قرآن حکیم میں نبیٔ کریم ﷺ کا تعارف مختلف مقامات پرالگ
الگ انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ ان میں سے ایک جگہ یعنی سورۂ احزاب میں
نہایت جامع اور تفصیل کے ساتھ فرمایا گیا:’’ اے نبیؐ، ہم نے تمہیں بھیجا ہے
گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر ۔ اللہ کی اجازت سے
اُس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر‘‘۔ یہاں پر
شاہد،مبشر، نذیر اور روشن چراغ کے علاوہ داعی کی حیثیت کو بھی اجاگر کیا
گیا ہے۔ان چاروں میں داعی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ساتھ اللہ کی اجازت
بلکہ زیادہ تر تراجم میں اذن کا ترجمہ حکم کیا گیا ہے۔ اس سے اشارہ ملتا ہے
کہ دیگرمناصب اور صفات دعوت کے حکم کی بجا آوری کی خاطر معاون و مددگار
ہیں۔ دعوت کا حکم دیا گیا تاکہ آپ ﷺ خود رب کائنات نے کی گواہی دیں ۔ اس
کی جنت کی بشارت دینے کے ساتھ عذابِ جہنم سے خبردار کریں اور گمراہیوں کے
اندھیرے سے نکل کر ر اہِ حق کی جانب قدم بڑھانے والوں کے لیے آپؐ کا اسوۂ
حسنہ چراغ کی مانند منور ہو اور وہ شاداں و فرحاں راہِ حق پر آگے ہی آگے
بڑھتے ہوئے فلاح و کامرانی کی منزل سے ہمکنار ہو جائے۔
سورۂ احزاب میں اس آیت سے پہلے یہ فرمایا جا چکا ہے کہ: ’’یقیناً تمہارے
لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ
تعالٰی کی ، قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالٰی کی یاد
کرتا ہے ‘‘۔ اس مطلب یہ ہوا کہ ہربندۂ مومن کو نبیٔ کریم ﷺ کی پیروی میں
خود کو ان صفات حمیدہ کا حامل بنانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے تاکہ اپنے
فرض منصبی کو ادا کرتے ہوئے عامتہ الناس کو رب کائنات کی بندگی کے طرف
بلاسکے۔دعوت کی ذمہ داری کے حوالے سے اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہے کہ یہ صرف
انبیائے کرام تک محدود ہے تو اسے سورۂ یوسف کی اس آیت کو دیکھ لینا چاہیے
جس میں فرمایا :’’ تم ان سے صاف کہہ دو کہ "میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ
کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور
میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ
نہیں" ۔
یہاں پر نبی ﷺ کو حکم دیا جارہا ہے کہ آپؐ بلاتکلف ارشاد فرمائیں کہ میں
جس راستے کی دعوت دے رہا ہوں وہ میرے سامنے پوری طرح جلوہ گر ہے۔ اس کےساتھ
پیرو کاروں کے ذکر کامطلب یہ ہوگا کہ وہ بھی اپنے راستے کو کھلی روشنی میں
دیکھ کر شرح صد ر کے ساتھ نہ صرف اس پر گامزن ہیں بلکہ رسولِ برحقؐ کی طرح
دوسروں کو بھی دعوت دیتے ہیں ۔ سورۂ حٰم سجدہ کی مشہور آیت:’’ اور اس شخص
سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور
کہا کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘ کے مخاطب اہل ایمان نہیں ہی ہیں؟ اس
جملۂ معترضہ کے بعد سورۂ احزاب کی اول الذکر آیت کی جانب لوٹیں تو ایسے
خوش بخت لوگوں کویہ مژدہ سنایا گیا ہےکہ: ’’ بشارت دے دو اُن لوگوں کو جو
ایمان لائے ہیں کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے‘‘ ۔اس خوشخبری کے
فوراً بعد کی جانے والی تلقین سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب داعیٔ اسلام اپنے فرضِ
منصبی کو ادا کرنے کے لیے قدم بڑھاتاہے تو ا سے کن مراحل سے سابقہ پیش آتا
ہے ۔
ارشادِ قرآنی ہے:’’ ہرگز نہ دبو کفار و منافقین سے اور ان کی اذیت رسانی
کی کوئی پرواہ نہ کرو ‘‘ ظاہر ہے اس ہدایت کی ضرورت اسی وقت پیش آئے گی جب
کفار و منافقین داعیانِ اسلام پر دباو ڈال کر بلکہ ایذارسانی کرکے انہیں
روکنے کی کوشش کررہے ہوں گے۔ داعیانِ اسلام کو ایسی صورتحال میں ان کی
پرواہ کیے بغیر اپنا کام جاری رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ دعوت کی مخالفت کے
دوران اس کام کو جاری رکھنا سہل نہیں ہوتا اس لیے کہا گیا کہ :’’ اور
بھروسہ کر لو اللہ پر، اللہ ہی اس کے لیے کافی ہے کہ آدمی اپنے معاملات اُس
کے سپرد کر دے ‘‘۔ یعنی انسان اگر دنیا کی دیگر طاقتوں سے یہ توقع وابستہ
کرے کہ ان کے تعاون و حمایت کے بغیر وہ اس ذمہ داری کو ادا نہیں کرسکے گا
تو یہ سوچ درست نہیں ہے۔ داعیان اسلام کا مکمل اعتماد صرف اور صرف خدائے
واحد پر ہونا چاہیے اور سارے معاملات کو اسی کارسازِ ہستی کے حوالے کیاجانا
چاہیے۔ دیگر حامیان اسلام کی حیثیت ثانوی ہے جبکہ بنیادی اہمیت توکل الی
اللہ پر ہی ہے۔ اس کے بغیر کارِ دعوت کو انجام دینا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے
انجام کی پروا کیے بغیر اس فرض منصبی کی ادائیگی لازم ہے۔
|