پاکستان میں سواری کا اگر کوئی بہترین نظام تھا تو وہ
پاکستان ریلوے ہے جو اب اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے دنیا نے جہاں دوسرے
شعبوں میں ترقی کی وہیں پر ریلوے بھی سر فہرست رہی مگر پاکستان میں ریلوے
کا نظام تباہ ہوتے ہوتے آخر کار اب آخری سانسیں لے رہا ہے انکے مقابلے میں
پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے جی بھر کر عوام کو لوٹا بھی اور بدتمیزی بھی
کی بس ڈرائیور اور کنڈیکٹروں کے ساتھ ساتھ اڈے میں موجود ہاکربھی سادہ لوح
مسافروں کو کھینچ کر بسوں میں بٹھانے کی کوشش کرتے تھے اور اکثر لمبے سفر
پر جانے والی سواری کو ان کے جھوٹ کے بعد متعدد بسیں بدل کر اپنی مزل تک
پہنچنا پڑتا تھا ان کے مقابلے میں پاکستان ریلوے ایک پر سکون اور مزیدار
سفر ہوا کرتا تھا جسے خود اس محکمے کے افسران نے ہی خراب کردیا یہ صرف
ریلوے کا ہی المیہ نہیں بلکہ ہر ادارے میں بیٹھے ہوئے افراد نے اپنے ہاتھوں
اپنے اپنے اداروں کو تباہ کیا پاکستان ریلویز قومی سرکاری ریلوے کمپنی ہے
جو 1861 میں قائم ہوئی اور اس کا صدر دفتر لاہور میں ہے پاکستان ریلوے پورے
پاکستان میں 7,791 کلومیٹر (4,841 میل) ٹریک کا مالک ہے جو طورخم سے کراچی
تک پھیلا ہوا ہے جس مال بردار اور مسافر دونوں کی سہولت ہے۔2014 میں وزارت
ریلوے نے ایک بھاری بجٹ تقریبا 5.5بلین امریکی ڈالر سے پاکستان ریلویز ویژن
2026 کا آغاز کیاتھا اس منصوبے میں نئے انجنوں کی تعمیر، موجودہ ریل کے
بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور بہتری، ٹرین کی اوسط رفتار میں اضافہ، بروقت
کارکردگی میں بہتری اور مسافر خدمات کی توسیع شامل ہے منصوبے کا پہلا مرحلہ
2017 میں مکمل ہوا تھا اور دوسرا مرحلہ 2021 تک مکمل ہونا تھا جو نہ ہوسکا
اس میں ایم ایل ون منصوبہ بھی ہے جو 1.11 ٹریلین (US$6.9 بلین) کی لاگت سے
تین مرحلوں میں مکمل کیا جانا تھا پاکستان ریلوے انٹرنیشنل یونین آف ریلویز
کا ایک فعال رکن بھی ہے۔ 1947 میں آزادی کے بعد، نارتھ ویسٹرن اسٹیٹ ریلوے
کا زیادہ تر انفراسٹرکچر پاکستانی علاقے میں تھا اور اس کا نام بدل کر
پاکستان ویسٹرن ریلوے رکھ دیا گیا۔ مشرقی بنگال میں پاکستانی علاقے میں
آسام بنگال ریلوے کے حصے کا نام بدل کر پاکستان ایسٹرن ریلوے رکھ دیا گیا۔
1855 میں برطانوی راج کے دوران کئی ریلوے کمپنیوں نے سندھ اور پنجاب میں
ٹریک بچھانے کا کام شروع کیا ملک کا ریلوے نظام اصل میں مقامی ریل لائنوں
کا ایک پیچ ورک تھا جو چھوٹی نجی کمپنیوں کے ذریعہ چلایا جاتا ہے بشمول
سندھ ریلوے، پنجاب ریلوے، دہلی ریلوے اور انڈس فلوٹیلا۔ 1870 میں چار
کمپنیوں نے مل کر سندھ، پنجاب اور دہلی ریلوے کی تشکیل کی جن میں انڈس ویلی
اسٹیٹ ریلوے، پنجاب ناردرن اسٹیٹ ریلوے، سندھ،ساگر ریلوے، سندھ پشین اسٹیٹ
