شہر اقتدارمیں 2014کو126دنوں تک جاری پاکستا ن تحریک
انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں سے جو سیاسی بحران پیدا ہوا اس کا
اختتام اے پی ایس پشاور حملے میں معصوم بے گناہ بچوں کی شہادتوں پر ہوا تھا
تاہم مقام شکر ہے کہ حالیہ مارچ کا اختتام سرپرائز ہی سہی ، لیکن جزوی طور
پر اپنے انجام کو پہنچا ۔ دھرنے کے دوران اُس وقت کی حکومت کی جانب سے بھی
بار بار کوشش کی گئی کہ دھرنا ختم کرادیا جائے اور ایسے مرحلے بھی آئے کہ
جب یہ امید پیدا ہوئی کہ شاید یہ بحران حل ہوجائے ، بالآخر صورت حال اس
نازک موڑ پر آگئی کہ عمران خان کے پاس بھی کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ دھرنا
ختم کرتے۔جمہوری نظام میں احتجاج، مظاہرے، جلسے جلوس اور اظہار رائے کی
مکمل آزادی ہے لیکن جب معاملہ ایسے مرحلے میں داخل ہوجائے کہ ملک وقوم کے
لیے سنگین مسائل کا باعث بن رہا ہو اور عوام میں مایوسی پیدا ہورہی ہے تو،
وقت کا تقاضا ہوتا ہے کہ اس قسم کے معاملات کو جلد ازجلد پر امن انداز میں
طے کیا جائے تاکہ ملک میں اطمینان اور سکون کی لہر پیدا ہوسکے۔ فی الوقت تو
پاکستان تحریک انصاف کی جلسہ سیریز کے بعد سیاسی ہیجان میں کمی کے کوئی
آثار نظر نہیں آرہے، متعلقہ شخصیات کے بیانات، تقاریر اور مطالبات سے یہی
لگ رہا تھا کہ کوئی بھی فریق لچک پر آمادہ نہیں، جس کی وجہ سے ڈیڈ لاک
بدستور برقرار رہے گا تاہم دھرنا ، ریلی کیوں بنا اور اچانک کیوں ختم ہوا ،
اس راز کا پردہ چند دنوں پر کھلنے کی توقع ہے۔
عمران خان کی حکومت کو آئین میں موجود طریقہ کار کے مطابق برطرف کیا
گیا۔موجودہ حکومت جس قسم کے حالات میں قائم ہوئی ، اس سے ہر دانا بخوبی
واقف ہے۔ کسی مخصوص گروہ کی خواہش پر کسی آئینی عمل داری کے بغیر حکومت کو
ہٹانے کا مطالبے کی حمایت نہیں کی جاسکتی کیونکہ سڑکوں پر آکر حکومتیں
گرانے کا کوئی روایت نہیں لہٰذا اُس وقت بھی یہی مشورہ دیا گیا تھا کہ جو
بھی معاملات ہوں ، انہیں پارلیمنٹ میں بیٹھ کر حل کیا جائے۔ سول بالادستی
کے لیے سب سے واحد مرکز پارلیمنٹ ہے ، ابھی بھی پی ٹی آئی کے استعفے منظور
نہیں ہوئے، ماضی میں دھرنے کے باوجود دوبارہ پارلیمنٹ گئے ، اس وقت بھی
انہوں نے قو م کو بتایا تھا کہ انہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے لیکن جب ایوان
گئے تو سب کو علم ہوا کہ تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے والوںنے صرف کاغذی
کارروائی کی تھی اور عملی طور پر استعفے نہیں دیئے تھے ۔ اس بار بھی کچھ
ایسا ہی معاملہ ہے۔قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کے دعویٰ تو کیا جارہا ہے
لیکن آئینی طریقہ کار پر عمل نہیں کررہے تو استعفے کہاں سے منظور ہوں گے۔
صوبہ پختونخوا اور سندھ سے گورنروں نے استعفیٰ تو دے دیا لیکن پنجاب میں
اقتدار کی جنگ جاری ہے۔ صدر مملکت کا عملی کردار ان کے غیر جانب دار عہدے
کا متقاضی ہے ۔سول بالا دستی اب بھی ایک خواب ہے۔
عمران خان جو مبینہ مراسلے پر کسی شخصیت کا نام نہیں لینا چاہتے تھے اور نہ
ملک کا ،کہ یہ قومی سلامتی کے برخلاف ہے اور انہوں نے ملکی سلامتی کے راز
کو افشا نہ کرنے کا حلف لیاہوا ہے،
وہ اب کھل کر امریکہ کا نہ صرف نام لیتے ہیں بلکہ سابق وزیراعظم عمران خان
نے کہا ہے کہ خفیہ مراسلہ بھیجنے والے امریکی انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ
لو کو برطرف کیا جائے۔ یہ مطالبہ انہوں نے امریکی نیوز چینل کو انٹرویو
دیتے ہوئے کیا ۔ عمران خان کیا قومی سلامتی کے ان اصولوں کی خلاف ورزی نہیں
کررہے جس کا انہوں نے با حیثیت وزیراعظم کے عہدے پر حلف اٹھایا تھا۔ واضح
رہے کہ برطرف وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد جلسے میں
انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی تاہم انھوں نے کہا کہ
قومی مفاد میں وہ اس خط پر مزید بات نہیں کریں گے۔ سابق وفاقی وزرا فواد
چودھری اور اسد عمر نے بھی اس خط کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس
خط میں عمران خان کے خلاف بات کی گئی ہے اور یہ کہ ابھی حکومت یہ نہیں بتا
سکتی کہ خط کہاں سے آیا ہے کیوں کہ اس خط کو صرف اعلیٰ ترین سول ملٹری
قیادت تک محدود رکھا گیا ہے اور کابینہ کے بھی دو یا تین اراکین کو معلوم
ہے کہ مراسلے میں کیا لکھا ہوا ہے۔ قومی چینل پر قوم سے خطاب کے دوران جب
انہوں نے اپنی تقریر میں امریکہ کا ذکر کیا اور بظاہر اپنی غلطی کو چھپاتے
ہوئے کہا کہ وہ کسی غیر ملک کی بات کر رہے ہیں۔
پوری قوم کی خواہش تو ایک ہی ہے کہ انہیں ریلیف ملے اور مہنگائی سمیت معاشی
مشکلات سے نجات حاصل ہو ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بتدریج بڑھائی جارہی
ہیں ، کیونکہ ناگزیرہے ۔حکومت نے 2014کے دھرنے کے تجربات کو مد نظر رکھتے
ہوئے پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈائون بھی کیا تو اس حوالے سے یہی کہا جاسکتا
ہے کہ بے شک اسلام آباد آنے والوں کے خلاف راستے اور سڑک صاف کرنا مشکل
نہیں ، لیکن اس کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکلے ، انہیں تحمل کا مظاہرہ کرنا
چاہیے ، ملک وقوم کو درپیش مشکلات کو حل کرنے کے لیے انہیں روایتی سیاست کو
کچھ وقت کے لیے ایک سائیڈ پر رکھنا ہوگا ۔ یقینی طور پر کچھ لوگ منفی سیاست
کررہے ہیں جس سے سول بالادستی کو خطرہ لاحق ہے لیکن جو فیصلے کئے جانے ہیں
اس کے مضمرات کو بھی پیش نظر رکھنا ناگزیر ہے ۔
اس ساری صورت حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت اپنے
مینڈیٹ کے حوالے سے واضح ہے اور وہ تحریک انصاف کے مطالبے سے متفق نہیں ہے
۔
صورت حال خاصی پیچیدہ ہے ، ایسے حالات میں سیاسی قیادت کو چاہیے تو یہ ہے
کہ وہ اس بحران کو جلد ازجلد طے کرے کیونکہ اس قسم کے حالات سے عالمی سطح
پرپاکستان کا امیج خراب ہورہا ہے، 2014میں چینی صدر کے بھارت اور سری لنکا
کے دورے کے بعد دورہ پاکستان کی منسوخی سے عالمی سطح پر بھی وطن عزیز کے
بارے میں اچھا تاثر نہیں گیا تھا اور اب جس طرح پی ٹی آئی قیادت، امریکی
انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو کی برطرفی کا مطالبہ کررہی ہے اور ملک میں
موجودہ حکومت کو غیر جمہوری طریقے سے گرانے کے لیے ریاستی اداروں پر دبائو
بڑھا رہی ہے ، اس پر وقت کا تقاضا یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام کو کسی آبرو
مندانہ طریقے سے نمٹایا جائے ، یہ کام سیاسی قیات کا ہے اور اسے ہی کرنا
ہے، ریاست کے دیگر اداروں کو ملوث کرنے سے گریز کرنا چاہیے ، فیصلوں میں
جتنی تاخیر ہوتی جائے گی ، اتنا ہی نقصان بڑھا جائے گا لہذا جو فیصلے کرنے
ہیں اس میں تامل نہ کیا جائے۔
|