سلیکٹڈ بہ مقابلہ امپورٹڈ 25مئی 2022
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
سلیکٹڈ بہ مقابلہ امپورٹڈ 25مئی 2022 ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 25مئی 2022ء ہمیشہ یاد رکھا جائے گاجیسے سانحہ ماڈل ٹاؤن جو 17جون 2014ء میں ہوا جس میں 14لوگ گولیوں کا نشانہ بنے، سانحہ کراچی 12مئی 2007ء جس میں متعدد جانیں گئیں۔ اس قسم کے واقعات ماضی میں بھی ہوئے۔ ان پر جتنا بھی افسو س کیا جائے کم ہے۔ افوس اس بات کا ہے کہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے ماضی کے ان واقعات سے سبق نہیں سیکھا، اقتدار میں وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگتے ہیں، جیسے رانا ثناء اللہ سے بڑھ کر کوئی منصوبہ ساز نہیں، مریم شریف سے بڑھ کر کوئی سیاست داں نہیں، کپتان سے بڑا کوئی لیڈر نہیں۔اقتدار میں آنے کے بعد مخالفین وطن دشمن، ملک دشمن نظر آنے لگتے ہیں۔ اللہ ہمارے سیاست دانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے کہ وہ اپنے اقتدار کی حوس میں اندھے نہ ہو جایا کریں۔ مخالف جماعت کے حامی، ان کے مخالف ضرور ہوتے ہیں لیکن وہ مسلمان، محب وطن، پاکستان کے شہری ہوتے ہیں۔ مخالف جماعت کا حامی ہونا کوئی جرم نہیں، کوئی گناہ نہیں، کوئی عیب نہیں۔ پاکستان کا آئین اجازت دیتا ہے کہ وہ اختلاف کریں، اپنا نقطہ نظر بیان کریں، جس سیاسی جماعت میں چاہیں شامل ہوں۔ مخالفت برائے مخالفت نہ ہو، تعمیری مخالفت رکھناکوئی غلط بات نہیں۔ 25مئی 2022ء کو جو کچھ ہوا، افسوس ناک تھا۔ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن دونوں جانب سے ذمہ داران آگ پر تیل چھڑکتے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں سبقت لے جانے کی سعی ئ کرتے نظر آئے جس کا نتیجہ ہمارے آپ کے سامنے ہے۔ سلیکٹڈ حکومت کے گرائے جانے کے بعد امپورٹڈ حکومت کے خلاف عمران خان کو پہلے ہی دن اسلام آباد میں جو عوامی پذیرائی ملی اس سے کپتان اور اس کی ٹیم کے حوصلے بڑھے اور پھر جب ملک کے بڑے بڑے شہروں جیسے پشاور، کراچی، لاہور میں بڑ ے بڑے کامیاب جلسے ہوئے، ان میں عوام کا سمندرامنڈ آیا اس نے کپتان کے حوصلے اور بھی بلند کر دیے۔ کپتان ان جلسوں میں امپورٹڈ حکومت خاص طور پر نون لیگ کو آڑے ہاتھوں لیتا رہااور پھر وہ دن آگیا کہ کپتان نے 25مئی کو دھرنے کی کال دے دی۔ جس میں کپتان کے کہنے کے مطابق بیس لاکھ افراد نے پورے پاکستان سے شرکت کرنا تھی۔ دھرنے کے اعلان کے بعد حکومت ِ وقت مشکل میں نظر آئی کہ وہ کیا کرے، کپتان کے مطالبے فوری انتخابات کی جانب جائے یا کپتان کے سامنے طاقت کا استعمال کرے۔ واضح طور پر حکومت وقت میں دو آرا تھیں۔انتخابات وقت مقررہ پر کرانے کے حق میں سب سے بلند آواز آصف علی زرداری صاحب کی تھی، مولانا فضل الرحمن بھی گو ما گو کی کیفیت میں تھے۔ وزراء کی اکثریت وقت پورا کرنے کی حامی تھی۔ اور کیوں نہ ہوتی، مشکل میں تو نون لیگ ہے، اتحادی جماعتوں کے وزیر تو اقتدار کی سہولتوں، آسائشوں، پروٹوکول کو انجوائے کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ 25مئی جس دن عمران خان اپنے حامیوں کا سمندر لے کر اسلام آباد آرہا تھا، اسے آزادی مارچ کا نام دیا گیا ہے۔ یقینا میاں شہباز شریف کے لیے وہ لمحات خوشی کے نہیں ہوں گے جب کہ پولیس نہتے لوگوں پر جن میں خواتین، بوڑھے اور بچوں پر اشک آور گیس، ربر کی گولیاں اور لاٹھیاں برسارہی تھی، متعدد وزرا ملک سے باہر وقت گزار رہے تھے۔ بہ ظاہر حکومت تیرہ چودہ جماعتوں کی ہے لیکن مخالفین کی توپوں کا منہ نون لیگ اور شہباز شریف کی جانب ہے۔ مزے سب لوٹ رہے ہیں برا بھلا میاں شہباز شریف کو کہا جارہا ہے۔ کپتان نے میاں شہباز شریف کو مخاطب کیا، اس نے مریم نواز کا نام بھی نہیں لیا۔ حالانکہ مریم نواز نے ایک نہیں دو پریس کانفرنسیز کیں۔ رانا ثنا ء اللہ نے جو کچھ کہا سب کے سامنے ہے، کپتان نے اس کا نام بھی نہیں لیا، حالانکہ جو کچھ ہوا وہ وزیر داخلہ کے حکم پر ہوا۔ مریم اورنگزیب تو کپتان کے سامنے کچھ نہیں۔ وہ اپنی پریس کانفرنسیز میں کپتان کے انقلاب مارچ کو فتنہ فساد مارچ کہتے رہے۔ عمران خان کے حامیوں کو لگام دینے کی ذمہ داری وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے پاس تھی۔ رانا صاحب کے بارے میں کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں، نامی گرامی، معروف شخصیت ہیں، ماڈل ٹاؤن واقعہ سب کو یاد ہے۔ انہوں نے جو پلان ترتیب دیا اس کے مطابق پولیس کو ہر شہر میں عمران کے حامیوں پر اشک آور گیس کے گولے برسانے کا حکم دیا گیاپولیس نے ایسا ہی کیا، محسوس ہوتا تھا کہ پولیس والوں کی آنکھیں بند ہیں، اپنے ہاتھ میں موجود اشک آور گیس کے گولے مخالفین پر پھینکنے والی گنوں کا ٹریکر دبانے کے سوا انہیں کچھ نظر نہیں آرہا۔ نہیں معلوم ان پولیس والوں کے گھروں میں ان کی مائیں، بہنیں، بھائی، بیوی اور بچے نہیں۔ مانا ان کا کام حکم بجالانا تھا اگر وہ اپنی آنکھوں کو کھول کر، یہ دیکھ کر کہ وہ جن پرربرکی گولیاں، آنسوں گیس اورڈنڈے برسارہے ہیں وہ بھی ان ہی کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں جیسے ہیں۔ افسوس صد افسوس۔ کپتان نے جو منصوبہ مرتب کیا اس کے مطابق لوگوں کو اسلام آباد پہنچنے کے لیے کہا، یہ بھی کہا کہ جو لوگ اسلام آباد نہ پہنچ سکیں وہ اپنے اپنے شہروں میں احتجاج ریکارڈ کرائیں، وہ از خود پشاور سے بڑے قافلے کے ساتھ اسلام آباد پہنچے گا۔ ایسا ہی ہوا، لاہور سے جو قافلے نکلے ان کے ساتھ پولیس نے جو کچھ کیا ٹی وی اسکرین اسے دکھاتا رہا۔