ریلوے، ٹرانس بلوچستان ریلوے اور قندھار اسٹیٹ ریلوے شامل ہیں یہ چھ
کمپنیاں 1880 میں نارتھ ویسٹرن اسٹیٹ ریلوے بنانے کے لیے سندھ، پنجاب اور
دہلی ریلوے کے ساتھ ضم ہوگئیں۔ 1880 اور 1947 کے درمیان نارتھ ویسٹرن اسٹیٹ
ریلوے پنجاب اور سندھ بھر میں پھیل گئی لوکوموٹیوز کو معیاری لوکوموٹیو
کمیٹی آن اسٹینڈرڈ لوکوموٹیوز فار انڈین ریلویز کی ایک رپورٹ کے بعد معیاری
بنایا گیا جو 1910 میں شائع ہوئی تھی۔اس وقت پاکستان میں ریل کی پٹڑی 25ٹن
ایکسل سے زیادہ بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ایم ایل ون منصوبے
کے بغیر ریلوے کی ترقی ناممکن ہے دنیا کی 50فیصد مال برداری بذریعہ ریل
ہوتی ہے ریلوے نقل و حمل کا سستا ترین زریعہ ہے پاکستان ریلویز مال برداری
کی نقل و حمل میں اضافہ اور جدت لا کراپنی آمدنی میں اضافہ کر سکتا ہے
اگرچہ مختلف سامان ریل نیٹ ورک کے ذریعے لے جایا جاتا ہے لیکن کوئلہ اہم
مصنوعات ہے جسے کراچی سے ملک کے تمام حصوں بالخصوص پنجاب کے پنڈ دادن خان
اور خیبر پختونخوا کے نوشہرہ تک پہنچایا جاتا ہے اس وقت چین پاکستان
اقتصادی راہداری کے تحت رابطے کا ہدف پاکستان ریلوے کی مین لائن ون ہے جسے
ML-1 بھی کہا جاتا ہے کو اپ گریڈ کیے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا ریلوے کو
تبدیل کرنے کے لیے ایم ایل ون کی تجدید کاری اور توسیع بہت اہم ہے ریل کے
ذریعے مال برداری کہیں زیادہ قابل عمل آپشن ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ ریلوے
کی پٹریوں کو نئے سرے سے بچھانے کے لیے سرمایہ کاری کرے تاکہ انہیں پاکستان
میں اندرون ملک مال برداری کا بنیادی ذریعہ بنایا جاسکے صرف یہی نہیں بلکہ
لاجسٹکس ایک انتہائی حساس شعبہ ہے اس لیے یہ ریل کی ترقی کے لیے مختص کیے
جانے والے سرکاری اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری کے لیے اور بھی زیادہ معنی
خیز ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک گیلن ایندھن ریل کا استعمال کرتے ہوئے
250میل کے فاصلے پر ایک ٹن سامان لے جایا جا سکتا ہے جبکہ سڑک کے ذریعے یہ
حدصرف 90 میل ہے یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر تمام کارگو کا تقریبا
50 فیصدریلوے کے ذریعے اٹھایا جاتا ہے سڑک کے مقابلے مال کی نقل و حمل کے
لیے ریلوے کا استعمال گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کو 75 فیصد تک کم کرنے میں
مدد کر سکتا ہے پاکستان میں خصوصی اقتصادی زونز میں سی پیک سے متعلق سرمایہ
کاری کے ساتھ ساتھ کارگو ویلجز اور ریلوے نقل و حمل کی اہمیت بڑھ گئی ہے اس
لیے ہمیں بھی اپنی ریل کو دنیا کے مقابلے پر لانے کے لیے دن رات کام کرنا
ہوا ورنہ ایک دن آئے گا ریلوے آچار قدیمہ کا حصہ بن کر آنے والے نسلوں کو
ہماری بے حسی اور لوٹ مار کی داستان سنا رہا ہوگا ۔
|