ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق بزدار دورحکومت میں کروڑوں روپے
رشوت دیکر کون اور کہاں تعینات ہوتا رہا اس رپورٹ میں بڑے بڑے ناموں کا
انکشاف ہوا ہے جو مخبری کا کام بھی کرتے رہے اعلی عہدوں پر براجمان ان
سرکاری اہلکاروں کے کارنامے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہر دور میں بھرتیوں
سے لیکر تعیناتیوں تک بندر بانٹ ہوتی رہی ایک اعلی عہدے پر تعینات میرے ایک
دوست اکثر کہتے تھے کہ پیکج چل رہے ہیں جتنی مدت کی ادائیگی کرو اتنی دیر
عہدہ لیکر خوب عیاشی کرو بزدار حکومت کے اس پیکج پر کام کرنے والوں کی ایک
لمبی اور طویل فہرست ہے جسے من و عن نقل کرنا چاہتا تھا مگر وزیر اعلی
پنجاب حمزہ شہباز شریف نے ایک اچھا کام کیا ہے تو میں نے سوچا کہ پہلے اس
پر لکھا جائے کیونکہ یہ جیلوں میں بند حوالاتیوں اور قیدیوں کا مسئلہ ہے
ہماری جیلیں تو ویسے بھی بدنام ہیں کبھی انہیں جرائم کی یونیورسٹیاں
کہاجاتا ہے تو کبھی ان جیلوں میں تعینات افسران کو ٹھیکیدار بنا دیا جاتا
ہے لوٹ مار کے ساتھ ساتھ ان جیلوں میں کرپشن کی بھی عجیب داستانیں ہیں غریب
آدمی کے لیے یہ جیلیں عقوبت خانے ہیں جبکہ پیسے والے بڑے ڈاکو کے لیے جیل
کسی بھی ریسٹ ہاؤس سے کم نہیں جب انکا دل کرتا ہے تاریخ لگوا کراپنے دفتروں
میں کام کرکے گھر میں بیوی بچوں سے بھی ملاقات کر لیتے ہیں امیر اور غریب
کو یکساں سہولیات فراہمکرنے کے لیے وزیراعلیٰ نے قیدیوں کی فلاح وبہبود
اورجیل اصلاحات کے لئے 17رکنی اعلی سطح کی کمیٹی قائم کردی جس کے لیے
کنوینرعبدالعلیم خان ہوں گے جبکہ ایڈیشنل سیکرٹری (پریزن) خصوصی کمیٹی کے
سیکرٹری ہوں گے خصوصی کمیٹی میں رکن پنجاب اسمبلی خواجہ سلمان رفیق،عائشہ
نواز،عنیزہ فاطمہ ،سید علی رضا شاہ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ،آئی جی جیل
خانہ جات،ڈائریکٹر جنرل پنجاب پروبیشن اینڈ پیرول سروس،سابق آئی جی جیل
خانہ جات میاں فاروق نذیر ،اسامہ خاور گھمن ،احد خان چیمہ،فاطمہ
بخاری،مدیحہ طلعت،میری جیمز کل، سپریٹنڈکوٹ لکھپت جیل اورہیومن رائٹس کمیشن
کا نمائندہ شامل ہوگا یہ خصوصی کمیٹی صوبہ بھر میں جیلوں کی صورتحال کا
جائزہ لیکر فوری طورپر بہتری لانے کیلئے سفارشات مرتب کرے گی کمیٹی قیدیوں
کی فلاح وبہبود اورجیل مینجمنٹ میں بہتری کیلئے تجاویز بھی پیش کرے گی
کمیٹی متعلقہ سٹیک ہولڈر سے عملی مشاورت کر کے جیل کے بوسیدہ سسٹم میں
اصلاحات مرتب کرے گی کمیٹی جیل قوانین اورانتظامی امور کے درمیان تفاوت کو
دور کرنے پر کام کرے گی اس کمیٹی میں اکثر اراکین جیل کے اندر بھی رہ چکے
ہیں جو ان یونیورسٹیوں کے حالات سے بخوبی واقف ہیں امید ہے کہ یہ سبھی
افراد مل جل کر جیلوں میں ایسی اصلاحات متعارف کروائیں گے کہ ایک عام قیدی
بھی انہی کی طرح جیل میں وقت گذار سکے جیسے علیم خان اور احمد چیمہ نے
گذارا تھا پاکستان میں جیلیں اور ان کی انتظامیہ آئین پاکستان کے تحت ایک
صوبائی قابلیت ہے پاکستان دنیا میں جیلوں کی 23ویں سب سے بڑی آبادی ہے اور
سزائے موت پانے والی آبادی میں 5ویں نمبر پر ہے تقریباً 64.5% قیدی مقدمے
کی سماعت کے منتظر ہیں قیدیوں میں 98.6% مرد، 1.7% نابالغ اور 1.2% قیدی
غیر ملکی شہری ہیں 2018 تک پاکستان میں 56,499 قیدیوں کی سرکاری گنجائش تھی
لیکن اس میں 80,145 قیدی تھے پنجاب جیل خانہ جات ایک اصلاحی تنظیم ایک
یونیفارم سروس اور صوبائی محکمہ داخلہ سے ایک منسلک محکمہ ہے یہ تنظیم
