مجھ سے یہ پیاس کا صحرا نہیں دیکھا جاتا
(Raja Muhammad Attique Afsar, Peshawar)
(تڑپتے سسکتے ، بلکتے چولستان کی تکالیف آشکار کرتی ایک تحریر) |
|
|
راجہ محمد عتیق افسر اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات قرطبہ یونیورسٹی پشاور 03005930098, [email protected] خواجہ غلام فرید ؒ ایک مشہور صوفی شاعر گزرے ہیں ۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی شخص ان کے نام سے نا واقف ہو اور اگر بات کی جائے پنجاب اور بالخصوص جنوبی پنجاب کی تو خواجہ فرید ؒکی شاعری سننے کو بھی جا بجا ملے گی۔آپ یقیناً اس خطے کی آواز ہیں ۔ خواجہ فرید نے اس لق و دق صحرا کو روہی کے نام سے یاد کیا ہے ۔ خواجہ فرید کا یہ سولہ برس تک مسکن رہا اور ان کی کافیوں میں روہی کا ذکر کثرت سے ملتا ہے ۔آپ نے اس صحراء کی منظرکشی اپنے لفظوں کے ذریعے بھرپور طریقے سے کی ہے ۔جس قدر’’روہی ‘‘میں ریت موجود ہے اسی تناسب سے منظرکشی خواجہ غلام فرید کی شاعری میں بھی موجود ہے۔ آپ لفظوں سے ایسا منظر پیش کرتے ہیں کہ سننے اور پڑھنے والوں پر ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو’’روہی ‘‘میں محسوس کرتے ہیں- خواجہ غلام فریدؒ کا روہی آج چولستان کے نام سے مشہور ہے ۔تاریخ دانوں کے مطابق یہ ترکی زبان کے لفظ ’’چول ‘‘سے ماخوذ ہے جس کے معنی ’’ریت ‘‘ کے ہیں ۔ چولستان بہاولپور کے جنوب میں 66لاکھ 55ہزار ایکڑ پر مشتمل دنیا کا ساتواں بڑا صحرا ہے جس کا طول 480کلومیٹر اور عرض 32کلومیٹر سے 192 کلومیٹر ہے ۔یہ بہاولپور سے کم وبیش 30 کلومیٹر کی مسافت پر موجود ہے۔یہ علاقہ جنوب مشرق میں صحرائے تھر سے جا ملتا ہے جوکہ بھارتی ریاست راجھستان اور سندھ تک پھیلا ہوا ہے۔ مورخین کے مطابق چولستان کے صحرا میں کسی زمانے میں 400 قلعے موجود تھے۔ ان کی دیواریں جپسم اور گارے سے تعمیر کی گئی تھیں۔ کچھ کا وجود تو ایک ہزار قبل مسیح کا پتہ دیتا تھا۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق قبل از مسیح چولستان ایک سرسبز و شاداب علاقہ تھا۔ مورخین کے مطابق یہاں سے ایک دریا گزرتا تھا جو کہ دریائے ستلج کی ایک شاخ تھی۔4000 قبل مسیح میں دریائے ہاکڑہ کے کنارے اس کی عظیم تہذیب ہاکڑہ نے سانسیں لینا شروع کیں جو کہ 1200 قبل مسیح تک پوری آب وتاب کے ساتھ موجود رہی کیونکہ دریا اپنے عروج پر تھا ۔600 ق م میں دریا کے پانی میں کمی ہونا شروع ہوئی اور بالاآخر ایک عظیم تہذیب اپنے انجام کو پہنچی ۔ اس تہذیب کا مقام مصری٬ بابلی اور میسوپوٹیمائی تہذیبوں کے قریب تھا ۔حوادثِ زمانہ کہیئے یا چولستانیوں کی بد قسمتی کہ دریا کی گزرگاہ یہ لق و دق صحراجو اپنے دور میں جنت ارضی تھا اب پانی کی بوند بوند کیلئے ترستا ہے یہ صحر ااب خشک سالی کا مستقل مسکن ہے اور پیاس تو جیسے اس صحرا کا جزو لاینفعک ہوکر رہ گئی ہے ۔ایک لہلہاتے دیس کا صحرا بن جانا ہمارے لیے نشان عبرت ہے ۔ نباتات اور جڑی بوٹیا ں جو صحت کیلئے تیار کی جانے والی ادویات کیلئے لازم و ملزوم کا درجہ رکھتی ہیں اس صحرااعظم کے سینے پر اپنے وجود کا احساس دلاتی ہیں۔ اس لق و دق صحرا میں دو لاکھ انسان بستے ہیں جن کی گزر اوقات کا واحد ذریعہ مویشی ہیں۔معیشت کا انحصار زیادہ تر گائے٬ بکریوں٬ بھیڑوں اور اونٹوں پر کیا جاتا ہے مگر موسم سرما میں یہاں مختلف قسم کی دستکاری اور مٹی کے برتن بھی بنائے جاتے ہیں ۔اس ضمن میں احمد پور شرقیہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ جہاں کے مٹی کے برتن پنجاب سمیت پورے ملک میں اپنی کھپت رکھتے ہیں۔چولستان کے زیریں علاقہ کو ’’ہاکڑہ ‘‘کہا جاتا ہے۔ جہاں خود رو جھاڑیاں اور پودے مثلا سر تیلے٬سرکانے٬ سروٹ اور ملھے جیسے نباتات بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اس علاقہ کے ٹیلوں کی بلندی دو سو فٹ تک ہوتی ہے۔ آندھیوں اور طوفانوں سے چولستان میں جہاں ٹیلے ایک جگہ سے دوسری جگہ سرکتے ہیں وہیں یہ مختلف شکلیں بھی اختیار کر لیتے ہیں ‘جن میں ایک ’’برخان‘‘ کہلاتی ہے۔ ’’برخان‘‘ شکل وشبہات میں پہلی تاریخوں کے چاند سے مماثلت رکھتے ہیں۔ چولستان میں بارشوں سے اگنے والا ایک جنگل بھی موجود ہے ۔جنگلی حیات میں ہرن کی مختلف اقسام اور تلور جیسے پرندے مشہور ہیں یہ جنگلی حیات شکاریوں اور سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں ۔ چراگاہوں ،جنگلی حیات اور سب سے بڑھ کر مویشیوں کی دولت سے یہ وسیع و عریض خطہ مالا مال ہے گو یہ صحرا بے پناہ وسائل رکھتا ہے مگر ماضی کے حکمرانوں نے عدم توجہی کو شیوہ بنائے رکھا اور یہ صحرا زندگی کو ترستا رہا ، 1999کی خشک سالی نے چولستان کی زراعت اور جانوروں پر تباہ کن اثرات مرتب کئے ۔ سیاحت کے حوالے سے بھی اگر تجزیہ کیا جائے تو چولستان سیاحوں کیلئے ایک تاریخی اور پرکشش مقام ہے اگر اس کی اہمیت کو تاریخی حوالے سے اجاگر کیا جائے تو ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کیلئے روح افزا مقام ہے ۔ایک بڑی آبادی اس صحرا میں بستی ہے لیکن یہاں تعلیمی ادارے موجود نہیں ہیں ۔ یہ سرزمین صرف پانی کی پیاسی نہیں ہے بلکہ یہاں کے باسی تعلیم کی نعمت سے بھی محروم ہیں ۔ رواں برس موسم گرما نے شدت اختیار کی تو محکمہ موسمیات کے مطابق درجہ حرارت معمول سے نو درجے زائد رہا۔ بڑھتی ہوئی حدت نے جہاں دیگر مقامات کو متاثر کیا وہیں چولستان سے یہ خبریں سامنے آئیں کہ پانی ختم ہونے سے ہونے والی خشک سالی سے درجنوں جانور ہلاک ہو گئے ہیں۔ پانی کی کمی بڑی وجہ 2سے3انچ سالانہ بارش ہے۔چولستان کے ہر ذی روح اورلاکھوں کی انسانی آبادی اس پانی سے جڑی ہوئی ہے جو آسمانوں سے بارش کی صورت برستا ہے یہ پانی برس گیا تو چولستان میں موجود یہ ٹوبے پانی سے بھر جاتے ہیں اور خزاں رسیدہ چہروں پر زندگی کے آثار نمایاںہونے لگتے ہیں بصورت دیگر یہاں کے باسی جنہیں روہیلے کہا جاتا ہے خشک سالی کے دنوں میں ایک ٹوبے کا رخ کرتے ہیں وہاں پانی نہ ہو تو پھر دوسرے ٹوبے کی جانب عازم سفر ہوتے ہیں اس بڑے صحرائی خطہ میں گرمیوں میں درجہ حرارت 50درجہ ڈگری سنٹی گریڈ تک تجاوز کر جاتا ہے اور سردیوں میں 6ڈگری سنٹی گریڈ تک گر جاتا ہے خشک سالی کی بنا پر اور پانی نہ ہونے سے اس صحرا میں جانوروں کے ڈھانچے ہمیں جابجا نظر آتے ہیںموسم گرما کی قیامت خیز گرمی کی شدت میں جانوروں کی زبانیں حلق سے باہر آجاتی ہیں روہیلے اپنے لئے اور جانوروں کیلئے پانی کی تلاش میں سرگرداں اکثر اوقات اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ گرمی میں اضافے کے بعد یہاں ٹوبہ کہے جانے والے تالاب خشک ہونا اور نقل مکانی مقامی آبادی کا ایک معمول سمجھا جاتا ہے۔ چولستان میں پانی کی قلت رہتی ہے۔ لوگ ٹوبھوں سے پانی پیتے ہیں۔ جو کسی گہرے علاقے میں بارش کے آنے سے جمع ہوجاتا ہے۔ زیرِ زمین پانی 80 فٹ نیچے موجود ہے مگر وہ کڑوا ہے۔ سالانہ بارش کی اوسط 12سینٹی میٹر ہے۔پانی کو ترستی زندگی کے ہونٹ تر کرنے کیلئے اس صحرا میں 1100ٹوبے ہیں جو بارش کے بعد پانی ذخیرہ کرنے کا واحد اور اہم ذریعہ ہیں ۔ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ 1100ٹوبے جو کثیرپانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان میں تو خشک سالی میں بھی پانی ہونا چاہیئے لیکن ایسا کیوں ہے کہ ان میں پانی نہیں ہوتا اور خشک سالی یہاں کے باسیوں کا مقدر ہو کر رہ جاتی ہے ۔ ان ٹوبوں کو کنٹرول کرنے والی اتھارٹیز بھی چولستان کے باسیوں کی مشکلات کی ذمہ دار ہیں کیونکہ ان ٹوبوں میں جہاں پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے سالہا سال سے صفائی میں غفلت برتی جارہی ہے مٹی اور ریت کی مقدار ہرسال بڑھتی جارہی ہے اور ٹوبوں میں پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد ختم ہوتی جارہی ہے ان ٹوبوں کی صفائی کی ذمہ دار پہلے نمبر پر چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی ،دوسرے نمبر پر چولستان فاریسٹ رینج اور تیسرے نمبر پر پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورسز ہیں ‘‘یہ حقیقت ہے کہ ہر تین سال بعد ان ٹوبوں کی صفائی ہونا ضروری ہے ۔ چولستان میں شدید گرمی اور پانی کی کمی نے موت کا کھیل برپا کر رکھا ہے ۔ مقامی آبادی شدید مشکلات کا شکار ہے ۔ جانور پیاس کی شدت سے مر رہے ہیں ۔ یہاں کی مقامی آبادی بھی پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہے ۔ مصیبت کی اس گھڑی میں ہمارے ارباب اختیار روائیتی غفلت کا بھرپور مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ حکومت وقت اور دیگر سیاسی جماعتیں عوام کی پریشانیوں اور دکھوں سے بے نیاز حصول اقتدار کی دوڑ میں لگی ہیں ۔ کسی کو بھی اس تپتے صحرا میں بسنے والوں کی حالت زار سے کوئی غرض نہیں ہے۔موجودہ حکومت شاہ خرچیاں کر رہی ہے اور کابینہ کے اجلاس بھی لندن میں ہو رہے ہیں ۔ اسی طرح وزراء سرکاری خرچ پہ عمرہ کررہے ہیں ۔ دوسری جانب سبکدوش ہونے والے حکمران جگہ جگہ جلسے جلوس کر کے اپنے گم گشتہ اقتدار پہ نوحہ کناں ہیں اور کروڑوں روپے کے ماتمی جلوس نکالے جا رہے ہیں ۔ پنچاب کے وزیر اعلٰی بہاولپور میں ایک کولر رکھ کر نیکی کرنے اور اس پہ لاکھوں کی اشتہاری مہم چلا رہے ہیں ۔ ایک عشرے سے زائد عرصہ ہونے کو ہے جب اس بڑے صحرا میں قلعہ دراوڑ کے پہلو میں جیپ ریلی میلہ سجتا ہے ریلی کے دنوں میں بھی چاہیئے تو یہ کہ چولستانی بھی اس تفریح سے لطف اندوز ہوں مگر ان کے دکھ تفریح کے ان دنوں میں بھی کم نہیں ہو پاتے قلعہ کے ارد گرد آباد چولستانی اپنے اہل خانہ کو خانہ بدوشوں جیسی زندگی پر مجبور کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ ریلی کے موقع پر دو لاکھ افراد شریک ہوتے ہیں جب اتنی بڑی تعداد اس ریلی کو دیکھنے آتی ہے تو چند کچے پکے گھروں کے مکینوں کی گنجائش نکالنے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی ان چولستان کے مکینوں سے گھر خالی کرا لئے جاتے ہیں ٹور ازم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے منعقدہ یہ ریلی ماہ فروری کے درمیان سے شروع ہوتی ہے مگر اس کے انتظامات بہت پہلے شروع کردیئے جاتے ہیں اتنے بڑے ایونٹ سے بھی چولستانیوں کی تقدیر نہیں بدل پاتی۔ سال رواں یہ ریلی فروری میں منعقد ہو چکی ۔ امیر زادے اس علاقے میں کھیل تماشا کرتے ہیں اور اس علاقے کی عوام دکھوں کی چادر اوڑھے اپنے دکھوں کو ڈھانک لیتی ہے ۔ ان کے نصیب میں یہی صحرا کی ریت ، گرمی کی شدت اور پیاس ہی رہ جاتی ہے صحرا نشینوں کی تکلیف اور درد کا اگر کسی نے احساس کیا ہے تو وہ درد آشنا جماعت اسلامی ہے ۔ جماعت اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن نے حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مسائل میں گھری چولستان کی آبادی کو سیراب کرنے کے لیے ٹینکروں کے ذریعے آب رسانی کا منصوبہ بنایا اور اب تک اس صحرا کے مختلف مقامات میں امدادی سرگرمیاں انجام دے چکی ہے ۔جماعت اسلامی ماضی میں بھی تھر اور چولستان میں پانی کے کئی منصوبے مکمل کر چکی ہے اور قدرتی آفات سے نمٹنے کا تجربہ رکھتی ہے ۔ ملک کے دیگر علاقوں سے پانی لے جا کر ان ٹوبھوں میں بھرا جا رہا ہے تاکہ وہاں جھلستے ہوئے انسان اور جانور اپنی پیاس بھجا سکیں ۔جانورون اور مویشیوں کے لیے پینے کا پانی فراہم کیا جا رہا ہے ۔ غذائی قلت کے خدشے کے پیش نظر غذائی اجناس اور تیار کھانا بھی تقسیم کیا جا چکا ہے ۔ مویشیوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے زرعی ادویات کی ترسیل بھی ممکن بنائی گئی ہے ۔ اگر درد دل کے ساتھ کام کیا جائے تو ہر دکھ کا مدھاوا ہو سکتا ہے شرط یہ ہے کہ انسانی ہمدردہ آپ کے دل کے کسی کونے میں ہو ۔ جماعت اسلامی کے نہ صرف کارکنان نے اس کار خیر میں حصہ لیا بلکہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بنفس نفیس الخدمت کے رضاکاروں کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے چولستان پہنچے ۔ جماعت اسلامی کی جانب سے ٹینکروں کے ذریعے آب رسانی کا پراجیکٹ فی الوقت ایک ڈھارس ہے لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے ۔ ابھی طویل موسم گرما باقی ہے ۔ حکومتی سطح پر طویل المدت منصوبوں کی ضرورت ہے ۔ماضی کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو ریاست بہاولپور کے آخری فرمانروا نواب سر سادق محمد خان خامس عباسی کا وہ عزم نظر آتا ہے جو انہوں نے ہیڈ پنجند سے چولستان کو سیراب کرنے کیلئے ایک بڑی نہر نکالنے کی شکل میں شروع کیا جو آنے والے ہر حکمران کا منتظر ہوتا ہے۔ گزشتہ دور میں چولستان میں پانی کی ترسیل کی خاطر چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے توسط سے 45کروڑ روپے کی کثیر لاگت سے 256کلومیٹر پائپ لائن بچھائی گئی اسی طرح ڈیرواور میں 13کروڑ کی لاگت سے 87کلومیٹر کی پائپ لائن بچھائی گئی ہر 10کلومیٹر پر ایک ایسا واٹر پوائنٹ بنایا گیا جو جانوروں اور انسانوں کے لئے آسان ذریعہ آب توبنا لیکن یہاں کے رہنے والے تاحال پانی کی کمی سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورسز(pcrwr) نے دین گڑھ فیلڈ اسٹیشن پر کام کیا جس کے چولستان زندگی پر اچھے اثرات مرتب ہوئے۔ سائنٹیفیک سروے کے مطابق اس خطہ میں آبی ذخائر بنانے کی گنجائش موجود ہے۔ ادارے کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ آبی ذخیرہ ایسی جگہ پر بنایا جاسکتا ہے جس میں پانی جمع کرنے کی قوت ہے نیز وہ زمین پانی کو بھی کم جذب کرتی ہو۔ایک آبی ذخیرہ کی گنجائش پندرہ ہزار کیوبک میٹر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ انسانوں اور دو لاکھ مویشیوں کیلئے 70 لاکھ کیوبک میٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ باقی ذخیرہ کیا گیا تین سو ملین کیوبک میٹر پانی زراعت اور فارمنگ کیلئے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے ، عوام کے دکھوں کا مداوا کرے ۔ریاست مدینہ کے حکمران سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اگر فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مر گیا تو حساب عمر سے لیا جائے گا ۔ یہاں تو جیتے جاگتے انسان موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور حکومت کے کانوں پی جوں تک نہیں رینگتی ۔ جو سابق حکمران ریاست مدینہ کے نام پہ عوام کو بے وقوف بناتے رہے ان کے دور میں یہاں جیپ ریلی ہوئی اور عیاشیاں کی گئیں ۔ اسی طرح جو احتجاجی جلسے منعقد کیے جا رہے ہیں ان پر کروڑوں روپے لگائے جا رہے ہیں ۔ان جلسوں میں توشہ خانہ سے چرائی گئی اشیاء کی نیلامی بھی ہوتی ہے ۔ یہ دولت دنیا پہ نازاں لوگ مزاق اڑاتے ہیں عوام کی بے چارگی کا۔ اگر یہ سیاست دان اپنے عوام کے ساتھ مخلص ہیں تو یہ سب مالی وسائل جو وہ اقتدار کی رسہ کشی اور بیرون ملک دوروں پہ لگا رہے ہیں انہیں جمع کر کے مستقل بنیادوں پہ چولستانی عوام لے لیے پینے کے پانی کا مسئلہ حل کریں ۔ ان وسائل سے نہر کھود کر یہاں تلک لائی جا سکتی ہے ۔ خشک ہو جانے والے دریائے ہاکڑا کو کسی دریا سے نہر لا کر دوبارہ بھرا جا سکتا ہے ۔ زندگی دوبارہ مسکرا سکتی ہے ۔ اگر حکومت اور موجودہ اپوزیشن یہ سمجھتی ہیں کہ اس مسئلے کا ان کے پاس کوئ حل نہیں ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ مالی وسائل اور اختیارات جماعت اسلامی کے حوالے کر دیں یقیناً وہ قلیل مدت میں اس کا کوئی مستقل حل نکال لیں گے ۔ گونج اپنی سہی ، تائید میں آواز تو ہے کیوں تیرے شہر سے ہم دشت کو بہتر نہ کہیں اللہ تعالٰی اس خشک سالی کو ہمارے لیے عبرت حاصل کرنے کا سبب بنائے ، ہمیں مصیبت کے ماروں کی کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے باقی سرسبز و شاداب ملک کو صحرا میں تبدیل ہونے سے محفوظ رکھے ۔ آمین
|