خواتین اور بچوں کا بھی خیال نہ کیا گیا، علامہ اقبال کے گھر جس میں علامہ اقبال کی بہو اور پوتا رہائش پذیر ہیں رات میں چھاپا مارا گیا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کی گاڑی پر حملہ کیا گیا، ان کے ساتھ زیادتی کی گئی، کراچی پولیس تو ماشاء اللہ، کیسے پنجاب پولیس سے پیچھے رہ سکتی تھی، اس نے اشک آور گیس، ربر کی گولیاں، ڈنڈوں کے علاوہ اسٹیٹ فائر بھی کیے گئے، گولیوں کے خول ٹی وی پر دکھائے گئے۔ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔روزنامہ جنگ کی خبر کے مطابق سندھ پولیس نے 13کروڑ روپے مالیت کا آنسوں گیس شیل کا ذخیرہ خریدا۔یہ ذخیرہ استعمال ہوتا دکھائی بھی دیا۔ کپتان کا قافلہ پشاور سے روانہ ہوا، مختلف علاقوں سے قافلے مرکزی قافلے میں شامل ہوتے رہے۔ اٹک پل پر جو رکاوٹیں تھیں انہیں کپتان کے ٹائیگرز نے افرادی قوت کے علاوہ کرینوں اور دیگر مشینوں کے ذریعہ مہارت سے ہٹادیا۔ اس مرتبہ رکاوٹوں کو دور کرنے کی حکمت عملی سوچ سمجھ کر بنائی گئی تھی، قافلے میں جہاں گاڑیاں، کاریں، موٹر سائیکلیں تھیں وہاں بھاری مشینری، بلڈوزر، کرین، ٹریکٹر، ڈمپر وغیرہ قافلے کے آگے آگے تھے اور وقت ضرورت ان سے کام لیا گیا۔ ایک جانب کپتان کا قافلہ پشاور سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا تو دوسری جانب مختلف شہروں خاص طور پر لاہور، کراچی اور اسلام آباد میدان جنگ بنے ہوئے تھے۔دن بھر پولیس اور کپتان کے ٹائیگرز کے درمیان چاند ماری ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ رات ہوگئے اسلام آباد میں لوگ ڈی چوک پر جمع ہونا شروع ہوگئے۔ اس لیے کہ کپتان اپنے قافلے کے ہمراہ مختلف جگہ لوگوں سے خطاب بھی کرتا رہا جس میں اس نے لوگوں کو ڈی چوک پہنچنے کے لیے کہا حالانکہ سپریم کورٹ نے ڈی چوک کے علاوہ کشمیر روڈ، ایکسپریس ہائی وے مقرر کردی تھی لیکن کپتان نے سپریم کورٹ کے احکامات اس وقت کیوں نہیں مانے، اسی طرح حکومت کو سپریم کورٹ نے احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کرنے انہیں مقررہ جگہ احتجاج کرنے کی سہولت فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ سپریم کورٹ ثالثی پر تیار اور دونوں فریقین کو آپس میں مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے کر گفت و شنید کرنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن دونوں جانب سے کمیٹیاں تو بنا دی گئیں لیکن مذاکرات شروع ہونے سے قبل ہی کمیٹیوں کی کار کردگی صفر رہی۔ ممکن ہے اب چیف جسٹس دونوں فریقین کو مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھانے پر مجبور کردیں۔ ہونا بھی چاہیے سیاسی مسائل کا حل گفت و شنید سے ہی نکلتا ہے۔ سپریک کورٹ نے حکومت کو چیرئ مین پی ٹی آئی کی گرفتاری و چھاپے روکنے اور احتجاج کے لیے جگہ فراہم کرنے کا حکم بھی دیا۔ مظاہرین کو جلسے کے بعد پر امن طور پر لوٹنے کی ہدایت بھی کی۔ کپتان کا قافلہ بیس گھنٹے بعد اسلام آباد ڈی چوک پہنچا، صبح ہوچکی تھی، تھکن سے چورقافلہ ڈی چوک اور اس کے گرد جمع تھا۔ دوسری جانب جب یہ خبر آئی کہ کپتان کا قافلہ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوگیا ہے، حکومت کی جانب سے احکامات جاری ہوئے جن کے مطابق ریڈ زون اور دیگر حساس عمارتوں اور اداروں کی سیکوریٹی فوج کے سپرد کردی گئی ہے۔ عدالتی فیصلے پر رکاوٹیں ختم کردی گئیں۔ کپتان نے ڈی چوک پہنچ کر خطاب کیا جس میں انہوں نے تفصیل سے حالات اور واقعات بیان کیے۔ آخر میں کہا کہ اس نے دھرنا دینے کی بات کی تھی لیکن وہ نہیں چاہتے کہ انہیں پولیس اور فوج سے لڑادیا جائے اس لیے وہ حکومت کو 6دن کی مہلت دے رہے ہیں اگر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا تو ٹھیک ورنہ وہ پھر چھ دن بعد دھرنا دینے اسلام آباد پہنچ جائے گا۔ کپتان تو دھرنا دینے آئے تھے، پھر اچانک یہ کیا ہوا کہ انہوں نے دھرنا نہیں دیا بلکہ حکومت ِ وقت کو چھ دن کی مہلت دیتے ہوئے اپنا احتجاج موخر کردیا۔ میری دانشت میں لیڈر وہی ہوتا ہے جو درست وقت میں درست فیصلے کرے، اسے اپنے کارکنوں اور چاہنے والوں کا خیال بھی ہو، کپتان نے جو فیصلہ کیا وہ حالات اور واقعات کے مطابق درست فیصلہ ہے۔ جس قسم کے حالات دن بھرگزرچکے تھے، فوج طلب کر لی گئی تھی،دوسری جانب کپتان نے چیف جسٹس کے احکامات کا بھی احترام کرنا تھا، اپنے کارکنوں اور ساتھ رہنے والوں کوبھی مشکل سے بچالیا۔ مخالفین اب جو کچھ بھی کہیں، انہوں نے تو ہر صورت میں تنقید کرنا ہی تھی جیسے رانا ثنا اللہ نے فرمایا کہ 250افراد پشاور سے آئے، اگر انہیں اختیارات دئے جائیں تو بیس لوگ بھی احتجاج میں نہ آئیں، مریم نواز نے کہا کہ عمران خان زندہ لاش ہے، پنجاب کے عوام نے عمران سے بدلہ لے لیا، کسی وزیر نے کہا عمرانی چھتے کے ساتھ مصالحت نہیں ہوگی، طلال چوہدری نے کہا عمران خان آزادی نہیں اقتدار بحالی مارچ ہے۔ اس کے جواب میں کپتان کے ٹائیگرز کب چپ رہنے والے تھے انہوں نے بھی سیر کو سواسیر جواب دیے۔ وزیر اعظم میاں شہناز شریف نے اگلے ہی دن قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں اشارہ دیا کہ وہ مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہیں نیز اس حوالے سے کمیٹی بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔ میاں صاحب تو اب تک یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے۔ لیکن آج یہ تبدیلی کس بات کا پیش خیمہ ہے۔ کچھ تو ہے جس کے پردہ داری ہے۔ صاف صاف بتادیتے تو اچھا تھا لیکن کچھ نہ کچھ ضرورمختلف ہوچکا ہے۔ اللہ کرے دونوں فریقین کے درمیان گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہوچاہے کسی کے اشارہ پر،کسی کی ثالثی پر ہی کیوں نہ ہوں اور یہ مسئلہ حل ہوجائے، چھ دن بعد دوبارہ اس اَعصاب شِکَن صورت حال دیکھنا نہ پڑے۔(26مئی2022ء)
|