وزیر اعظم کا دورۂ یوروپ: جھوٹ کے آگے پیچھے میڈیا چلتا ہے

رواں برس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے پہلا غیر ملکی دورہ جرمنی ، ڈنمارک اور فرانس کا کیا ۔ ہندوستان اور جرمنی کے درمیان ایک بین حکومتی مشاورت (آئی جی سی) کی ترتیب ہے۔ انڈو جرمن آئی جی سی کی میٹنگ ہر دو سال پر ہوتی ہے۔ اس سلسلے کی پچھلی نشست سن 2019ء میں دہلی کے اندرہوئی تھی اور اس وقت سابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس میں شرکت کی تھی۔اس بار جرمنی کو اس کی میزبانی کرنی تھی اس لیے مودی جی تشریف لے گئے۔ اس کےساتھ انہوں نے پڑوس کےملک ڈنمارک کی راجدھانی کوپن ہیگن میں اسکینڈینیویائی سربراہی اجلاس میں شرکت کرنےکا پروگرام بنالیا تاکہ دوبارہ جانے کی زحمت سے بچا جاسکے ۔اس سربراہی اجلاس میں ڈنمارک کے علاوہ ناروے، سویڈن، فن لینڈ اور آئس لینڈ بھی شریک ہوئے۔ اپریل 2018ء کے بعد یہ دوسرا اجلاس تھا ۔ اس میں سلگتے عالمی مسائل کے بجائے ماحول دوست ٹیکنالوجی، ماحولیاتی تبدیلیاں اور قابل تجدید توانائی پر تبادلہ خیال ہوا ۔

اس دورے سے قبل برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے نئی دہلی کا دورہ کیا تھا لیکن چونکہ کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا اس لیے غالباً یوروپی ممالک یوکرین کی بابت مودی سرکار سے مایوس ہوگئے ہیں ۔ہندوستانی وزارت خارجہ نے دورے کا مقصد ہندوستان اور یورپی یونین کے درمیان سیاسی، اسٹریٹیجک، تجارت، صنعت، ماحولیات، پائیدار ترقی، ڈیجیٹل اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں کے اندر فعال شراکت داری میں مضبوطی اور وسعت بتایا۔ یہ دورہ ایک ایسے نازک وقت ہوا کہ جب دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ عالمِ انسانیت پر ایٹمی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ یوکرین پر روسی حملے کی وجہ سے بے خانماں پناہ گزینوں کے سنگین مسئلے سے عالمِ انسانیت دوچار ہے ایسے ان سے غیر متعلق موضوعات پر وزیر اعظم کی توجہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کے پاس اس عالمی بحران سے نمٹنے کا کوئی ٹھوس لائحۂ عمل نہیں ہے اور نہ ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ ہے ۔ وہ نہ تو امریکہ کی مانند یوکرین کی کھل کر حمایت کرپارہے ہیں اور نہ چین کی طرح روس کے حامی ہیں ۔ ابن الوقتی پر منحصر ایک غیر واضح موقف ان کے پیروں کو زنجیر بنا ہوا ہے۔ گومگو کی کیفیت میں مبتلا ملک کی خارجہ پالیسی پر یہ شعر صادق آجائے کہ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
رہے دل میں ہمارے یہ رنج و الم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے

وزیر اعظم کے دورے کی پہلی منزل جرمنی تھی۔ جرمنی پر ہندوستانی انحصار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یوروپ میں سب سے زیادہ ہندی طلباء وہیں زیر تعلیم ہیں۔ فرانس میں ہندوستانی طلباء کی تعداد صرف 8000 ہے جبکہ اس سے تین گنا زیادہ 25000 طلباء برطانیہ میں پڑھتے ہیں ۔ ہندوستان اور برطانیہ کے اندر انگریزی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے اس لیے یہ فطری ہے مگر جرمنی میں جہاں ایک اجنبی زبان میں پڑھایا جاتا ہے 30000 ہندوستانی طلباءکا تعلیم حصول کی خاطر جانا ملک کے تعلیمی نظام پر سوالیہ نشان کھڑا کرتاہے ۔ ایسے میں اپنے معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے بجائے بی جے پی کبھی تو مہابھارت کو نصاب تعلیم میں شامل کرکے اپنی مقبولیت بڑھانے کی کوشش کرتی ہے تو کبھی تاریخ کو مسخ کرنے کی مہم چھیڑ دیتی ہے۔ یہ نہایت احمقانہ حرکت ہے کیونکہ ملک کے نصف سے زیادہ صوبوں میں غیر بی جے پی سرکار ہے اس لیے وہ تو اپنا نصاب تبدیل نہیں کرے گی۔ فی الحال ساری دنیا ایک گاوں بن چکی ہے۔ دنیا بھر میں ہندوستان کی ایک تاریخ پڑھائی جارہی ہے اور بی جے پی کی صوبائی حکومت والی ریاستوں میں دوسری ۔ ان طلباء کو جب باہر جانے کے بعد پتہ چلے گا کہ ان کی حکومت نے ہی انہیں اپنی تاریخ کی بابت گمراہ کیا تھا تو وہ اس کی بابت کیا رائے قائم کریں گے؟

وزیر اعظم نریندر مودی تو اپنے چہیتے گودی میڈیا کے کے علاوہ کسی کو انٹرویو نہیں دیتے مگر جرمن چانسلر اولاف شولس کی حالت ان سے مختلف ہے۔ شولس نے ہندوستان کے معروف انگریزی اخبار ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ سے ایک خصوصی انٹرویو میں ہندوستان اور جرمنی کے درمیان یوکرین کے خلاف روسی کارروائی سے متعلق وسیع تر اتفاق کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق یوکرین پر روسی حملہ تمام یورپ کے ایجنڈے پر سر فہرست ہے۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ روس کی جنگ، خود مختاری اور بین الاقوامی سرحدوں کے احترام و تحفظ اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ یوکرین میں شہریوں کے خلاف روسی جارحیت کی بربریت افسوسناک اور خوفناک ہے۔ شولس نے شہری آبادی کے خلاف قتل عام اورجنگی جرائم کے احتساب کا مطالبہ کیا ۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ ہندوستان دفاعی نکتہ نظر سے روس پر بہت انحصار کرتا ہے اور جرمنی کا بھی توانائی کے لیے روس پر بہت انحصار ہے، تو کیا دونوں ملکوں کا طرز عمل مختلف ہے؟ اس پر جرمن چانسلر نے کہا یورپی ممالک نے روسی اقدامات کے خلاف بہت سے سخت فیصلے کیے ہیں اور روس کے خلاف بہت ہی غیر معمولی پابندیاں عائد کی ہیں۔

اس کے برعکس وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے پہلے ٹویٹ میں یوکرین کا ذکر کرنا تک ضروری نہیں سمجھا۔ انہوں نے لکھا کہ وہ چانسلر اولاف شولس کے ساتھ بات چیت کے بعد کاروباری رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کریں گا اور ایک کمیونٹی پروگرام میں ہندوستانی برادری سے خطاب کریں گے( جو ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے)۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان دوستی کو فروغ پر زور دیا ۔ اس سے پتہ چلا کہ انہیں عالمی مسائل میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ مودی کی مجبوری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ملک میں خانہ جنگی جیسی صورتحال پر قابو کرنے کی حالت میں نہیں ہیں بلکہ اپنے سیاسی فائدے کے لیے اس کو فروغ دیتے رہتے ہیں۔ مودی جی کے لیے یوکرین میں انسانی حقوق کی مخالفت کرنا بھی مشکل ہے کیونکہ وطن عزیز کے اندر یہ پامالی زور و شور سے ہورہی اور وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کے دورے کی مخالفت کرتے ہوئے برلن اور دیگر جرمن شہروں میں ’’مودی کا جرمنی میں استقبال نہیں‘‘کے عنوان سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے جنہیں نمک خوار گودی میڈیا نظر انداز کردیا۔

