مذہب اور علم بشریات ادغام سےاور اس کے دیگر شعبوں کی مدد
سے گزشتہ چند عشروں سے جو روشنی سارے عالم میں پھیلی ہے اس سے کئی ہوش
مندوں نے بہت گہرے اثرات قبول کئے ہیں۔ جس کی بنا پر کئی نئے فکری مباحث
سامنے آئے ہیں کہ ہم آج کیسی دنیا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی خوبصورت پُرامن اور
روادار دنیا جس کا وجود ممکنات میں سے ہے۔
جدید دور کی پریشانیاں، مصائب ، بلائیں، آفات جو معیشت میں آفت آجانے کے
بعد سے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کررہی ہیں ۔ ان کی ابتداء اٹھارویں صدی
عیسوی میں الیومیناٹی تنظیم کی بنیاد رکھنے کے بعد سے وقوع پذیر ہونا شروع
ہوئیں اور رفتہ رفتہ قدم بقدم انسانوں کی کم ہمتی، جہالت، درست رہبروں کو
عدم اطاعت وغیرہ کے باعث ہر سو عالم میں اپنے پنجے گاڑتی چلی گئیں۔
آج کے انسان کا المیہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے ممالک خوراک جیسی بنیادی ضرورت
سے بھی زیادہ رقم اسلحہ کی خریداری یا اشرافیہ کی ضرورت کیلئے ٹیکنالوجی کی
تحقیقات اور صنعتوں پر خرچ کررہےہیں۔ موجودہ دنیا ایک محتاط اندازے کے
مطابق سالانہ 15 سے 20 ٹریلین امریکن ڈالر ہتھیاروں پر ضائع کرتی ہے۔
یا70بلین ڈالر سے زیادہ مریخ پر تحقیقات یا ٹیکنالوجی کی صنعت سے وابستہ
علوم پر ضائع کرتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر یوں گنوائی جانے والی رقم دنیا
بھر میں پھیلی 80٪ آبادی سے بھوک وننگ، جہالت اور بیماریوں سے چھٹکارے پر
خرچ کی جاتی۔
کسی کو خبر بھی ہے؟ کہ دنیا میں ہر 39 سال بعد آبادی کا بوجھ بڑھ کر دوگنا
ہوجاتا ہے۔ ہم جیسے ترقی پذیر تیسری دنیا کے ممالک میں تو یہ اضافہ 25 سال
سے بھی کم عرصے میں مکمل ہوجاتا ہے۔ بڑھتے ہوئے اسلحہ کے ڈھیر کا عالم یہ
ہوگیا ہے کہ دنیا کے ہر ایک آدمی کو درجنوں مرتبہ مارا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر
میں ہونے والی سائنسی تحقیقات پر خرچ ہونے والے رقم دنیا کی غربت، جہالت
اور ننگ و بھوک کو 100 دفعہ ختم کیا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر میں 40 فیصد خفیہ
فنڈز اسلحہ بنانے کے منصوبوں کیلئے مخصوص ہیں کیا ہی بھلا ہوتا کہ یہ فنڈز
زراعت ، میڈیکل انجینئرنگ اور دیگر فنون سکھانے اور ان کی تعلیم پر لگائے
جاتے تاکہ دنیا سے بے روزگار ی دور ہوتی۔ اقوام متحدہ ، ورلڈ بینک، آئی ایم
ایف اور یونیسکو فوجوں اور ناٹو جیسے سیکیورٹی کے اداروں کے بجائے تعلیم،
ادب، فنون، صحت، غذا، صفائی ستھرائی اور صحت مند تفریح کے بلند و بانگ
دعووں کے بجائے حقیقت میں ان شعبوں کی سرپرستی کررہے ہوتے تو کیا ہی اچھا
ہوتا۔
پوری دنیا میں انسانی حقوق کے دعوے دار خود ان کے مضحکہ کا باعث بنے ہوئے
ہیں۔ نسل کشی، مذہبی و نسلی منافرت، سیاسی و لسانی مناقشت ایسے قبیح افعال
یوں رائج ہیں جیسے کوئی دستور، کوئی بھی سوال اٹھانے کو تیار نہیں۔ سالانہ
6 سے 10 ملین بچے دنیا بھر میں پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کے سبب سے
مرجاتے ہیں۔ قریب قریب 5 سو ملین لوگ ٹراکوما جیسے موذی مرض کا شکار ہیں جو
عموماً اندھے پن میں بدل جاتی ہے۔ صرف افریقہ میں سالانہ ملیریا سے مرنے
والے بچوں کی تعداد قریب ایک ملین ہے۔ تیسری دنیا جو قدرتی وسائل اور
صنعتوں کے خام مال سے بھرپور ہے کے 25 ممالک میں شرح خوانگی 20 فیصد یا اس
سے بھی کم ہے اور اس وقت دنیا میں ناخواندہ لوگوں کی تعداد ایک ہزار ملین
ہے۔ دوسری طرف عالمی اشرافیہ کی آنے والی 8 نسلیں تک انشورڈ ہیں، دولت کا
ایسا انبار ہے کہ 300 فٹ زیر زمین بلڈنگز سونے کی اینٹوں سے بھری ہوئی ہیں۔
یہ 2 فیصد اشرافیہ دنیا کے ہر ملک کی معیشت، حکومت کو کنٹرول کررہی ہے اور
ان کے ایجنٹ جو حکومتوں کے سربراہوں ، مرکزی بینکوں کے صدور ، فوج کے
سالاروں ، میڈیا ناخداؤں کی صورت میں ایسے ایسے دکھاوے کے فلسفے اور نعرے
تخلیق کرتے ہیں کہ جس پر ہر شخص مر مٹتا ہے مگر جس سے مسائل آج تک کم نہیں
