اس وقت ملک میں اینٹی عمران اور پرو عمران سیاست ہو رہی
ہے، عمران خان نے تقریباً پونے چار سال حکومت کی اور وہ ملک میں سیاہ و
سفید کے مالک بنے رہے، عمران خان کے دور اقتدار کی بات کی جائے تو کوئی
ایسے بڑے کام نہیں کئے گئے جس کا ذکر کیا جا سکے، البتہ سینکڑوں نہیں تو
درجنوں ایسے اقدامات کئے گئے جس سے ملک کا اچھا امیج نہیں گیا۔ مہنگائی کی
ہی بات کر لی جائے تو قیام پاکستان کے بعد سے لے کر اب تک کسی بھی حکومت کے
چار سالوں میں اتنی مہنگائی نہیں ہوئی جتنی عمران خان کے دور حکومت میں
ہوئی، بجلی، بلوں کی قیمتوں میں اضافے اور روز مرہ استعمال کی اشیاء مہنگی
ہونے سے لوگ فاقوں پر مجبور ہوئے۔ عمران خان کا دور اقتدار غیر قانونی اور
غیر آئینی اقدامات بھرا پڑا ہے اور اس دوران حکومت کو اداروں کی بھی حمایت
حاصل رہی، عمران خان نے سیاسی مخالفین کا جینا حرام کئے رکھا، مگر جھوٹے
کیسوں سے کیا نکلنا تھا۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے
مگر جھوٹ کی نہیں اور جھوٹ کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ عمران خان نے اپنے دور
اقتدار میں قوم کو خودداری کے پیچھے لگائے رکھا اور خود آئی ایم ایف سمیت
غیر ملکی اداروں کی غلامی کرتے رہے، ملک کو گرے لسٹ سے نہ نکال سکے، ابھی
نندن کو پکڑتے ہی امریکہ سے ایک فون آنے پر چھوڑ دیا، امریکہ کے فون پر ہی
حافظ سعید کو پابند سلاسل کر دیا، امریکہ کے کہنے پر ہی اسلام آباد سے
امریکیوں کو تمام غیر قانونی کام کرنے کی چھوٹ حاصل تھی۔ عمران خان کے
یوٹرنز کی بات کی جائے تو ایک لمبی لسٹ ہے جس کیلئے کتاب بھی کم پڑ جائے،
مگر چیدہ چیدہ کا ذکر ضرور کرونگا، عمران خان کہا کرتے تھے میں قرض نہیں
لونگا، اور اتنا قرض لیا کہ ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے، اس میں کوئی دو
رائے نہیں کہ ماضی میں بھی قرض لئے گئے اور نواز شریف نے بھی لئے مگر وہ
رقم کہاں خرچ ہوئی سب کو نظر بھی آیا۔ نواز شریف نے موٹروے بنائی، بجلی کے
منصوبے لگائے، ڈیمز پر کام کیا، مہنگائی نہ بڑھنے دی، ڈالر کو قابو کئے
رکھا، غریب کو روزگار حاصل تھا۔ خیر بات ہو رہی تھی عمران خان کے یوٹرنز کی،
عمران خان کہا کرتے تھے جو حکمران مہنگائی کرتا ہے سمجھو وہ چور ہے اور سب
سے زیادہ مہنگائی جناب عمران خان صاحب نے کی، عمران خان کہا کرتے تھے جب
ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو قرضے بڑھتے ہیں، اور خان صاحب کے دور میں ڈالر ایسے
اوپر گیا جیسے ثواب کا کام ہو۔ بجلی، گیس، پٹرول سستے کرنے کا اعلان کیا
مگر قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا، میٹرو بسیں نہ بنانے کا اعلان کیا اور
پشاور میں میٹرو بس پر اتنی رقم خرچ کر دی کہ پانچ میں میٹرو بن سکتی تھی،
بھارت اور امریکہ سے دوستی نہ کرنے والے نے دونوں سے دوستی کرنے کیلئے
منتیں کیں، سکیورٹی پروٹوکول نہ لینے کا اعلان کیا مگر درجنوں گاڑیوں میں
سفر کیا، گورنر ہاؤسز اور وزیراعظم ہاؤس کو لائبریریز بنانے کے اعلان پر
بھی یوٹرن لیا، عمران خان نے حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار امریکی خط کو قرار
دیا اور عوام کی ہمدردیاں لینے کا منصوبہ بنایا مگر پھر خود ہی کہہ دیا
میری حکومت اداروں نے گرائی، میں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو بطور
ڈی جی آئی ایس آئی برقرار رکھنا چاہتا تھا مگر آرمی چیف نے ایسے نہیں ہونے
دیا، جس پر اختلافات ہوئے، اور حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ خیر اچھا ہوا
عمران خان وزیراعظم بنے حکومت کی، پونے چار سال تک ملک میں سیاہ و سفید کے
مالک بنے رہے اور اْن کا بھی علاج ہو گیا ہو گا جو کہا کرتے تھے کہ خان کو
ایک چانس تو ملنا چاہئے وہ بہت اچھا ہے اور نہیں تو پرانوں سے اچھا ثابت
ہوگا، امید ہے جو عوام خان کو وزیراعظم بنتا دیکھنا چاہتے تھے وہ آدھے بھی
نہیں رہ گئے ہونگے کیونکہ عمران خان کے دور حکومت میں ہر دوسرا پاکستانی یہ
کہتا نظر آیا کہ عمران خان سے تو وہ ’’چور اور ڈاکو‘‘ ہی اچھے تھے جن کے
دور میں آئے روز مہنگائی کے بم تو نہیں گرائے جاتے تھے، ’’چوروں اور ڈاکوؤں‘‘
کے دور میں عوام باعزت طریقے سے بچوں کو دو وقت کی روٹی تو کھلاتے تھے۔
وزیراعظم عمران خان ملکی تاریخ کے مضبوط مگر ناکام ترین وزیراعظم ثابت ہوئے۔
آخر میں صرف اتنا کہنا چاہونگا پاکستان ہم سب کا ہے اور ہم سب نے ہی مل کر
عمران خان کا گند صاف کرنا ہے، تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اقتدار
میں آنے والی حکومت میں تمام اتحادی جماعتیں شامل ہیں اور ایسے میں حکومت
کیلئے کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اس لئے حکومت میں شامل جماعتوں کو چاہئے
فوری انتخابی اصلاحات کی طرف جائیں، اکتوبر میں نئے چیف کی تقرری کریں اور
نئے الیکشن کروائیں اور دوبارہ جس کی بھی حکومت آئے وہ تحریک انصاف کا ڈٹ
کر احتساب کرے اور قوی امکان ہے عمران خان، فرح گوگی اور عثمان بزدار سے
اتنی رقم برآمد ہو گی کہ ہمیں قرض لینے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا
پڑے گا۔ پاکستان زندہ باد۔
|