اس حقیقت سےکون انکار کرسکتا ہے کہ 2014 میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد سے ہندوستانی معاشرے کو مذہبی خطوط پر مسلسل تقسیم کرکے مذہبی منافرت کےفروغ کا کام سرکاری سرپرستی میں ہورہا ہے۔ مودی دور میں سنگھ پریوار نے اقلیتوں پر اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں اور ان میں مساجد اور دیگر املاک کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس لیے دنیا کے ممالک مودی سرکار کی شبیہ خراب ہوچکی ہے۔ امریکہ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بڑی تفصیل کے ساتھ ان واقعات پر گرفت کرکے ہندوستان کو توجہ طلب ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ اس تناظر میں وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے کسی سادھو کی مانند پروچن سنانے کے علاوہ چارۂ کار ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے روس اور یوکرین کے درمیان جاری کشمکش کی بابت کہا اس میں کوئی بھی ملک فاتح نہیں ہوسکتا۔ جنگ کو ختم کرنے کے لیے اپیل کرکے انہوں نے ہندوستان امن کی حامی بتایا ۔ یہ ایسا پھسپھا بیان ہے کہ اس سے مودی جی نے قومی وقار کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس طرح کی گول مول باتوں پر نہ کوئی کان دھرتا ہے اور نہ یہ بیانات کسی کو متاثر کرتے ہیں ۔

مودی سرکار کے اوپر سے عالمی رہنماوں اور اداروں کا اعتبار وقت کے ساتھ ختم ہوگیا ہے ۔ اس کا ایک ثبوت وزیر اعظم کے غیر ملکی دورے سے لوٹتے ہی آنے والی عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی نئی رپورٹ ہے۔ اس کے مطابق ہندوستان میں کورونا کی وباء 47 لاکھ سے زائد ہلاکتوں کا سبب بنی جو کہ سرکاری اعلان سے تقریباً 10 گنا زیادہ ہے۔ ورلڈ مورٹیلٹی ڈیٹا سیٹ کے محقق تمام وجوہات سے ہونے والی اموات کے بارے میں تازہ ترین ڈیٹا فراہم کرتے ہیں ۔ ڈبلیو ایچ او کے نزدیک کووڈ کی وجہ سے 2020 اور 2021 کے دوران عالمی سطح پر ہونے والی اضافی اموات کے تخمینے کا ایک سادہ پیمانہ پچھلے برسوں کے مقابلے میں ہونے والی زیادہ ا موات ہے۔ ہندوستان ان 20 ممالک میں شامل ہے جو تقریباً پچاس فیصد عالمی آبادی کی نمائندگی کرتا ہے ۔ اس مدت کے لیے متوقع عالمی اضافی اموات کا 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس کے برعکس ہفتے کے اوائل میں حکومت ہندنے سول رجسٹریشن کے اعداد و شمار جاری کیے جس میں سنہ 2020 میں 81 لاکھ اموات ظاہر کی گئیں، جو پچھلے سال کے مقابلے میں صرف 6فیصد زیادہ ہیں۔ ایسے میں اگر راہل گاندھی کہتے ہیں کہ مودی جھوٹ بول سکتے ہیں مگر سائنس نہیں، تو اس میں کیا غلط ہے؟ کوئی سرکار اگر اپنے ملک میں مرنے والوں کی تعداد کے حوالے سے دس گنا بڑا جھوٹ بول سکتی ہے تو زندوں کی بابت اس کی کذب گوئی کا حساب کتاب رکھنا نا ممکن ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم کے بلند بانگ دعووں پر ان کے بھگتوں کے علاوہ کون اعتبار کرسکتا ہے؟
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری )

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449116 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.