حکومت پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم کے انتظامی کنٹرول میں کام کرتی ہے
اس تنظیم کے فنکشنل سربراہ جیل خانہ جات کے انسپکٹر جنرل ہیں جو صوبے میں
43 جیلوں کا انتظام دیکھتے ہیں یہ تنظیم صوبہ کی مختلف مرکزی، ضلعی اور
خصوصی جیلوں میں قید قیدیوں کی تحویل، کنٹرول، دیکھ بھال اور اصلاح کی ذمہ
دار ہے پنجاب جیل خانہ جات کا محکمہ 1854 میں صوبہ پنجاب کی مختلف مرکزی،
ضلعی اور خصوصی جیلوں میں قید قیدیوں کی تحویل، کنٹرول، دیکھ بھال اور
اصلاح کے لیے قائم کیا گیا ڈاکٹر سی ہیتھ وے پہلے انسپکٹر جنرل (آئی جی)
تھے 1894 کا جیل ایکٹ (1894 کا ایکٹ نمبر IX) گورنر جنرل آف انڈیا نے کونسل
میں منظور کیا جس نے 22 مارچ 1894 کو گورنر جنرل کی منظوری حاصل کی ڈسٹرکٹ
جیل سیالکوٹ (1865 سے) ڈسٹرکٹ جیل شاہ پور ضلع سرگودھا (1873 سے) ڈسٹرکٹ
جیل جہلم (1854 سے) ڈسٹرکٹ جیل راجن پور (1860 سے) بورسٹل انسٹی ٹیوشن اینڈ
جووینائل جیل بہاولپور (1882 سے) ڈسٹرکٹ جیل ملتان (1872 سے) ڈسٹرکٹ جیل
فیصل آباد (1872 سے)، گوجرانوالہ جیل (1854 سے) اور صوبہ سندھ میں ڈسٹرکٹ
جیل (اب جوینائل جیل) دادو (1774 سے) 1894 میں جیل ایکٹ کی منظوری سے بہت
پہلے بھی فعال تھیں آزادی کے وقت پنجاب کو انیس (19) جیلیں وراثت میں ملی
تھیں جب کہ آزادی کے بعد اب تک صوبے میں مزید چوبیس (24) جیلیں بن چکی ہیں
اس وقت صوبے میں ایک (1) ہائی سیکیورٹی جیل، نو (9) سینٹرل جیلیں، 25 (25)
ڈسٹرکٹ جیلیں، دو (2) بورسٹل انسٹی ٹیوشنز اور نوعمر جیلیں، ایک (1))
خواتین جیل اور دو (2) سب جیلیں سینٹرل جیل ساہیوال ایک قدیم جیل ہے جو
ساہیوال میں واقع ہے اس جیل سے ملحقہ ہائی سکیورٹی جیل اور پنجاب جیل سٹاف
ٹریننگ کالج کی تعمیر تک رقبے اور زرعی اراضی کے حوالے سے یہ ایشیا کی سب
سے بڑی جیل ہے جیلوں کے انتظام و انصرام اور قیدیوں سے متعلق دیگر تمام
معاملات کو عام طور پر درج ذیل قوانین/قواعد کے تحت منظم کیا جاتا ہے اعمال
(1894 تا 2006) جیل ایکٹ 1894،قیدیوں کا ایکٹ 1900،پاگل پن ایکٹ 1912،پنجاب
بورسٹل ایکٹ 1926،گڈ کنڈکٹ پریزنرز پروبیشن ریلیز ایکٹ 1926،پنجاب ملازمین
کی کارکردگی نظم و ضبط اور احتساب ایکٹ (PEEDA) 2006 ،قواعد و ضوابط (1818
سے 2010)،1818 کا ضابطہ III (ریاستی قیدیوں کی قید کے لیے ایک ضابطہ)،اچھے
برتاؤ کے قیدیوں کی پروبیشن رہائی کے قواعد 1927،ویسٹ پاکستان جیل خانہ جات
ڈیپارٹمنٹ ڈیلی گیشن آف پاور رولز 1962،پاکستان جیلوں کے قوانین 1978،پنجاب
میں سزائے موت کے قوانین 1979،جوینائل جسٹس سسٹم رولز 2001-2002، نجاب جیل
خانہ جات کے محکمہ کے سروس رولز 2010 اور پاکستان میں پیرول سسٹم۔امید ہے
کہ یہ نئی کمیٹی جیلوں کو حقیقی معنوں میں اصلاح گھر بنائے گئی کیونکہ اس
میں سابق آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر بھی موجود ہیں جنکی جیلوں کے
حوالہ سے خدمات ناقابل فراموش ہیں انہوں نے اپنی محنت اور کوشش سے جیلوں کے
قیدیوں کے اس ظالمانہ نظام سے بچانے کی کوشش کی جیلوں کے اندر بنک قائم کیا
پی سی او لگوائے ٹھنڈے پانی کے کولر لگوائے امید ہے کہ موجودہ حکومت کسی
بھی پیکج سے ہٹ کر ایسے انتھک اور محنتی آدمی کو جیلوں کے حوالہ سے کوئی
اہم ذمہ داری بھی دینے جارہی ہے موجودہ آئی جی مرزا شاہد سلیم بیگ بھی ایک
نڈر اور خوبصورت انسان ہونے کے ساتھ ساتھ قابل رشک بھی ہیں جنہوں نے اپنے
طور پر جیلوں کا نظام بہتر بنانے کے لیے بہت اہم ذمہ داریاں سر انجام دی
ہیں ۔
|