ایک تھا پاکستان جو 14 اگست 1947 کو دو قومی نظریے
کے تحت وجود میں آیا۔ وقت کے ساتھ ملک کا نظریاتی وجود کلعدم ہونے لگا اور
یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے نئے اور پرانے پاکستان میں تبدیلی ہوگیا۔ اس
دوران ملک پر مفاد پرست حکمران مسلط کیے گئے جن کی وجہ سے بدعنوانی، نا
انصافی، اقربا پروری اور بےقاعدگی عروج پر پہنچی۔ جبکہ عوام کے ہاتھ صرف
مہنگائی، بےروزگاری، پریشانی اور خودکشی آئی۔ عوام پر کرگس مسلط کرنے کا
سلسلہ اوائل آزادی کے دور میں ہی شروع ہوگیا اور شاہینوں کو غدار کا لقب
دیا جانے لگا جن میں قیام پاکستان کے سرکردہ رہنما فاطمہ جناح اور لیاقت
علی خان بھی شامل ہیں۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اب تو کافر اور غدار کے
تمغے عوامی سطح پر تقسیم ہونے لگے ہیں۔
ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ملک چین ترقی کی معراج کو پہنچ گیا۔ دوسری جنگ
عظیم میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی سے تباہ شدہ جاپان معاشی اور ترقی کے
اعتبار سے مزید مستحکم ہوگیا۔ بنگلہ دیش پاکستان سے جدا ہوکر زیادہ مستحکم
ہوگیا مگر پاکستان جس نے جرمنی کو مالی امداد دی اب خود کاسہ لیے مختلف
ممالک کے چکر لگاتا ہے۔
پاکستان میں بدعنوانی کی تاریخ بہت پرانی ہے ایوب خان کے دور میں ایک بار
خانہ کعبہ کا غلاف بنانے کی ذمہ داری پاکستان کے سپرد کی گئی ، ساتھ ہی
سعودی حکومت کی جانب سے قرآنی آیات کاڑھنے کے لیے سونے کی زری بھی مہیا کی
گئی مگر زری بدل دی گئی اور کچھ ہی دنوں میں غلاف میں لگی زری کا رنگ اڑنا
شروع ہوا۔ بےایمانی کا وہ سفر اب تک جاری ہے۔ عوام کو نیا پاکستان ، تبدیلی
، انصاف اور واپس پرانے پاکستان کی لالی پاپ پکڑا کر تقسیم کے مراحل سے
گزار کر کثیر القومی مملکت بنایا گیا جہاں کے باسی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے
کے روادار نہیں۔ عوام ایسے قائدین کے لیے آپس میں دست وگریبان ہیں جن کے
قول فعل میں تضاد ہے۔ ان کا مسلک و مذہب کرسی اور دولت ہے۔ جس کے لیے مذہب
اور کشمیر کارڈ کا بےدریغ استعمال کرتے ہیں۔ مانا کہ "جدا ہو دین سیاست سے
تو رہ جاتی ہے چنگیزی" مگر اس کا یہ مطلب نہیں کی سیاست میں دین کو اپنے
مفاد کے لیے استعمال کیا جائے ۔ ناموس رسالت ﷺ اور قرآن پاک کی بےحرمتی کے
وقت احتجاج کے بجائے مصلحتوں کا رونا رویا جاتا ہے اور اپنی مسند خطرے میں
ہو تو مذہب کارڈ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک بھی راہنما مخلص نہیں جسے دوسرے
پر فوقیت دی جاسکے۔ ہر کوئی اپنی خواہشات کا غلام ہے اپنے مقاصد کے حصول کے
لیے عوام کی سوچ سلب کی جاتی ہے۔ کارکن اپنے قائد کی محبت اور اندھی تقلید
میں تہذیب کے دائرے کو پار کرچکے ہیں۔
انتخابات جمہوریت کا حسن ہیں۔ مگر یہاں نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کے
جذبے کا فقدان ہے۔ جس کی بڑی وجہ عدم برداشت ہے اور انا پرستی ہے۔ اسی کے
نتیجے میں نظریاتی تصادم جنم لیتا ہے جو نفرت سے ہوتا ہوا گالی گلوچ اور
مار پیٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ نفرت کی اس آگ سے صرف دوستیاں ہی داؤ پر نہیں
لگیں بلکہ گھروں کی فضاء بھی مکدور ہوگئی ہے۔ لوگ مختلف پارٹیوں کے لیے