ہوئے۔ مہنگائی کا تباہ کن دیو پوری دنیا میں خصوصا تیسری دنیا کو ہڑپ کررہا
ہے۔ آج بھی کہیں پر بین الاقوامی انصاف کے قانون کے نفاذ کا کوئی آسرا
دکھائی نہیں دیتا۔ کریمنل کورٹ کے معیارات بھی وہ ہیں جس سے خاص طبقے کے
مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ان
کے تمام منصوبے اور ذیلی ادارے سب کے سب دنیا کی ایک فیصد اشرافیہ کے
مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ مگر دنیا کے مظلوموں و کمزروں، ضعیفوں کو بچانے
اور ان کی زندگی کیلئے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ بین الاقوامی سطح پر طوائف
الملوکی پوری شد و مد سے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے۔
کیا عجیب ہے کہ حفاظت و تحفظ کے نام پر فوجیں بنائی جاتی ہیں مگر یہی افواج
دنیا بھر میں دہشت و بربریت پھیلاتی ہیں، دنیا کی معاشی فلاح کے منصوبے
بنتے ہیں اور بظاہر بہت جذاب ہوتےہیں مگر عملا صرف غربت، مہنگائی، افراط زر
، بے روزگاری، صنعتوں کی بندشوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ انٹرٹینمنٹ کے ذریعے
صحت مند تفریح فراہم کرنے کے بجائے کارپوریشنوں کی مضر صحت، مضر معیشت
مصنوعات کی فروخت نیز دیگر پروگرامز کے ذریعے ابتذال اور فحاشی کو فروغ دے
کر فحش مصنوعات اور کاروباروں کو فروغ دیا جاتا ہے۔اخبار اور خبروں کے
ذریعے خاص عالمی سرمایہ دار فسادی ٹولے کے مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے۔
تعلیم کے نام پر جھوٹ اور دنیا کے اصل مسائل سے روگردان کرکے پیسہ کمانے
والے روبوٹ تیار کیے جاتے ہیں۔خواتین کے حقوق کے نام پر خواتین کو فطری
شعبے سے بیدخل کرکے میڈیا کی طوائف یا صنعتی دفتروں کی رکھیل بنادیا ہے۔
پروفیشنل ازم کے نام پر خواتین کا استحصال، جنسی درندگی، خاندانی تباہی ،
غربت ، کاہلی، جہالت جو اسی عالمی سرمایہ دار فسادی اسٹیبلشمنٹ نے پیدا کی
ہےخواتین کو گھروں سے باہر نکال کر کرہ زمین کو چکلے میں تبدیل کردیا
ہے۔ماں، بہن ، بیٹی، بہو اور دیگر خاندانی رشتوں کی تباہی کے بعد عورت صرف
ایک کموڈیٹی بن گئی ہے۔
عالم طبیعت کو صنعتوں کے فضلے نے تباہ کردیا ہے۔ جنگلات تہس نہس کردیئے
گئے، کارخانوں سے خارج ہونے والی تابکار اور زہریلی گیسوں نے آسمان سے لیکر
زمین کی گہرائی ، سمندروں، دریاؤں سب کو مسموم کردیا ہے مگر سرمایہ دار کی
صنعت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرکے کاغذی نوٹ بنانے میں مصروف ہے۔
صحت کے شعبے میں جعلی امراض پیدا کرکے ان کی ادویات کی تیاری اور بیچنے تک
یہ پوری انڈسٹری ٹریلین ڈالر کی ہے۔
پروسسڈ اور انڈسٹریل فوڈ میں مضر صحت کیمکلز شامل کرکے خاص اقوام کو مریض
بنانا اور ناکارہ انسانوں میں تبدیل کرنے کے پروگرام چل رہے ہیں۔مذہب کے
پیروکاروں کو پیروں فقیروں تعویذ گنڈوں میں پھنسا دیا ہے اور مذہب جو خلقت
ارض و سماء کے وقت سے مظلوم کی حمایت اور ظالم کی سرکوبی کا کام انجام دیتا
تھا اس یہ عمل چھین کر دعاؤں، ماتموں اور عبادت گاہوں میں محصور کردیا تاکہ
عالمی ابلیسیت کے ننگے ناچ پر کوئی اعتراض نہ کرسکے۔دہشت گردی کو بھی مذہب
سے جوڑ کر مذاہب کو بدنام کرنا اسی سرمایہ داری کا کرتب ہے۔
ہم سب اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان تو ہیں مگر اس ابلیسی نظام کے خلاف
انسان دوستی، روحانیت ، محبت ، الفت، رواداری، الہیات، تقوا، جہاد، تعلیم و
تہذیب کو فروغ دے کر اثر انداز نہیں۔۔۔ ہم سازشوں کی جڑوں سے واقف نہیں اور
اگر واقف ہیں تو اس سازش میں شریک ہیں، بظاہر ہم بہت بہادر اور با ہمت بنتے
ہوں مگر خود غرضی ، راحت طلبی، آرام طلبی، آسانیوں میں رہنے کی فکر میں
رہتے ہیں اور جو اس حوالے سے فکر مند ہیں اور دنیا کو عدل و انصاف کا
گہوارہ بنتے دیکھنا چاہتے ہیں ان کے رابطے کمزور ہیں وسائل کمیاب ہیں یا
شاید اس لئے کہ ہم سب نے یہ فرض کرلیا ہے کہ بطور ایک فرد کے ہم وسیع
پیمانے پر کسی بھی طرح کے معاملات و واقعات کو متاثر نہیں کرسکتے۔ اور یہ
ہماری غلطی ہے!
|