برابری کا بر
یہ بات ہے اس دور کی جب ذہنی ناپختگی کا دور تھا لاابالی پن عروج پر ہوا کرتا تھا زندگی ایک جہد مسلسل ہے اس کا ادراک نہیں تھا...گھر سے مدرسہ، مدرسہ سے گھر پھر اسکول.. ہماری دنیا اسی کے گرد گھومتی تھی...یہ وہ دور تھا کہ دل سے مسکرایا کرتے تھے.. ہماری مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ ہمیں دنیا کی یر چیز مسکرتی نظر آتی...چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہماری خوشی دیدنی ہوا کرتی تھی.. کچھ گھر کا ماحول مذہبی ہونے کی وجہ سے اور کچھ اپنے شوق سے ہم مسجد جایا کرتے.. والد صاحب کو جیسا کرتے دیکھتے ویسے ہم نقالی کرتے جاتے...کچھ شعوری طور پر پختگی آئی تو نماز کے لیے پابندی سے جانے لگے...
جب جب نماز کے لیے جاتے امام صاحب کی قرآت کو غور سے سنتے،چونکہ ہم اس زمانے میں قرآنِ مجید حفظ کر رہے تھے اکثر امام صاحب جو قرأت کرتے وہ جلد ذہن نشین ہوجاتی۔۔۔خطبہ جمعہ بھی یوں ہی یاد ہو چکا تھا۔۔کچھ امام صاحب کی دعائیں یاد ہوگئی تھیں جو مستقل مانگتے تھے ان میں ایک دعا یہ ہوتی کہ یا رب العالمین جو بچے بچیاں رشتوں کے سلسلے میں پریشان ہیں ان کو برابری کا بر عطا فرما۔۔ان کے لئے نیک اور دیندار رشتوں کا بندوبست فرما۔۔اب اس زمانے میں ہم جو ابھی بالغ بھی نہیں تھے کہاں اس دعا کی سمجھ آتی۔۔۔امام صاحب سے حسن ظن رکھ کر آمین کہہ دیا کرتے کہ کوئی اچھی دعا ہی ہوگی۔۔ دن یوں ہی گزرتے گئے وقت پر لگا کر اڑنے لگا۔۔نجانے کب ہمارے چہرے سے اس مسکراہٹ کی کرنیں جو ہم مسکراتے تو پھوٹ پڑتیں مرجھا گئی تھیں۔۔چہرے پر مسکراہٹ کی جگہ فکروں نے بسیرا کر لیا تھا..بچپن میں جب چھوٹی چھوٹی چیزوں سے دل خوش ہوتا تو ہوں لگتا جیسے کائنات کا ذرہ ذرہ ہماری خوشی میں شریک ہے...لیکن اب جب کوئی فکر اور پریشانی گھیر لیتی تو ہوں لگتا جیسے ہر چیز متفکر اور سوگوار ہو...
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
پھر ایک زمانہ ایسا آیا ک کہا گیا کہ تعلیمی مرحلہ خیر سے مکمل ہوا اب نوکری ڈھونڈی جائے اور گھر والوں کو بھی خیال آیا کہ بہو کا بھی انتظام کیا جائے اور ایک نیا سفر شروع کیا جائے...بہنیں اور والدہ اپنی اپنی رائے دینے لگیں..بہن نے اپنی ایک دوست کا بتایا کہ ان کا گھرانہ بڑا دیندار گھرانہ ہے سلجھے ہوئے لوگ ہیں اور لڑکی بھی عالمہ ہے تو بھائی کے لیے یہ سب سے بہتر ہے...بات ان کے گھر تک پہنچا دی گئ دونوں گھرانوں کی خواتین کی ملاقات ہوئی...کچھ مزاج شناسی ہوئی...لڑکے اور لڑکی نے بھی ایک دوسرے کو پسند کیا دونوں طرف محبت کی ایک چنگاری جل اٹھی... بہرکیف کہا گیا کہ ہم جواب دیں گے مشورہ کر کے... کچھ دن انتظار میں گزرے اور پھر جواب یہ دیا گیا کہ استخارہ درست نہیں آیا لہذا ہماری طرف سے معذرت امید ہے ناراض نہیں ہوں گے....مگر حقیقت یہ معلوم ہوئی کہ اعتراض یہ تھا کہ لڑکا دوسرے شہر میں ہے، لڑکے کی ذات کیا ہے، اس علاقے کے لوگ تو اس طرح کے ہوتے ہیں...
آج جب امام صاحب نے یہ دعا کرائی یا اللہ ہمارے نوجوان بچوں بچیوں کو بہترین رشتوں سے منسلک فرما... ان کو برابری کا بر نصیب فرما.....تو یہ سوچ کر مسکرا دیا اور دل میں کہا کہ اللہ تو برابری کے بر عطا کرتا ہے لیکن
ہم اس رشتے کو خود ساختہ معیارات پر پرکھ کر اس بر کو پر نہیں کرتے یونہی بچے بچیوں کی عمریں نکل جاتی ہیں پھر خود بھی پریشان اور اولاد بھی.....
بقلم خود...ایٽاراللہ
|