لڑتے ہیں اور لیڈر منافقت کا چھولا پہن کر الیکشن کے دنوں میں ہارس ٹریڈنگ
کرتے ہیں اور چور، ڈاکو اور چپڑاسی کے نام سے پکارے جانے والوں کے ضمیروں
کے سودے ہوتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہر دو پاکستان میں قائدین کے علاؤہ
ایوان اقتدار میں بیٹھے چہرے کم و پیش ایک ہی ہوتے ہی یعنی صرف علی بابا
بدلتا ہے اور چالیس چور وہی رہتے ہیں ۔
اگر نئے اور پرانے پاکستان کے لیڈروں کی اقدامات کا جائزہ لیں تو دونوں
ادوار میں عوام کو مخدوش حالات ملے۔ مسلط کردہ رہنما اپنے مفادات کی
پاسداری میں کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے۔ اپنی ناکامیوں کی ذمہ
داری دوسروں پر تھوپتے ہیں۔ مستقبل کے لیے نئے وعدوں اور برسر اقتدار آکر
پاکستان کو مزید بگاڑنے کے سوا ان کے پاس کچھ بھی نیا نہیں۔ ان کی ناکام
خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان معاشی طور پر ایسے بحران کا
شکار ہے جہاں سے نکلنا دہائیوں تک ممکن نہیں ۔ پھر بھی اگر تقابلی جائزہ
ناگزیر ہے تو اس کے لیے زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ اول تو دونوں
پاکستان کی داغ بیل ڈالنے میں اسٹیبلشمینٹ اور امریکہ کا کردار نظرانداز
نہیں کیا جا سکتا۔ دوئم پرانا پاکستان قدرے بہتر تھا مگر نئے پاکستان نے
غریب عوام کی کمر توڑ دی جہاں یوٹرن کے ساتھ منافقانہ پالیسیوں کی بھرمار
ہے۔ اس کے ہمایتی زیادہ تر وہ لوگ ہیں جن کی آمدنی ڈالرز میں ہے جبکہ غریب
طبقہ ناانصافی، بھوک اور افلاس کی جانب بڑھ گیا ہے۔صفر کارکردگی کے باوجود
نئے پاکستان میں اسلام کارڈ کے ساتھ کشمیر کارڈ اور خود مختاری کارڈ کا
استعمال بھی نسبتاً زیادہ ہے۔ منافقت کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ اسی
پاکستان میں اسقاط کشمیر کا دلخراش واقعہ پیش آیا اور کشمیر کے باسی کم و
پیش ایک سال تک کرفیو زدہ ماحول میں قید رہے مگر حکومت کی جانب سے مجرمانہ
خاموشی دیکھنے میں آئی۔
پچھلی حکومتوں کے برعکس ترقیاتی عمل بھی زمین کے بجائے کاغذوں میں زیادہ
قید رہے۔ نئے پاکستان نے ایک نہایت خطرناک سیاسی کھیل کی بنیاد رکھی جس کی
بنا پر شخصیت پرستی کے ایسے فتنے نے جنم لیا کہ لوگ عمران خان کی تقلید میں
اندھے بہرے بن گئے اور اپنے ایمان کو داؤ پر لگا کر ناعوذباللہ اسے نبی کے
برابر درجہ دینے سے بھی نہیں چوکے۔ مدینہ کی ریاست بنانے کے چکر میں مسجد
نبوی کا تقدس پامال کرکے اسے ہی پاکستان کی ریاست بنا ڈالا۔ ملک میں انارکی
پھیلا کر اسے غیر مستحکم کیا اور سول وار کی راہ ہموار کی۔
تبدیلی کے خواہاں عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ حقیقت تسلیم کرلیں کہ
تبدیلی لوٹوں اور نوٹوں کے ذریعے حکومت بنانے اور تقاریر کرنے سے نہیں بلکہ
عوامی سطح پر نظریاتی انقلاب سے آسکتی ہے۔ اس کے لیے پارٹی مفادات سے ہٹ کر
اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر کامیاب قوموں کی تاریخ سے اپنا موازنہ
ضروری ہے۔ ہر ایک کا اپنا نظریہ فکر ہے مگر نفرت اور گالی گلوچ سے پرہیز
کرکے ایک دوسروں کے نظریات کا احترام لازم ہے کیونکہ دکھ سکھ میں پارٹی
قائد نہیں بلکہ رشتے دار اور دوست ساتھ ہوتے ہیں۔ اس لیے جو قدم اٹھائیں
نئے اور پرانے پاکستان سے ماورا صرف پاکستان کو مقدم رکھ کر اٹھائیں۔
|