروں کی نفیس شخصیت ،پیشہ ورانہ
مہارت، اچھی شہرت، فرض شناسی اورنیک نامی کا ایک زمانہ مداح ہے۔کوئی دانا
حکمران اپنی ترجیحات ترتیب دیتے وقت یقینا اس جعلی فہرست کواہمیت نہیں دے
گا ۔یقینا اس فہرست کے محرک محکمہ پولیس کے اپنے کچھ نااہل اورسازشی کردار
ہوسکتے ہیں جوخود انتہائی بداوربدنام ہیں ،ان نادان،بدعنوان اورگالی گلوچ
کے عادی بدزبان عناصر کو لگتا ہے وہ سوشل میڈیا کی مدد سے اپنے محکمے کے
نیک نام اورانصاف پسند آفیسرز کامیڈیاٹرائل کرکے اتحادی حکومت کے دورمیں
خود کواچھی پوسٹنگ کیلئے موزوں امیدوار کی حیثیت سے پیش کرنے میں کامیاب
ہوجائیں گے، وہ گمراہ عناصر یادرکھیں اگرسارا پنڈ بھی مرجائے توکوئی بھانڈ
چوہدری نہیں بن سکتا۔اس فہرست کووائرل کرنے میں معاشرے کا مخصوص شرپسند
طبقہ بھی ملوث ہوسکتا ہے کیونکہ یہ عناصر سی پی اوسمیت پنجاب بھر میں
پروفیشنل ،ایماندار اورباکردارآفیسرز کی تقرریوں سے ڈرتے ہیں ۔تاہم اس
متنازعہ فہرست کاماسٹر مائنڈ کون ہے ،یہ دیکھنے،اسے بے نقاب اورگرفتار کرنے
کیلئے فوری اوراعلیٰ سطحی تحقیقات ناگزیر ہیں۔ ایف آئی اے حکام کوسرکاری
سطح پرحکم صادر کیاجائے کیونکہ اس فہرست کوتیار اورپنجاب میں افواہوں
کابازار گرم کرنیوالے ماسٹر مائنڈ کامحاسبہ از بس ضروری ہے۔آئی بی سمیت
دوسری سرکاری ایجنسیزکے پاس پولیس آفیسرز کی "کنڈلیاں "اور سیاستدانوں کے
ساتھ رابطے واسطے کی "کنڈیاں" تک ہوتی ہیں جووہ چاہیں بھی توچھپا نہیں سکتے
۔آفیسرز کی مثبت یامنفی شہرت ان سے پہلے تقرری والے مقام پرپہنچ جاتی ہے
کیونکہ لباس پر جوداغ لگتا ہے وہ تو اچھے پاؤڈر سے دُھل جاتا ہے لیکن کردار
پرلگنے والے دھبے ہرگز نہیں دُھلتے ۔
بظاہرڈیڑھ برس کیلئے اقتدارمیں آنیوالے حکمران تقرریو ں کے معاملے میں عجلت
اورمجرمانہ غفلت کے متحمل نہیں ہوسکتے ،وہ لاہور سمیت پنجاب بھر میں
تقرریاں کرتے ہوئے آفیسرز کی شخصیت اور شہرت سے چشم پوشی نہ کریں۔تاہم
سیاسی وفاداریوں کوبنیاد بناکر اہل آفیسرز کے ساتھ کام نہ کر نا غلطی ہوگی
کیونکہ آفیسرز کی وفاداریاں کسی حکومت نہیں بلکہ ریاست کے ساتھ ہوتی
ہیں۔میں سمجھتا ہوں آئی جی پنجاب کی حیثیت سے راؤسردار علی خاں نے چندماہ
میں اپنی اہلیت ،قابلیت اورصلاحیت منوائی ہے، انہیں برقراررکھیں توبہترہوگا
لیکن پنجاب میں حالیہ آئینی تبدیلی کے بعد شاید انہیں بھی تبدیل
کردیاجائے۔راؤسردارعلی خاں کے متبادل کیلئے یہ منصب اُس دانشمند ،دوراندیش،
انتھک اورزیرک آفیسر کودیاجائے جو"B"سے Benevolent اور Bountiful یعنی
خیرخواہ اورفراخ دل جبکہ "A"سے Approchable اورAmbitiousیعنی قابل رسائی
اوربلندنگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ عزت دار ،وضع داراور عوام کا حامی و"ناصر"
ہے ۔میں نے جس انتھک اور نیک نام آفیسرکے" کام" کی بنیادپران کا"نام
"تجویزکیا ہے ان کی قابل رشک شخصیت " شہرت" سے ماورا ہے،وہ اخبارات میں"
چھپنا "نہیں بلکہ میڈیاسے" چُھپنا"پسند کرتے ہیں۔وہ اخبارات نہیں بلکہ
اصلاحات اوراقدامات کے آدمی ہیں۔وہ بہتری کیلئے مکالمے اور اپنے محکمے میں
دوررس اصلاحات کے حامی ہیں۔میں اپنے گمان اورایقان کی بنیادپرکہتاہوں وہ
متعدد ملکوں اورمحاذوں سے حاصل ہونیوالے اپنے بیش قیمت مشاہدات اورتجربات
کے بل پرپولیس کلچر کی کایا پلٹ دیں گے ۔پنجاب پولیس کوایک گائیڈ نہیں قائد
کی ضرورت ہے۔
|